آبِ شامِ فنا اور آبِ صُبحِ بقا

#العلمAlilm علمُ الکتاب سُورَةُالطُور ، اٰیت 17 تا 28 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
ان
المتقین فی
جنٰت و نعیم 17
فٰکھین بما اٰتٰہم ربھم
ووقٰھم ربھم عذاب الجحیم
18 کلاوا و اشربوا ھنیئا بما کنتم
تعملون 19 متکئین علٰی سرر مصفوفة و
زوجنٰہم بحور عین 20 والذین اٰمنوا و اتبعتھم
ذریتہم بایمان الحقنابھم ذریتھم و ما التنٰہم من عملھم
من شئی کل امرئ بما کسب رھین 21 و امددنٰھم بفاکھة و لحم
مما یشتھون 22 یتنازعون فیھا کاسا لا لغو فیھا و لا تاثیم 23 و یطوف
علیھم غلمان لھم کانھم لؤلؤ مکنون 24 و اقبل بعضھم علٰی بعض یتساء لون
25 قالوا انا کنا قبل اھلنا مشفقین 26 فمن اللہ علینا ووقٰنا عذاب السموم 27 انا
کنا من قبل ندعوهٗ انهٗ ھوالبررحیم 28
گزری ہوئی اٰیات کے گزرے ہوۓ مضمون میں جن اہلِ جہنم کا ذکر کیا گیا ہے وہ اُن کے بُرے اعمال کے بُرے اَنجام کا ایک بُرا ذکر ہے اور گزرنے والی اٰیات کے گزرنے والے مضمون میں جن اہلِ جنت کا ذکر کیا جا رہا ہے وہ اُن اہلِ جنت کے اعلٰی اعمال کے اعلٰی اَنجام کا ایک اعلٰی ذکر ہے جس کی ایک مُجمل سی تفصیل یہ ہے کہ اُس جنت میں اُن اہلِ جنت کو جو آسائشیں اور جو آرائشیں ملیں گی وہ اِس اعزاز و امتیاز اور اِس خوش خبری کے ساتھ ملیں گی کہ یہ تُمہارے اپنے ہی اعلٰی اعمال کا ایک اعلٰی مآل ہے جس کے تُم حق دار ہوۓ ہو اِس لیۓ تُم اِس جنت کی اِس حیات میں بلا مشقت ملنے والا رزقِ حیات خوشی سے کھاتے رہو اور بلا مُشقت ملنے والا آب حیات بھی خوشی سے پیتے رہو ، اُن اہلِ جنت کی اُس جنت میں جاہ و منصب کے اعتبار سے کوئی انسان کسی انسان سے کم تر نہیں ہوگا بلکہ ہر ایک انسان کا جاہ و منصب ہر ایک انسان کے جاہ و منصب کے برابر ہوگا ، اُن کو اُس جنت میں اُن اہلِ جنت کے صاف سُتھرے جسم و لباس والے جنتی خدمت گار کھانے پینے کے لیۓ ہر روز کے بدلتے ہوۓ موسموں کے صاف سُتھرے موسمی فواکہات و لَحمیات اور مشروبات ہر روز اِس کثرت سے فراہم کریں گے کہ اُن کی چھینا جھپٹی کی وہ خواہش ہمیشہ کے لیۓ ختم ہو جاۓ گی جو دُنیا میں انسان کی ایک انسانی عادت ہوتی تھی ، اُن کو اُس جنت میں وہ آبِ استقلال ہی نہیں دیا جاۓ گا جو صرف اُن کی تشنگی بُجھاتا تھا اور وہ آبِ اضمحلال بھی نہیں دیا جاۓ گا جو صرف اُن کی آرزدگی بڑھاتا تھا بلکہ اُن کو وہ آبِ حیات دیا جاۓ گا جو اُن کو جانی و جسمانی طاقت اور ایمانی و رُوحانی طاقت دے گا ، اِن ایمان دار اہلِ جنت کی جو ایمان دار نسلیں اِن کے پیچھے پیچھے اُس جنت میں آتی رہیں گی وہ بھی اُن کی اس وسیع جنت کی وسعت میں سماتی رہیں گی اور کسی کو دیۓ گۓ کسی انعام و اکرام میں کوئی کمی نہیں ہوگی اور جب جنت میں وہ باہم ملنے والے اُس خوب صورت زندگی کے بارے میں ایک دُوسرے سے سوال کریں گے تو اُن کو ہر طرف سے یہی ایک جواب ملے گا کہ ہم دُنیا میں ایک دُوسرے کا جو خیال کیا کرتے تھے اِس لیۓ اللہ نے ہمیں اُن جلنے والے اعمال سے بچالیا ہے جو اِس انسانی جنت کو جلاکر راکھ بنادیتے ہیں اور اُس عمل کے بدلے میں جنت دے دی ہے جس میں خیر ہی خیر ہے اور یہ ہم پر ہمارے مہربان رَب کی ایک رحمت و مہربانی ہے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اِس سے پہلے بھی کئی بار جنت کے اِس مضمون کے ضمن میں عرض کیا گیا ہے کہ جنت انسان کے حصولِ لذت و ترکِ اَلَم کا وہی نفسیاتی و حیاےیاتی خیال ہے جس خیال کو خالق نے انسان کی نفسیاتی و رُوحانی تسکین و تسلّی کے لیۓ انسان کے اپنے مانوس خیالات اور انسان کی اپنی ہی مانُوس اصطلاحات کے مطابق انسان کے حُسنِ عمل کی شرط کے ساتھ آگے بڑھایا ہے اور انسان کو اِس اَمر کا یقین دلایا ہے کہ اللہ تعالٰی چونکہ اپنی مخلوق کے ساتھ محبت کرتا ہے اِس لیۓ جو انسان اللہ کی مخلوق کے ساتھ محبت کرے گا اور مخلوق کی ضروریات کا خیال رکھے گا وہ لازماً اُس جنت کا حق دار قرار پاۓ گا جو جنت اُس کے خیال میں بسی ہوئی ہے اور اُس جنت کو پانے کے لیئے حُسنِ عمل کی شرط اِس لیۓ رکھی گئی ہے کہ انسان کا ایک دُوسرے کے ساتھ کیا گیا حُسنِ عمل ہی جنت کا وہ تعمیری اینٹ گارا ہے جس سے وہ جنت تعمیر ہوتی ہے اور جو لوگ مخلوق کے ساتھ بالعموم اور انسان کے ساتھ بالخصوص ہمہ وقت حُسنِ عمل کرتے رہتے ہیں وہ ہمہ وقت اپنی وہ جنت تعمیر کرتے رہتے ہیں اور اُن کی زندگی میں آنے والا ہر دن اُن کو اُن کی اپنی اُس انفرادی و اجتماعی جنت کی طرف بڑھا رہا ہوتا ہے جس کے وہ آرزُو مند ہوتے ہیں ، انسان چونکہ اپنی حیات کا دوام اور اُس حیات کے ساتھ ایک تزک و احتشام بھی چاہتا ہے اِس لیۓ قُرآن نے انسان کو عمل اور رَدِ عمل کا وہ دائمی قانُون بھی سمجھا دیا ہے کہ انسانی زندگی پر ہر روز جو ایک دُھندلی سی شام آتی ہے اُس دُھندلی سی شام پر ایک صُبحِ خوش اَنجام بھی ضرور آتی ہے ، انسان کی ایک تو یہ دیکھی بھالی ہوئی دُنیا ہے جس میں وہ کُچھ وقت کے لیۓ آتا اور کُچھ وقت تک رہتا ہے اور ایک وہ اَن دیکھی دُنیا ہے جس میں انسان نے ہمیشہ کے لیۓ جانا اور ہمیشہ کے لیۓ رہنا ہے ، زندگی کے دو موسم ہیں جن کا قُرآن نے ذکر کیا ہے اور اِس دلیل و تمثیل کے ساتھ ذکر کیا ہے کہ انسان عمل کی جس دُنیا میں رہ رہنا ہے ، انسان کی اِس پہلی دُنیا کا موسم ایک عارضی موسم ہے اور اِس عارضی موسم کا رزق اور آب و دانہ بھی ایک ایسا عارضی رزق اور ایک ایسا ہی عارضی آب و دانہ ہے جس کے کھانے اور پینے کا اَنجام ایک عارضی موت ہے اور انسان نے نتائجِ عمل کی جس دائمی دُنیا میں جانا اور رہنا ہے اُس دُنیا کا موسم ایک دائمی موسم ہے کیونکہ اُس موسم میں داخل ہوتے ہی انسان کو جو پہلا تُحفہ دیا جاتا ہے وہ جنت کا وہ آبِ حیات ہوتا ہے جو اہلِ حیات کی حیات اور عُمرِ حیات کو ایک دائمی حیات اور ایک دائمی عُمر کا حامل بنا دیتا ہے ، انسان چونکہ کسی کی غلامی میں نہیں رہنا چاہتا اس لیۓ انسان کو انسان کی اُس خیالی جنت کے اِس ذکر کے درمیان یہ بھی بتادیا گیا ہے کہ انسان کی یہ جو خیال میں آنے والی اور اللہ تعالٰی کی طرف سے ایک مثال میں سمجھائی جانے والی جنت ہے اُس جنت میں کوئی جاگیر داری نظام ، کوئی سرمایہ داری نظام اور کوئی سرداری نظام نہیں ہو گا بلکہ اعمالِ خیر کے نتائجِ خیر کا وہ ایک ہی عادلانہ نظام ہو گا جس عادلانہ نظام کے مطابق جو انسان جنت کے جس درجے میں ہوگا وہ ایک دُوسرے سے کم تر یا برتر نہیں ہو گا بلکہ ہر انعام و اکرام میں ایک دُوسرے کے برابر ہو گا ، انسان چونکہ اپنی راحت کے لیۓ ایک خدمت گاری کا خیال بھی دل میں رکھتا ہے اِس لیۓ جنت کے اِس ذکر میں اُس کے اُن خدمت گاروں کی رضاکارانہ خدمت گزاری کا ذکر بھی کیا گیا ہے جو کبھی خود ہی خادم ہوں گے اور کبھی خود ہی مخدوم بھی ہوں گے کیونکہ اُس جنت میں اُن سب اہلِ جنت کا درجہ برابر ہو گا اِس لیۓ اُن کی ایک دُوسرے کے لیۓ جو رضا کارانہ خدمت گزاری ہوگی اُس جنت میں اُن کے ارتقاۓ حیات کی بھی ایک دلیل اور سبیل ہو گی کیونکہ اُن کی اُس خدمت گاری کی حقیقت ایک ہاتھ کے دُوسرے ہاتھ کو دھونے کے اُس عمل کی طرح ہوگی جس عمل میں ایک ہاتھ کا درجہ دُوسرے ہاتھ کے درجے سے کبھی بھی کم یا زیادہ نہیں ہوتا بلکہ ہمیشہ برابر ہوتا اور برابر رہتا ہے اور انسان چونکہ خود جو راحت پاتا ہے اپنی آل و اولاد کے لیۓ بھی وہی راحت چاہتا ہے اِس لیۓ اِس جنت کے اِس ذکر میں انسان کو یہ تسلّی بھی دی گئی ہے کہ اہلِ جنت کی نسل کے جو لوگ عمل و رَد عمل کے نظام سے گزر کر اعمالِ خیر کے ساتھ اُس جنت میں پُہنچیں گے اُن کو اُس جنت میں اُن کی محبت کے رشتوں کے ساتھ ہم رشتہ کر دیا جاۓ گا ، اِس کا یہ مطلب بہر حال واضح ہے کہ انسان جب دُنیا سے اُس دُنیا میں جاۓ تو اِس دُنیا میں اپنی ناکارہ و آوارہ نسلیں چھوڑ کر نہ جاۓ بلکہ ایسی سعادت مند اور تابع دار نسلیں چھوڑ کر جاۓ جو اِس دُنیا کے لیۓ مفید اور کار آمد ہوں کیونکہ اہلِ جنت کے اِس تذکرے میں نتیجہِ کلام کے طور پر قُرآن نے جو آخری بات بیان کی ہے وہ یہ ہے کہ اہلِ جنت کو جب وہ جنت ملے گی تو وہ اِس اَمر پر غور کریں گے کہ یہ جنت اُن کو اُن کے کس عمل کے بدلے میں ملی ہے اور وہ اِس نتیجے پر پُہنچیں گے کہ دُنیا میں چونکہ وہ اپنوں اور بیگانوں کا خیال کیا کرتے تھے اسی لیۓ اللہ نے اُن کو یہ جنت دی ہے اور قُرآن نے اُن کی اِس بات پر سکوت کیا ہے اِس لیۓ اَسبابِ جنت میں جس سب سے بڑا سبب ہو گا وہ مخلوق کی خدمت و بھلائی ہو گا اِس لیۓ زمین کی جو اقوام اِس دُنیا میں اِس عملِ خیر سے محروم ہیں گی وہ اِس دُنیا میں بھی خیر سے محروم رہیں گی اور اُس دُنیا میں بھی خیر سے محروم رہتی ہیں !!
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 876 Articles with 462205 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More