ایک صاحب کریانہ فروش کی دکان پر گئے اور
بولے:۔
’’بھائی زرا مچھر مارنے کی کوئی ایسی دوا دے دیں جو شرطیہ مچھر مار سکے،
لیکن ہو زرا سستی!‘‘۔
دکاندار نے جھٹ سے ایک سر بمہر پڑیا نکال ان صاحب کے ہاتھ میں دھردی اور
مسکراتے ہوئے بولا:۔
۔’’بڑے صاحب بے فکر ہو کر لے جائیں، آزمائی ہوئی شے ہے اور مچھر کے ہلاک
ہونے کی مکمل گارنٹی، ترکیب ِاستعمال پڑیا کے اندر موحود ہے، قیمت صرف ایک
روپیہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !!!‘‘۔
وہ صاحب سارے راستے دل ہی دل میں ’’کم خرچ بالا نشین‘‘ کا جاپ چپتے گھر
پہنچے اور فوراً ہی وہ پڑیا کھول ڈالی۔ پڑیا میں سے دو چھوٹے چھوٹے گول
پتھر اور ایک پرچہ برآمد ہوا۔ پرچے پر تحریر تھاـ
مچھر مار کمپنی کی فخریہ پشکش ، ہر قسم کے مچھروں کو ہلاک کرنے کا شرطیہ
طریقہ مطلوبہ نتائج کے حصول کے لئے ترکیب ِاستعمال پر عمل کرنا لازمی شرط
ہے۔
ترکیب ِ استعمال:۔
پڑیا میں دیئے گئے دونوں گول پتھروں کو ہاتھوں میں لے کر متاثرہ مقام پر
بیٹھ جائیں اور دائیں ہاتھ والے پتھر کو فضاء میں کچھ اسطرح سے بلند کریں
کہ ہر لمحہ آپکی کڑی نظر اس پر رہے۔ اب جیسے ہی کوئی مچھر اس پتھر پر
بیٹھے فوراً ہی بائیں ہاتھ والے پتھر کو دائیں پتھر پر زور سے ماریں،
انشاءاللہ مچھر بناء کسی چوں چرا کئے فوراً ہی مر جائے گا۔
احتیاطی تدابیر:۔
اس ساری مشق کے دوران غلطی سے یہ شعر دھیرے سے بھی گنگنانے کی کوشش نہ کریں،
اگر مچھر کے کان میں بھنک بھی پڑ گئی تو وہ محتاط ہوجائیں گے اور ہرگز ہرگز
پتھر پر براجمان نہ ہونگے:۔
انہی پتھروں پہ چل کے اگر آسکو تو آؤ
میرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے
یہ ہی حکم اس شعر پر بھی لاگو ہوتا ہے:۔
پتھروں آج میرے سر پھ برستے کیوں ھو
میں نے تم کو بھی کبھی اپنا خدا رکھا ہے
اگر آپ کے ہاتھ رعشہ زدہ ہیں تو بھی خاص فکر کی کوئی بات نہیں، البتہ اس
امر کو مچھروں سے پوشیدہ رکھنا اشد ضروری ہے، مچھروں پر یہ ظاہر کریں کہ
آپکے ہاتھوں میں خدانخواستہ ہرگز رعشہ نہیں، وہ تو آپ بس شٌغل شٌغل میں
ہی یا پھر بوریت دٌور کرنے کے لیے اپنے ہاتھوں کو ہلا رہے ہیں۔
نوٹ: کسی بھی قسم کے گھریلو جھگڑے کی صورت میں پتھروں کو بیوی کی پہنچ سے
دور رکھیں، کسی بھی ناخوشگوار واقعے کے پیش آنے کی صورت میں فوری ڈاکٹر سے
رجوع کریں، حالت زیادہ خراب ہوجانے کی صورت میں کسی عطائی ڈاکٹر یا محلے کے
کمپاؤنڈر کی خدمات سے بھی استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ کمپنی کسی بھی قسم کے
نقصان کے ازالہ کی ذمہ دار نہ ہوگی۔
منی بیک گارنٹی:۔
ترکیب کے درست استعمال کے باوجود اگر مچھر نہ مریں تو پہلے تو یہ اچھی طرح
سے سمجھ لیں کہ آپ کے گھر کے مچھر آپ ہی کی طرح سے ڈھیٹ ہوچکے ہیں، پھر
بھی اگر آپ کی تسلی نہ ہو تو آپ یہ پتھر دکاندار کے منہ پر ماریں ( اپنی
صوابدید پر) اور اس سے اپنے بل بوتے پر اپنی رقم واپس طلب کریں۔ ترکیب کے
درست استعمال کے ثبوت کے طور پر کم از کم دو مچھروں کی گواہی ساتھ لانا
لازم ہے۔ اب اگر آپ مچھروں سے ساز باز کرلیں تو یہ اچھی طرح سے سمجھ لیں
کہ آپکو مرنے کے بعد اللہ کو بھی منہ دکھانا ہے۔
ہاں تو صاحبان، بات اگر اس مچھر مار کمپنی کی حد تک رہتی تو ٹھیک تھا لیکن
اب تو انتہا ہی ہوگئی۔
لندن کے ایمپریل کالج کی معروف ریسرچر ڈاکٹر فلیمینیا کیٹا روسیا کے مطابق
نر مچھروں کو بانجھ بنا کر ملیریا پھیلانے والے مادہ مچھروں کی نسل کشی کی
جاسکتی ہے۔
ٹھیک ہے جناب ان کی بات پر سر ِ تسلیم ِ خم لیکن اصل بات جس نے ہمارے ہوش
اڑا دیئے وہ تو کچھ اور ہی ہے۔ موصوفہ فرماتیں ہیں:۔
۔’’ہمیں یہ بات یقینی بنانا ہوگی کہ بانجھ نر مچھر، مادہ مچھروں سے ملتے
رہیں اور انہیں اس بات کا اندازہ نہ ہو کہ انکی تخم ریزی کی صلاحتوں میں
کوئی بیرونی روکاٹ پیدا کی جارہی ہے‘‘۔
(روزنامہ جنگ، کراچی، مورخہ 10 اگست 2011ء)
واہ صاحب واہ، یہ تو اس سے بھی مشکل معاملہ ہے، جسمیں پہلے تو آپکو ایک
پتھر پر مچھر کو تشریف رکھنے پر مجبور کرنا ہے اور پھر تاک کے نشانے پر
دوسرا پتھر مارنا ہے، اب اگر آپ کے نصیب اور نشانہ دونوں ہی اچھے ہوں تو
ٹھیک اور کیا معلوم کہ یہ مچھر کی نسل بھی کوؤں کی طرح شاطرانہ ذہنیت کی ہی
حامل ہو۔ کم بخت نشانہ باندھنے تک بھی کسی بےفکر عاشق کی طرح سے کوچہءجاناں
سے اٹھنے کا نام ہی نہیں لیتے، لیکن جہاں آپ کا ہاتھ نشانہ چلانے کیلیئے
حرکت میں آیا وہاں ظالم یہ جا اور وہ جا۔
لیکن اب ان ڈاکٹرنی صاحبہ کی تحقیق کے نتیجے میں تو معاملہ اور سنگین بلکہ
رنگین ہوگیا ہے۔ پہلے آپ ایک مچھر پکڑیں اور پھر اسے خدا معلوم طریقے سے
نہ صرف بانجھ بنائیں اور کچھ اس کاریگری سے بنائیں کہ اسے کانوں کان خبر تک
نہ ہو کہ اسکے ساتھ کیا ہاتھ ہوگیا ہے اور پھر وہ مچھر موصوف اپنی (زائل
شدہ) مردانگی کے زَعْمِ میں صنف ِ نازک (مچھروں کی) پر ڈورے بھی ڈالتا رہے
اور اسے احساس تک نہ ہو کہ وہ اس مچھرنی کے بچوں کے ابا بننے کی صلاحیتوں
سے یکسر محروم ہوچکا ہے۔
عرصہ دراز ہوئے ایک نامعقول سی بھارتی فلم میں ایک انتہائی چھچورا سا
ڈائیلاگ سنا تھا:۔
’’سالا ایک چھوٹا سا مچھر اتنے بڑے آدمی کو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بنا دیتا ہے‘‘۔
لیکن اس خبر کی اشاعت کے بعد (اگر اب تک مچھروں نے بھی یہ خبر پڑھ لی ہے تو)
سارے مچھر یہ کہتے پھر رہے ہونگے:۔
’’سالا اتنا بڑا آدمی ایک چھوٹے سے مچھر کو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ بنایتا ہے‘‘۔
تمام پڑھنے والوں سے معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ ہم اپنی شرمیلی طبعیت کے سبب
اس قطعاً غیر اخلاقی لفظ کا نام نہیں لے پارہے ہیں لیکن یہاں جگہ خالی چھوڑ
رہے ہیں، تاکہ پڑھنے والے اپنے حوصلے و اِسْتِطاعَت کے مطابق خالی جگہ خود
ہی پر کرلیں۔
لیکن اب سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا یہ ڈاکٹرنی صاحبہ کس طرح سے دنیا
بھر کے نرمچھروں کو بانجھ بنانے کا عظیم الشان کارنامہ سرانجام دیں گیں اور
وہ جو بھی طریقہ کار ہوگا اول تو ہمارے جیسے تیسری دنیا کے ممالک میں کیسے
کامیاب ہوسکے گا کہ جہاں آج تک انسان تک پوری طرح سے خاندانی منصوبہ بندی
کے طریقوں پر عمل درآمد کر نہ سکے یا اٌن سے کرایا نہ جا سکا، بھلا اب
کوئی ان سے جا کر یہ تو پوٌچھے کہ انکے اس شاندار منصونے پر ہماری تیسری
دنیا کے مچھروں سے کیا خاک عمل کروایا جاسکے گا۔
چلیئے بلفرض ِمحال اگر کسی خفیہ آسمانی و سلیمانی طریقہ کار کے تحت سارے
نر مچھروں کو قابو کرکے انپر صبط ِتولید کا کوئی تیزبہدف نسخہ آزما بھی
لیا گیا تو جیسا کہ ڈاکٹرنی صاحبہ کا فرمانا ہے کہ:
’’ہمیں یہ بات یقینی بنانا ہوگی کہ بانجھ نر مچھر، مادہ مچھروں سے ملتے
رہیں اور انہیں اس بات کا اندازہ نہ ہو کہ انکی تخم ریزی کی صلاحتوں میں
کوئی بیرونی روکاٹ پیدا کی جارہی ہے‘‘۔
اب یہ بھی غریب عوام ہی کی سردردی ٹھری کہ پہلے تو ان نر مچھروں کو بانجھ
بنایا جائے اور وہ بھی اسلیے کہ مقتول کو یہ تک کو یہ نہ پتہ چلے کہ وہ قتل
ہوچکا ہےِ بقول شاعر:۔
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
اور پھر اس امر کو بھی یقینی بنانا ہوگا کہ مچھر موصوف کے مادہ مچھروں سے
ملتے رہنے کے لیے ماحول بھی سازگار رہے۔
وہسے بائی دے وے یہ ڈاکٹرنی صاحبہ کو مچھروں کی زہانت پر اتنا پھروسہ کیوں
ہے کہ انہیں یہ شبہ ہو جائیگا کہ ان کے اور انکی آنے والی نسلوں کے خلاف
کیا کھیل کھیلا گیا ہے ، لو بھلا بتاؤ جیسے مچھر نہ ہوئے اپنے قریش پور
صاحب والی کسوٹی کے عبید اللہ بیگ اور غازی صلاح الدین ہو گئے کہ ہر بات،
ہر پہیلی کو بوجھ ہی لیں گے۔
ویسے ممکن ہے کہ چونکہ ڈاکٹرنی صاحبہ کا تعلق برطانیہ سے ہے اور کیا معلوم
شاید برطانیہ کے مچھر اتنے زہین ہی ہوں، البتہ ہم اپنی طرف یعنی پاکستانی
مچھروں کے بارے تو قسم کھا کر کہہ سکتے ہیں کہ انہیں کسی طور بھی یہ پتہ نہ
چل سکے گا کہ ان کے ساتھ آخر ہوا کیا ہے؟، ارے بھیاء جب ان مچھروں کے
ہموطن، ہم جیسے سوج بوجھ رکھنے والے انسانوں تک کو تو آج تک یہ سمجھ نہ
آسکا کہ انکی حکومت، ان ہی کے منتخب کردہ نمائندے، سرکاری اہلکار اور ان
کی قسمتوں کے سیاہ و سفید کے مالک ان کے ساتھ کیا کیا ہاتھ کرگئے ہیں اور
ہر آنے والے دن ایک سے بڑھ کر ایک نیاء ہاتھ کرتے رہتے ہیں تو اس حقیر سے
کیڑے کی بھلا کیا مجال ہے کہ اس کی انتہائی باریک عقل میں یہ بات سما بھی
سکے۔
ہاں برطانیہ سے یاد آیا کہ ان دنوں تو اسکا حال بھی کچھ اپنے کراچی سے کم
تو نہیں دکھائی دے رہا ہے اور اگر برطانوی مچھر اتنے ہی زہین ہیں جتنا
ڈاکٹرنی صاحبہ انہیں سمجھ رہی ہیں تو پھر کہیں ایسا نہ ہو کہ سارے کے سارے
برطانوی مچھر ’’متحدہ مچھر محاز‘‘ (ایم - ایم - ایم) قائم کرلیں اور پھر
برطانیہ بھر کے ماہرین ِ مچھریات کی خیر نہ ہو اور جسطرح سے فسادیوں نے
ساری دکانیں، سپر مارکٹیں اور شاپنگ سینٹرز کو لوٹ کر انہیں آگ لگا دی،
کہیں سارے برطانوی مچھر مل کر مچھروں کے خلاف تحقیقات کرنے والے اداروں ہی
کو آگ نہ لگا دیں اور ان میں کام کرنے والے ماہرین کو کاٹ کاٹ کر انہیں
مستقل ملیریا کا مریض ہی نہ بنا دیں، بقول شاعر:۔
دیوانہ کہیں تم کو نہ دیوانہ بنا دے |