افغانستان کے جنوب مشرقی علاقے میں آنے والے شدید زلزلے کو چند روز گزر چکے
ہیں جس میں قیمتی جانی نقصانات کے ساتھ ساتھ پہلے ہی مختلف مسائل کے شکار
افغان عوام کو مالی نقصانات کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے۔مشکل کی اس گھڑی میں
افغانستان کے ہمسایہ ممالک پاکستان اور چین نے اپنے افغان بھائیوں کے ساتھ
بھرپور اظہار ہمدردی کرتے ہوئے اُنہیں درپیش مشکلات کو کم کرنے میں خاطر
خواہ مدد فراہم کی ہے۔پاکستان نے فضائی اور زمینی ذرائع دونوں سے افغانستان
کے زلزلہ زدہ علاقے میں امدادی سامان پہنچایا ہے اور عوام کی سطح پر بھی
لوگوں نے افغان بھائیوں کی امداد کے لیے اپنی مدد آپ کے تحت چندہ اکٹھا
کرتے ہوئے انسان دوستی کا عملی ثبوت دیا ہے ۔
اس حقیقت کے باوجود کہ آفت زدہ علاقے میں سڑکیں ہموار نہیں ہیں اور زلزلے
سے ہونے والے نقصانات نے امدادی سامان کا آفت زدہ علاقے میں داخلہ اور بھی
مشکل بنا دیا ہے ، پاکستان نے ہر ممکن اقدامات اٹھائے ہیں کہ امدادی سامان
کو جلد ازجلد زلزلہ متاثرین تک پہنچایا جا سکے۔ امدادی سرگرمیوں میں تیزی
لاتے ہوئے پاکستان نے اپنا شمال مغربی سرحدی کراسنگ پوائنٹ بھی کھول دیا ہے
تاکہ افغانستان کے آفت زدہ علاقوں سے زخمیوں کو پاکستان کے ہسپتالوں میں
منتقل کیا جا سکے۔اس کے علاوہ پاکستان کے طبی اہلکار بھی صوبہ خوست میں
زخمیوں کے علاج میں مقامی حکومت کی مدد کر رہے ہیں۔
دوسری جانب چین نے بھی ہمیشہ کی طرح نہ صرف ایک بڑے ملک کا کردار بخوبی
نبھایا ہے بلکہ افغانستان کے بہترین اور مخلص پڑوسی کا عملی اظہار کیا ہے۔
افغانستان میں زلزلے کی تباہی کے بعد چینی حکومت نے افغانستان کو ہنگامی
انسانی امداد کے لیے 50 ملین یوآن (تقریباً 7.46 ملین امریکی ڈالر) فراہم
کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ چین کی جانب سے فراہم کی جانے والی امداد میں خیمے،
تولیے، فولڈنگ بیڈ اور افغان عوام کو فوری طور پر درکار دیگر سامان شامل
ہیں۔ امدادی کھیپس چارٹر فلائٹس کے ذریعے بھیجی جائیں گی۔ اگلے مرحلے میں،
چین افغان عبوری حکومت کے ساتھ قریبی رابطہ قائم کرے گا تاکہ اس بات کو
یقینی بنایا جا سکے کہ ضرورت مندوں کو جلد از جلد امدادی سامان پہنچایا
جائے، اور افغان عوام کو درپیش حالیہ مشکلات پر قابو پانے میں مدد فراہم کی
جائے۔
چینی حکومت کے ساتھ ساتھ چینی کاروباری اداروں نے بھی زلزلہ متاثرین کے لیے
موئثر امداد کی فراہمی کو یقینی بنایا ہے۔ افغانستان میں فعال چینی اداروں
نے زلزلے سے متاثرہ علاقوں کو چاول، آٹا، خوردنی تیل اور چائے وغیرہ سمیت
دیگر امدادی سامان عطیہ کیا ہے۔ افغان حکام کے مطابق چینی اداروں کا عطیہ
کردہ سامان فوری طور پر آفت زدہ علاقے میں پہنچایا جائے گا اور 800 مقامی
متاثرہ خاندانوں میں تقسیم کیا جائے گا۔
مالیاتی مدد کے ساتھ ساتھ چین نے اخلاقی اعتبار سے بھی افغان عوام کے ساتھ
اپنی دیرینہ وابستگی ظاہر کی ہے۔چینی وزیر خارجہ وانگ ای نے افغان عبوری
حکومت کے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی سے افغانستان میں زلزلے کی
تباہی پر اظہار ہمدردی کرتے ہوئے یہ یقین ظاہر کیا کہ ہے کہ افغان عوام اس
تباہی پر قابو پانے اور جلد از جلد معمولات زندگی کی بحالی میں کامیاب ہو
جائیں گے۔ ایک دوست پڑوسی کے طور پر، چین افغانستان کی ضروریات کے مطابق
ہنگامی انسان دوست امداد فراہم کرنے کے لیے اپنی بھرپور کوششوں کا خواہاں
ہے ۔
حالیہ زلزلے سے ہٹ کر بھی چین نے جنگ سے متاثرہ افغان عوام کی مدد کے لیے
تمام بڑے عالمی پلیٹ فارمز پر آواز بلند کی ہے۔ سلامتی کونسل میں چین واضح
کر چکا ہے کہ افغانستان بد نظمی سے نظم و ضبط تک کے نازک دور سے گزر رہا
ہے۔ گزشتہ سال اگست کے بعد سے، افغانستان کی صورتحال عمومی طور پر مستحکم
رہی ہے، پرتشدد تصادم میں واضح کمی آئی ہے۔ تاہم افغانستان میں انسانی
ہمدردی اور اقتصادی شعبے کو شدید چیلنجز کا سامنا ہے۔ افغانستان کو امن اور
ترقی کے حصول کے لیے ابھی بہت مشکل اور طویل سفر طے کرنا ہے، افغان عوام کو
فراموش نہیں کیا جانا چاہیے اور ان کے لیے عالمی برادری کو مزید معاونت اور
مدد فراہم کرنی چاہیے ۔
افغانستان کی تعمیر نو کے لیے چین کا موقف بڑا واضح ہے کہ سب سے پہلے ،
آزاد اور موثر قومی حکمرانی کے حصول کے لیے تعمیری سرگرمیوں کو مضبوط کیا
جائے اور افغانستان کی حمایت کی جائے۔ دوسرا، وسائل کی صلاحیت و استعمال کو
بڑھایا جائے تاکہ افغان عوام کو معاشی مشکلات سے نجات دلانے میں مدد فراہم
کی جاسکے ۔ تیسرا، افغانستان کی مثبت اور پائیدار ترقی میں معاونت کے لیے
جامع پالیسیز پر عمل درآمد کیا جائے۔چین نے افغانستان کے ایک ہمسایے اور
دوست کی حیثیت سے ہمیشہ افغانستان کی پرامن اور مستحکم ترقی کی حمایت کا
عزم ظاہر کیا ہے۔ چین کا نقطہ نظر واضح ہے کہ افغانستان کے روشن مستقبل کے
لیے نئی شراکت داریاں تشکیل دی جائیں جس کے لیے بین الاقوامی برادری کا
تعاون کلید ہے ۔موجودہ صورتحال میں افغانستان میں معاشی استحکام نہایت لازم
ہے ،صرف اسی صورت میں امن و امان کا دیرپا اور پائیدار قیام ممکن ہے۔
|