حکومت کا ہر چیز پر بھاری بھر کم ٹیکس لگانے کے بعد بھی
جی نہیں بھرا تو اس نے ایک لاکھ آمدن والے افراد اور صنعتوں پر مزید سپر
ٹیکس لگا دیا ہے. مہنگائی میں ہوشربا اضافہ کرنے کے بعد حکومت کا اگلا
اقدام ایک لاکھ کمانے والوں سے بھتہ وصول کرنا ہے. حکومت نے اب ایک لاکھ
کمانے والوں کی جیبوں کو بھی ٹٹولنا شروع کر دیا ہے. حکومت نے مہنگائی کرکے
اور بھاری بھر کم ٹیکس عائد کرکے عوام کے کپڑے پہلے ہی اتروا لیے ہیں اب یہ
سپر ٹیکس لگا کر عوام کی کھال اتارنے کی کوشش بھی کر رہی ہے. ایک لاکھ
کمانے والا حکومت کے ریڈار میں آ چکا ہے پھر پچاس ہزار کمانے والا بھی
حکومت کے شکنجے میں آ جائے گا اب وہ دن دور نہیں جب حکومت کہے گی کہ جو
کماؤ حکومت کی جھولی میں ڈال دو کیونکہ اس نے آئی ایم ایف کی قسط ادا کرنی
ہے اور کیونکہ پاکستان دیوالیہ نہ ہو جائے. حکومت نے صنعتوں پر ٹیکس لگانے
کے بعد اب سپر ٹیکس بھی لگا دیا ہے. کیا یہ صنعتیں اپنی جیب سے سپر ٹیکس
ادا کریں گی. بالکل بھی نہیں. یہ صنعتیں اسی حساب سے اپنی چیزوں کا ریٹ
بڑھا کر بوجھ عوام پر ڈالیں گی. حکومت کان ادھر سے پکڑے یا پھر ادھر سے
پکڑے بات ایک ہی ہے سپر ٹیکس کا بوجھ بھی بالآخر عوام کے ناتواں کندھوں پر
ہی آنا ہے. حکومت صنعتوں پر سپر ٹیکس لگا کر ان کی پراڈکٹ کے ریٹ کنٹرول
نہیں کر سکتی. اور نہ حکومت کا پہلے ہی کسی چیز پر کوئی کنٹرول ہے. ان
صنعتوں کو تو ویسے ہی ایک جواز مل جانا ہے اپنی اشیاء کا ریٹ ڈبل کرنے کا
کیونکہ انہوں نے سپر ٹیکس جو ادا کرنا ہے. حکومت صرف عوام کو بیوقوف بنانے
کی کوشش کر رہی ہے کہ دیکھیں ہم غریب عوام کو کچھ نہیں کہہ رہے ہم زائد
کمانے والوں اور بڑی صنعتوں پر ٹیکس لگا رہے ہیں. حالانکہ یہ ٹیکس بھی عوام
پر ہی لگنا ہے. یہ ٹیکس بھی عوام نے اپنے خون پسینے سے بھرنا ہے. ٹیکس پر
ٹیکس پھر سپر ٹیکس حکومت کو چاہیے عوام کی سانسوں پر بھی ٹیکس لگا دے تاکہ
جب جب یہ سانس لیں پیسہ حکومت کے خزانے میں جمع ہوتا رہے.
|