چائے کی پیالی میں پہلا طوفان!

گزشتہ دنوں چائے کی پیالی میں طوفان اِس زور سے اُٹھا کہ پورے ملک کو اُس نے ہلا کر رکھ دیا۔ دیوانے ایسے جذبے سے اُٹھے کہ بستی بستی گریبانوں کے ڈھیر لگ گئے۔ اس طوفان کے اثرات ابھی تک جاری ہیں۔ ماجرا کچھ یوں ہوا کہ وطنِ عزیز کے ایک وزیر باتدبیر نے بیان جاری کیا کہ ’’ ۔۔۔ملک کے معاشی حالات کو بہتر کرنے کے لئے عوام چائے پینا کم کردیں۔۔۔‘‘۔ یہ مت جانئے کہ ہمارے وزراء غور و فکر نہیں کرتے، وہ یہ سوچنے کے لئے کوئی نہ کوئی وقت نکال لیتے ہیں، کہ کونسا بیان دینا ہے، جو گزشتہ کل سے ذرا مختلف ہو، اسی چکر میں جناب احسن اقبال نے، جو کہ منصوبہ بندی کے ہی وزیر ہیں، اپنے حساب سے بہترین بیان داغا، بیان واقعی ’داغا‘ گیا کہ دیوانوں پر میزائل بن کر گِرا۔قوم نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا اور سوشل میڈیا سے ہوتے ہوئے ٹی وی چینلز نے بھی اپنے حصے کے تبصرے اس پر کرنا غنیمت جانا، کہ سیاست کی تلخی سے ہٹ کر بھی اس پر کچھ تبصرہ ممکن تھا۔

چائے دراصل ہماری الجھی ہوئی قوم کی ایک منظم سرگرمی ہے، جس پر بہت ہی جوش وخروش کے ساتھ عمل ہوتا ہے، ملک کے چپّے چپّے میں یہ مصروفیت ہمہ وقت دکھائی دیتی ہے۔ پاکستان کے جس کونے میں بھی چلے جائیں، چھوٹے چھوٹے چائے خانے دکھائی دیں گے، اول تو وہیں پر لکڑی کے بینچ موجود ہوں گے جہاں بیٹھ کر آپ اپنی عادت کی تسکین کا سامان کر سکتے ہیں، ورنہ قرب وجوار کی مارکیٹوں میں وہیں سے چائے مہیا کی جاتی ہے، کسی دوکان پر یا دفتر وغیرہ میں کوئی مہمان یا مہمان نما گاہک آگیا تو چائے سے ہی تواضع کی جاتی ہے۔ اب بہت سے دفاتر میں ’صاحب‘ کے دفتر کے ساتھ کچن نما ماحول میں ملازم ہی چائے تیار کرلیتا ہے، پانی گرم کیا، چائے کمپنی کی ایک پڑیا (کہ جس کے ساتھ دھاگہ پہلے سے ہی کمپنی کے نام کے ٹیگ کے ساتھ بندھا ہوتا ہے) کپ میں ڈالتے ہیں، خشک دودھ (اب جا کر راز کھلا وہ دودھ نہیں ہوتا، صرف اس مرکب کا رنگ سفید کرتا ہے)ساتھ رکھ دیتے ہیں اور چینی کے لئے ایک چھوٹا سا برتن، مرضی کا ’دودھ‘ ڈالیے، ضرورت کی چینی لیجئے اور دو منٹ میں چائے تیار، اگر ایسے میں مزہ نہیں آیا تو میزبان کی بلا سے، آپ کم از کم اتنا نہیں کہہ سکتے کہ ہم گئے اور فلاں نے ہمیں چائے نہیں پوچھی ، (اس چائے کو ہمارے ایک دوست نے بڑا دلچسپ نام دے رکھا ہے، مگر شاید یہاں لکھنے میں کچھ تہذیبی اخلاقیات آڑے آجائیں اس لئے نامناسب جان کر چھوڑ دیتے ہیں، اتنا اشارہ البتہ کافی ہے کہ ہمارے دوست ٹیگ والے دھاگے کودُم سے تشبیہ دیتے ہیں۔ اس قسم کی چائے میں مزید آسانی قہوہ نے کر دی ہے۔

چائے ہمارے جسم و جاں سے سُستی کو بگھاتی اور غوروفکر کی راہیں کھولتی ہے، تنہائی میں پیئں تو سرُو رو سکون کے ساتھ سو چ وبچار کا ساماں بھی مہیا کرتی ہے۔ ایسے میں منظر اور ماحول آپ کی مرضی کا ہے تو سونے پہ سوہاگہ۔ اگر چائے محفل میں چلے گی تو یوں جانئے کہ ’’جانِ محفل‘‘ کہلائے گی۔ مہمانداری کا دورانیہ اگر مختصر ہے تو مہمان کو چائے پر ہی بلایا جاتا ہے، یعنی اگر کسی کو چائے پر بلایا جاتا ہے تو جان لیجئے کہ کھانے وغیرہ میں آپ کو ہم نشیں کرنے کا میزبان کا ہر گز ارادہ نہیں ہے۔ اگر کسی سے ملاقات کے لئے کوئی مہمان چلا گیا ہے، تو مناسب تواضع نہیں ہوئی تو یہی کہا جاتا ہے کہ ’چائے بھی نہیں پوچھی‘، یوں میزبان کی کم ظرفی کو چائے کے ساتھ جوڑا جاتا ہے۔ اگر معاملہ میں نقص نکالنا ہی ہے تو یہ بھی کہہ دیا جاتاہے کہ خالی چائے پلا کر بھیج دیا گیا۔ بڑے لوگوں کی چائے بھی بڑی ہوتی ہے، مگر اسے کوئی ’بڑی چائے‘ نہیں کہتا، البتہ وہ ’’ہائی ٹی‘‘ کہلاتی ہے، جو عموماً مالِ مفت ، دلِ بے رحم کے زمرے میں آتی ہے، یا پھر بہت مفاد کی صورت میں اور یا پھر کبھی کبھار اخلاص کے ساتھ بھی۔

صحت کے لئے چائے کس طرح اور کتنی نقصان دہ ہے؟ چائے کب اور کس موقع پر پی جانی مناسب ہے اور کب ٹھیک نہیں ہے؟ چائے کے چاہنے والے اس طرح کی اضافی باتوں پر غور نہیں کرتے۔ وہ چائے کو ’’چاہ‘‘ کہتے اور یہی اس کا مطلب لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ چائے کے خلاف جس قدر مہمات چلائی جاتی ہیں، قوم اسی رفتار سے چائے کی زیادہ قائل ہوتی جارہی ہے۔ گزشتہ چند برسوں سے چائے کے الگ سادہ ڈھابے شروع ہوئے، صرف لکڑی کے بینچ پر بیٹھ کر بہت سے لوگ چائے پی رہے ہوتے ہیں، اب ماحول میں جِدّت یوں آگئی، کہ ڈھابوں کی تعداد میں بے حد اضافہ کے ساتھ وہاں ہر چیز دیسی ہونے کے باوجود نئی اور شوخ آگئی، ثقافت کی جھلک ہی دکھائی نہیں دیتی بلکہ ایسے لگتا ہے کہ کسی ثقافتی مرکز پر آگئے ہیں۔ چائے کے دیوانوں کے لئے کشش میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ ان چائے خانوں پر اب وقت کی کوئی تفریق نہیں، قوم کے بیدار ہونے کے وقت (گیارہ بارہ بجے دن) سے لے کر رات کے ایک بجے تک تو یہ مراکز کھلے رہتے ہیں، نوجوانوں کی اکثریت اور بزرگوں کی اقلیت یہاں اپنا ’قیمتی‘ وقت خوش گپیوں میں گزارتی ہے۔

چائے خانوں کا رواج نیا نہیں، لاہور میں ٹی ہاؤس ایک بہت بڑی اور اہم تاریخ ہے، جہاں ادیب، شاعر، صحافی اور اسی نوع کے دیگر غور وفکر کرنے والے لوگ تادیر نشست کرتے تھے۔ یہ سلسلہ سرکاری سرپرستی میں اب بھی جاری ہے، کیونکہ شاعر اور ادیب ہونے کے لئے جو لوازمات ضروری ہیں، چائے کی حیثیت اٹل اور اولین ہے۔ چائے کی بہت سی اقسام بھی ہیں، کڑک چائے، گُڑ والی چائے، چینی والی تو عام ہے، اور آخر کار پھیکی چائے ، کیونکہ ذیابیطس کا مرض ایک وبا کی مانند پھیل رہا ہے۔ چائے کی نفاستوں اور نزاکتوں کا صحیح لطف لینا ہو تو ابوالکلام آزاد کی ’’غبارِ خاطر‘‘ کا مطالعہ از حد ضروری ہے، انہوں نے مختلف مقامات پر چائے پر مفصل، سیر حاصل اور نہایت ہی پُر مغز تحریر لکھی ہے، اسلوب ابوالکلام آزاد کا ہو، ذکر چائے کا ہو تو مزہ دوبالا ہی نہیں ہوتا یاد گار بن جاتا ہے۔

(نوٹ؛ قارئین! ’’چائے کی پیالی میں دوسرا طوفان‘‘ کے عنوان سے کالم انشاء ﷲ اگلے سوموار پیش کیا جائے گا)
 
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 428458 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.