|
|
پاکستان کے سیاسی حالات اور اس کے اثرات نے حالیہ دنوں
میں عوام کی کمر مہنگائی کے سبب توڑ کر رکھ دی ہے- جس کی وجہ سے ایک جانب
تو عوام کے اندر سابقہ حکومت کے ختم ہونے کی ناراضگی ہے تو دوسری طرف
موجودہ حکومت کی ملک کی معیشت کو سنبھالنے کے لیے اور دیوالیہ ہونے سے
بچانے کے نام پر پٹرول کی قیمت میں تیزی سے اضافہ کیا جس نے ملک میں موجود
ہر چیز کو مہنگا کر دیا- |
|
ہر بری خبر کے ذمہ دار
مفتاح اسماعیل کیوں؟ |
وزیر خزانہ ہونے کی حیثیت سے مفتاح اسماعیل کی یہ مجبوری
ہے کہ پٹرول مہنگا ہونے سے لے کر عوام پر لگائے گئے ٹیکس تک کی خبریں مفتاح
اسماعیل ہی عوام تک پہنچاتے ہیں- یہی وجہ ہے عوام کے اندر مفتاح اسماعیل کے
حوالے سے کافی غم و غصہ پایا جاتا ہے- |
|
مفتاح اسماعیل کے ضمیر کی قبر اور اس پر
رونا دھونا |
ویسے تو سوشل میڈیا والے مہنگائی کرنے اور پٹرول کی قیمت بڑھانے کا ذمہ دار
مفتاح اسماعیل کو قرار دے کر ان کے خلاف طرح طرح کی میمز بنا ہی رہے ہیں-
مگر اب بڑے کاروباری حضرات پر لگنے والے سپر ٹیکس نے تو صنعت کاروں کی بھی
چیخیں نکلوا دیں- |
|
|
|
صنعت کاروں پر لگنے والے ٹیکس کا اثر بھی بلواسطہ طور پر
غریب ہی کو متاثر کرتا ہے صنعت کار ٹیکس پورا کرنے کی خاطر چیزیں مہنگی کر
کے دیتے ہیں اور عام دکان دار کا کاروبار متاثر ہوتا ہے اور وہ ہاتھ پر
ہاتھ رکھ کر بیٹھ جاتا ہے- |
|
فیصل آباد کو پاکستان میں کپڑے کی صنعت کے
سبب خاص اہمیت حاصل ہے اور وہاں کے انارکلی بازار میں ملک بھر کے بیوپاری
کپڑے کی خریداری کے لیے آتے ہیں- لیکن حالیہ دنوں میں غیر یقینی صورتحال نے
یہاں کے دکانداروں اور تاجروں کو بھی فارغ ہونے پر مجبور کر دیا ہے- |
|
جیسے کہ خالی دماغ شیطان کا کارخانہ ہوتا ہے اس وجہ سے
ان کے خالی دماغ میں بھی ایسا ہی آئيڈیا آیا اور انہوں نے بازار کے درمیان
میں وزیر خزانہ کے ضمیر کی ایک نقلی قبر تیار کر ڈالی- |
|
قبر پر بین کرنے والوں کا رونا |
قبر بنانے پر ہی اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ اس پر کچھ نوجوانوں نے بین کر کے
اپنے دل کی بھڑاس نکالی ان کا روتے ہوئے کہنا تھا کہ مرحوم مرنے سے پہلے
عوام کے ساتھ دو دو ہزار روپے دینے کا وعدہ کر کے گئے تھے- مگر ان کا وعدہ
بھی ایفا نہ ہوسکا اور وہ اس سے پہلے ہی عوام کے دو دو ہزار کے قرضدار ہوکر
مر گئے- |
|
|
|
انہوں نے سوگواروں میں بھوکی ننگی عوام کو چھوڑا ہے جو
ان کی قبر پر بیٹھ کر رونے کے سوا کچھ کرنے کے قابل بھی نہیں رہے- |