اسلامی معاشی نظام کے مقاصد

اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے قرآن و سنت کے ذریعے سے جو ضابطہء حیات عطا کیا ہے،اس کا ایک حصہ معیشت بھی ہے۔دین_اسلام کا معاشی نظام، دنیا میں رائج دیگر نظاموں مثلاً اشتراکیت ،اشتمالیت، سرمایہ دارانہ نظام سے مختلف ہے اور اپنی ایک جداگانہ حیثیت رکھتا ہے۔اس کے کچھ اصول و ضوابط اور کچھ مقاصد رکھے گئے ہیں جن میں انسانیت کی فلاح_دنیوی کے ساتھ آخرت کی کامیابی کو بھی پیشِ نظر رکھا گیا ہے۔ ذیل میں ان مقاصد کا اجمالی جائزہ لیا گیا ہے:
اولین مقصد یہ کہ ریاست اس قابل ہو کہ عوام کو “حق المعاش ” فراہم کرسکے،قوم کے ہر فرد کو حلال ذرائع روزگار سے کمانے کے مواقع میسر ہوں،ہر فرد اپنی صلاحیتوں اور وسائل کے مطابق روزی کمانے میں آزاد ہو ۔اس پر صرف اتنی پابندی ہو کہ وہ دوسروں کی فلاح اور کمائی میں رکاوٹ نہ بنے۔ہر فرد کو روزگار اور تجارت کے لئے سفر کی اجازت اور سہولت میسر ہو۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
فانتشروا فی الارض وابتغوا من فضل اللہ -سورہ جمعہ۔
ترجمہ:پس زمین میں پھیل جاو اور اللہ کا فضل یعنی رزق تلاش کرو۔
حدیث شریف میں ہے :
اجملوا فی طلب الدنیا فان کلا میسر کما خلق لہ۔
ترجمہ: دنیا کی طلب اپنی صلاحیت کے مطابق کرو اس لئے کہ جس کےلئے آدمی پیدا کیا گیا ہے ،وہ اسے ضرور ملے گا - بخاری و مسلم ۔
اسلامی معاشی نظام کے مقاصد میں معاشرے میں “معاشی عدل و مساوات” قائم کرنا بھی ہے کہ تمام افراد کو روزگار کے یکساں مواقع ملیں ۔معاشرے میں طبقاتی تعصبات نہ ہوں بلکہ باہمی تعاون اور ہم آہنگی کی فضا ہو۔ دولت چند ہاتھوں میں سمٹ کے نہ رہ جائے بلکہ ہر فرد اپنی صلاحیتوں اور محنت کے مطابق ترقی کرنے کا حق رکھتا ہو۔
ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے :
لا یبیعن احدکم علی بیع اخیہ ۔بحوالہ بیہقی شریف۔
ترجمہ: کوئی شخص ،دوسرے بھائی کی بیع کو نہ خریدے _
یعنی اگر دو مسلمان افراد آپس میں سودا طے کر چکے ہوں تو کوئی تیسرا فرد زیادہ بولی لگا کے ان کا سودا خراب نہ کرے کہ محض اپنے فائدے کے لئے دوسرے کا نقصان کردے ۔اس سے خود غرضی کا بھی سدباب ہو جاتا ہے۔
آج کل عمومآ تجارت یا کاروبار کو دنیاوی کام گردانا جاتا ہے اور دین کو صرف چند رسومات تک محدود کر کے دین اور دنیا کو الگ سمجھا جاتا ہے جب کہ اللہ تعالیٰ نے معیشت کے مقاصد واضح کرکے اسے بھی عبادت کا درجہ دے دیا ہے۔ انبیائے کرام علیہم السلام کی مثالیں موجود ہیں کہ وہ کسی کی ملازمت کو بھی عار نہیں سمجھتے تھے جیسے حضرت شعیب علیہ السلام نے کی اور تجارت اور کاروبار بھی کیا کرتے تھے جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا۔ کفار کو اس پہ بہت اعتراض ہوتا تھا جیسا کہ قرآن پاک میں آیا ہے:
ترجمہ: اور انھوں نے کہا ،بھلا یہ کیسا رسول ہے ،یہ تو کھانا بھی کھاتا ہے اور بازاروں میں بھی آتا جاتا ہے ۔)سورہ الفرقان25:7(
پھر رب العالمین نے اس کا جواب بھی خود ہی دیا:
ترجمہ: ہم نے آپ سے پہلے رسولوں کو نہیں بھیجا مگر وہ بھی کھانا کھاتے تھے اور تجارتی مراکز میں بھی چلا پھرا کرتے تھے!.
حج کے ایام میں ،جو ایک روحانی سفر ہے ،اس کے دوران بھی تجارت کی اجازت دی گئ۔ارشاد ہوا:
ترجمہ: تم پر کوئ گناہ نہیں اگر تم ) دوران_حج( اپنے پروردگار کا فضل بذریعہ تجارت حاصل کرو۔البقرہ 2:198.
اسلام کے معاشی نظام میں ایک اہم مقصد ،“فرد کو شخصی ملکیت کی اجازت دینا” ہے۔اسلام کا منشاء ہے کہ ہر فرد اپنی محنت کی کمائی کا پھل کھا سکے اور حلال ذرائع روزگار سے جائیداد بھی بناسکے۔ اسلام ایسے نظام کے خلاف ہے جس میں کسی شخص سے اس کا حق_ ملکیت چھین لیا جائے اور اس کے وسائل اجتماعی ملکیت میں یا ریاست کے قبضے میں ہوں جیسا کہ دنیا کے بعض ممالک میں رائج ہے حالانکہ یہ بھی ظلم کا نظام ہے۔
اسلام کے معاشی نظام کے مقاصد میں ملک میں عدل و انصاف، سچائی، وعدہ وفا کرنا،دیانت داری کا نظام قائم کرنا بھی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: اور کہہ دو کہ میں ہر اس کتاب کو مانتا ہوں جو اللہ نے نازل کی اور مجھے یہ حکم ملا ہے کہ تمہارے درمیان انصاف کروں _)سورہ شوری':15(
ایک مقام پر ارشاد ہوا:
ترجمہ:تباہی ہے کمی کرنے والوں کے لئے کہ جب لوگوں سے لیتے ہیں تو پورا ماپ کرلیتے ہیں اور جب انھیں ماپ یا تول کر دیتے ہیں تو کم کرکے دیتے ہیں ۔)سورہ المطففین 83:11(
دنیا میں اس وقت جو آجر اور مزدور ،امیر اور غریب کے مابین کش مکش چل رہی ہے ،اگر اسلامی نظام_ معیشت رائج ہو تو یہ کش مکش پیدا ہی نہ ہو۔صاف ستھرے اور دیانت دارانہ طریقے سے معیشت کو چلانا آخرت کے اجرو ثواب اور درجات کی بلندی کا بھی ذریعہ ہے جیسا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
سچا اور امانت دار تاجر )آخرت میں ( انبیاء، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا۔ترمذی شریف۔
اسلام کے معاشی نظام کے مقاصد میں،دنیا کی کامیابی کے ساتھ آخرت کی کامیابی اور سرخروئی بھی پیش_نظر ہے ،اس لئے حلال ذرائع آمدن کے ساتھ حرام اور ناجائز ذرائع مثلاً دھوکہ دہی ، رشوت ،جوا، اجارہ داری،ذخیرہ اندوزی وغیرہ کو حرام قرار دیا گیا ۔سود کی ممانعت قرآن پاک میں بیان کی گئ ۔ارشاد ہوا:
ترجمہ: اے ایمان والو،اللہ سے ڈرو اور باقی ماندہ سود چھوڑ دو اگر تم مومن ہو،اگر تم ایسا نہ کروگے تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلان_ جنگ سن لو اور اگر تم توبہ کرلو تو تمہارے اصل مال تمہارا حق ہیں ،نہ تم ظلم کرو اور نہ تم ظلم کئے جاو اور اگر )مقروض( تنگ دست ہے تو اسے اس کی فراخ دستی تک مہلت دو اور تمہارا صدقہ کرنا زیادہ بہتر ہے اگر تم جانتے ہو۔ البقرہ،278،280.
جاپان جیسے ترقی یافتہ ملک میں سود کو ختم کردیا گیا ہے تو ہمارے ملک میں بھی ختم کیا جاسکتا ہے۔
اسلامی نظام معیشت میں چوں کہ ساری انسانیت کی فلاح درپیش ہوتی ہے اس لئے صلہ رحمی بھی رکھی گئ کہ اموال وراثت میں رشتہ داروں کو پیش نظر رکھا جائے اور زکوٰۃ، عشر ،خراج ، جزیہ ،صدقات اور وقف کا نظام بھی قائم کیا گیا تاکہ امراء و رئیس کے اموال میں معاشرے کے نادار اور محتاج طبقات کا بھی حق ہو ،کوئ فرد بھوکا نہ سوۓ جیسا کہ امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب فرمایا کرتے تھے کہ دریا کے کنارے ایک بکری کا بچہ بھی بھوک سے مر گیا تو روز آخرت عمر جواب دہ ہوگا۔اسی فکر کی وجہ سے وہ راتوں کو سونے کی بجائے ،عوام کی حالت جاننے کے لئے گشت کیا کرتے تھے اور اشیاۓ خوردونوش کے تھیلے اپنی کمر پر لاد کے لے جایا کرتے تھے۔
اسلامی معاشی نظام کے مقاصد میں عوام کو روٹی ،کپڑا ،مکان فراہم کرنا لازم ہے جس کی ذمہ داری ریاست پہ ہے کیوں کہ اس کے پاس بیت المال کی صورت میں تمام ذرائع آمدن موجود ہوتے ہیں اور کفالت عامہ کے نظام کو جاری کرنا ریاست کا فریضہ ہوتا ہے۔
خوش حال عوام ہی خوش حال ریاست کا سب بنتے ہیں۔قوموں کا وجود مضبوط معیشت کا مرہونِ منت ہوتا ہے اس لئے معاشی مسائل کا حل “اسلامی نظام معیشت ” میں ہی موجود ہے۔ اس نظام کی خاطر جدوجہد کرنا ہر ذی شعور مسلمان پر لازم ہے !
بقول اقبال
یہ حکمتِ ملکوتی ،یہ علم_ لاہوتی
حرم کے درد کا درماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
یہ ذکرِ نیم شبی،یہ مراقبے یہ سرور
تری خودی کے نگہباں نہیں تو کچھ بھی نہیں
خرد نے کہہ بھی دیا ،لا الہ تو کیا حاصل
دل و نگاہ جو مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں!