با اختیار یا پھر بے اختیار... حکومتی وعدے کے باوجود خواتین کو اسکوٹی کیوں نہ مل سکی؟

image
 
پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ یہاں کوئی حکومت اپنا دور مکمل نہیں کر پاتی۔ کیا ہم نے سوچا ہے کہ غیر مستحکم سیاسی حالات کس طرح ہمارے ملک کی معیشت اور ترقی کو برباد کر رہے ہیں۔ حکومت میں تبدیلی کی وجہ سے سبکدوش ہونے والی حکومت کے شروع کیے گئے پروگراموں کے لیے غیر یقینی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے۔
 
غیر یقینی سیاسی صورتحال ان پروگراموں سے مستفید ہونے والوں کے لئے شدید مایوسی کا باعث ہے جنہوں نے کسی بھی ترقیاتی اسکیم پر اپنی خون پسینے کی کمائی لگائی ہو وہ سیاست دانوں کو جب اس بات پر بحث کرتے دیکھتے ہیں کہ کون سے اقدامات جاری رہنے کے لائق ہیں اور کون سے اقدامات قوم پر بوجھ ہیں تو ان کا دل خون کے آنسو روتا ہے۔ ان کا تو ہر طرح سے سراسر نقصان ہی نقصان ہے۔
 
اگر خواتین کو بااختیار بنانے کے ماضی کے اقدامات کی تاریخ دیکھی جائے شروع کی گئی اسکیموں کا مستقبل مشکل میں ہے۔ مثال کے طور پر جب پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل این) 2013 سے 2018 تک پنجاب میں برسراقتدار تھی اس نے خواتین کو بااختیار بنانے اور تحفظ کے لیے مختلف اسکیمیں شروع کیں جن میں سب سے قابل ذکر وومن آن وہیلز پروجیکٹ اور خواتین کے خلاف تشدد کو روکنے کے اقدامات کا قیام تھا۔
 
image
 
وومن آن وہیلز ایک پروگرام جس کا مقصد پنجاب میں خواتین کو سکوٹر فراہم کر کے ان کی نقل و حرکت میں اضافہ کرنا تھا اور باقاعدہ یہ اسکوٹی کئی شہروں میں خواتین کو فراہم بھی کی گئیں لیکن جب پی ٹی آئی صوبے میں برسراقتدار آئی تو اس کو روک دیا گیا۔ انہوں نے اس بات کی بھی وضاحت نہیں کی کہ آیا خواتین کو بااختیار بنانے کے حوالے سے پی ٹی آئی کے کوئی اقدامات جاری رہیں گے یا نہیں۔ خواتین کو بااختیار بنانے کی پالیسیوں پر تحقیق کرنے والی ڈاکٹر آمنہ صدیق صوفی کی یقین دہانیوں کے باوجود ان اسکیموں کا تسلسل خطرے میں ہے۔
 
 ڈاکٹر آمنہ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سیاسی حکومتیں اپنے مقاصد کے لیے خواتین کو بااختیار بنانے کے اعلانات اور دعوے کرتی رہی ہیں لیکن عملی طور پر بہت کم کام کیا گیا ہے۔
 
WOW- ویمن آن وہیلز پروجیکٹ خواتین کو سماجی طور پر بااختیار بنانے کے لیے حکومت پنجاب کا ایک اہم اور بہترین منصوبہ تھا- جس کے تحت تربیت یافتہ اور لائسنس یافتہ خواتین اساتذہ اور طلباء کو اسکوٹی فراہم کی جانی تھیں۔ ایک سال کی 3000 روپے ماہانہ قسطوں کے ساتھ یہ سہولت صرف 30000 یا اس سے کم تنخواہ پانے والی خواتین کے لئے تھی۔
 
ویسے تو یہ سہولت صرف پنجاب کے لئے تھی لیکن سندھ حکومت نے بھی اس اسکیم پر عمل درآمد کا ارادہ ظاہر کیا تھا۔آخر ان ترقیاتی اسکیموں کو برقرار کیوں نہیں رکھا جاتا۔ اس کا تعلق تو عوام سے ہے اور ہر پروجیکٹ کے پیچھے غریب عوام اپنا پیسہ لگاتی ہے تاکہ مستقبل میں اسے سہولت میسر ہو ۔
 
image
 
دیکھا جائے تو یہ ایک بہترین آفر تھی پٹرول کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں بسوں اور وینوں کے کرائے ناقابل برداشت ہیں کم تنخواہ والے لوگ کس طرح گزارا کریں۔ ساری دنیا میں گاڑی کا سفر پر تعیش مانا جاتا ہے۔ لوگ زیادہ تر میٹرو سسٹم استعمال کرتے ہیں۔ ایک انسان کے سفر کے لئے تو گاڑی کسی طرح مناسب نہیں۔
 
ہمارے ہاں خواتین کہیں جانے کے لئے دوسروں کی محتاج ہوتی ہیں اگر دوسرے ممالک کی طرح یہاں بھی وومن اسکوٹر کا رواج عام ہو جائے تو ہماری خواتین بھی کسی حد تک خودمختار ہو سکیں گی۔ موجودہ حکومت سے امید ہے کہ وہ اپنے ان ترقیاتی پروجیکٹس کو جاری کر کے عوام کی سہولت کے لئے مزید اسکیمیں لائیں گے۔
 
سندھ حکومت سے بھی درخواست ہے یہاں تو ایک ہی پارٹی کی حکومت رہی ہے اور ان کو عدم استحکام کا خطرہ بھی نہیں ۔ WOW- ویمن آن وہیلز پروجیکٹ جیسے ترقیاتی کاموں کی کراچی کو اشدضرورت ہے یہاں نوکری کرنے والی خواتین کی تعداد بہت ذیادہ ہے جس کے لئے انھیں ہر روز سفر کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کو سہولیات کی فراہمی کا سوچا جائے۔
YOU MAY ALSO LIKE: