جانیۓ! کیا آپ اپنی زبان کا درست استعمال کر رہے ہیں؟

حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے "زبان کا وزن بہت ہی ہلکا ہوتا ہے مگر بہت کم لوگ ہی سنبھال پاتے ہیں۔"

جی ہاں! آج میں ایک بہت ہی اہم موضوع پر روشنی ڈالنا چاہونگی، وہ ہے زبان اور اس کا استعمال۔ یہ زبان ہی تو ہے جو انسان کا اصل چہرہ دکھاتی ہے۔ یہ درحقیقت انسان کی اصل پہچان ہے۔ ایک بہت ہی مشہور کہاوت ہے کہ تلوار کا زخم تو بھر جاتا ہے مگر زبان کا دیا ہوا زخم نہیں بھر پاتا۔ یہ بات 100٪ درست ہے۔ کیونکہ تلوار کا زخم صرف ہمارے جسم پر ہوتا ہے جبکہ زبان کا وار نہ صرف ہمارا دل توڑتا ہے بلکہ ہماری روح تک کو چھلنی کر دیتا ہے۔ آپ میں سے بیشتر افراد اس بات کا تجربہ رکھتے ہونگے اس لۓ میری بات سے متفق بھی ہونگے۔

زبان کا استعمال مثبت اور منفی دونوں طریقوں سے کیا جا سکتا ہے۔ یہ انسان کی شخصیت اور تربیت پر منحصر ہے کہ وہ اسے کس طرح استعمال کرتا ہے۔ زبان کا مثبت استعمال گو بہت مشکل ہے مگر اس کی تاثیر بے مثال ہوتی ہے۔ اگر آپ کی زبان ذکر الہی سے تر ہے اور آپ کی زبان سے کسی کو تکلیف نہیں پہنچ رہی، کسی کی دل آزاری نہیں ہو رہی تو یہ اس کا بہترین اور مثبت استعمال ہے۔

یہ تو آپ سمجھیں تصویر کا ایک رخ ہے۔ چلیں دوسرے رخ پر نظر دوڑاتے ہیں جو شاید بہت سے لوگوں کو کسی کڑوی دوائ کی طرح محسوس ہو مگر اس کا ذکر موضوع کو سجھنے میں بہت اہم کردار ادا کرے گا۔ یہ زبان کے منفی استعمال کے حوالے سے ہے۔ اگر آپ اپنی زبان کو لوگوں کی غیبت، عیب جوئ کرنے، چغلی لگانے، جھوٹ بولنے، بہتان باندھنے، گالی گلوچ کرنے، لڑائ جھگڑا کرنےاور دوسروں کی دل آزاری کے لۓاستعمال کر رہے ہیں تو یہ ہمارے جسم کی ساخت کے لحاظ سے نرم عضو یعنی زبان کا نہایت ہی خطرناک اور منفی استعمال ہے ۔ زبان کا یہی استعمال انسانوں کے گناہوں میں بھی خاطر خواہ اضافے کا باعث بنتا ہے اور یقینی دردناک سزا کا بھی۔ جیسا کہ سورۃ الہمزۃ میں ایسے شخص کے لۓ سخت وعید آئ ہے:
"ہر اس شخص کے لۓ ہلاکت ہے جو (روبرو) طعنہ زنی کرنے والا ہے (اور پس پشت) عیب جوئ کرنے والا ہے۔"

ہمارے دین اسلام نے ایک مسلمان پر دوسرے مسلمان کے کچھ حقوق واضح کۓ ہیں جن کو ادا کرنا ہم سب پر فرض ہے مگر افسوس کہ ہم میں سے بہت کم لوگ ہی ایسا کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ یہاں ایک بہت ہی مشہور حدیث پاک شامل کرنا چاہونگی جس سے ہم سب مسلمان آگاہ ہیں:
"مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے۔"
ہم نے یہ حدیث سن اور پڑھ تو رکھی ہے مگر عمل کرنا شاید ہمارے بس کی بات نہیں کیونکہ ہم اپنی زبانوں کو ہمہ وقت دوسروں کی برائ بیان کرنے اور اپنے ہی مسلمان بھائ کو ایذا پہنچانے کے لۓ استعمال کر رہے ہوتے ہیں۔

اچھا ایک مزے کی بات آپ سے شیئر کرتی ہوں کچھ لوگ اپنی دانست میں یہ سمجھتے ہیں کہ ذیادہ بولنا اچھی بات ہے یا شاید ان کے لۓ باعث فخر بھی۔ ان کے نزدیک زبان اچھی ساکھ کی ضامن ہے یا اس سے وہ اپنے آپ کو لوگوں کی نظر میں ذہین دکھانا چاہتے ہیں۔ جب کہ حقیقت اس کے بالکل بر عکس ہے کیونکہ کسی نے کیا خوب کہا ہے "جو شخص خاموش رہتا ہے وہ بہت دانا ہوتا ہے۔ کیونکہ کثرت کلام سے گناہ سرذد ہو جاتے ہے۔" یہ بات نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے مزید واضح ہو جاتی ہے: “ Most of your sins are because of your tongues.”
اس حدیث کے پیش نظر ہم سب کو اپنی زبان کی بہت ذیادہ حفاظت کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں کم اور ستھرا بولنے کو اپنا شیوہ بنانا چاہیۓ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:“Speak a good word or remain silent.”

اب میں اس موضوع کے اختتام کی طرف چلتی ہوں۔ ہم سب کو بحیثیت مسلمان بلکہ انسان اپنی زبان کو درست اور مثبت انداز میں استعمال کرنا چاہیۓ اور اسے ذیادہ وقت اپنے رب کو یاد کرنے میں لگانا چاہیۓ۔ اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ خلق خدا میں ہماری عزت بھی بڑھے گی اور ذکر الہی کرنے سے دل بھی مطمئن رہے گا اور یقینا" اس سے اللہ رب العزت سے محبت میں بھی اضافہ ہو گا۔

الغرض یہ کہ زبان ہی ہے جو دلوں کو جوڑتی بھی ہے اور توڑتی بھی، سکھ بھی دیتی ہے اور دکھ بھی، خوشی بانٹنے کا سامان بھی ہے تو دل آزادی کرنے کا باعث بھی، دلوں میں اتارتی بھی اور دلوں سے باآسانی نکالتی بھی ہے، اپنا بناتی بھی ہے اور اپنوں سے دور بھی کرتی ہے، نیکی کمانے کا ذریعہ بھی ہے تو گناہوں میں اضافہ کا سبب بھی۔

 

Asma Ahmed
About the Author: Asma Ahmed Read More Articles by Asma Ahmed: 47 Articles with 48048 views Writing is my passion whether it is about writing articles on various topics or stories that teach moral in one way or the other. My work is 100% orig.. View More