قلم شگوفیاں۔ ڈالر گردی

احباب آج قصہ چھیڑتے ہیں امریکہ جسے روس چین شمالی کوریا اورایران کے علاوہ سب ہی وڈا پیر جبکہ ایران تو اس کو عقیدت میں بزرگ کہتا ہےمگر پہلے ایک اور لفظ لگا کےجس سے ہم تو پناہ ہی مانگتے ہیں۔ اورساتھ ہی کچھ ذکر اس کے مہلک ہتھیار ڈالر صاحب کا۔

ویسے ڈالر کے ذکر سے پہلے سر ِ دست زرا امریکہ کا ہی تذکرہ ہو جاۓ۔کہتے ہیں یہ باقی عالم انسانیت کی آنکھ سے اوجھل تھا۔ وہ بھی کیا بھلے دن تھے کہ نہ ہم اسے جانتے تھا اور نہ وہ ہمیں پہچانتا تھا۔وہ توبرا ہو اٹلی کےاس آوارہ اور مہم جو ملاح کرسٹوفر کولمبس کا جسے اور تو کرنے کو کوئی ڈھنگ کا کام نہ سوجھا اور ملکہ ایزابیلا سے ایک چھوٹا سا جہاز مانگ کر نکل پڑا دنیا کی سیر کو۔بھائی اگر گھومنا پھرنا ہی تھا تو باقی دنیا تھوڑی تھی۔ اتنی بڑی خدا کی زمیں۔ وہ کہتے ہیں نا کہ ایک گھر تو ڈائن بھی بچا جاتی ہے۔تو یہ بھی امریکہ کے زرا فاصلے سے گزر جاتا۔پندرہویں صدی میں اب اس نے امریکہ کو کیا دریافت کیا کہ بعد میں آہستہ آہستہ ہم سب ہی امریکہ کو دریافت ہو گئے ۔اب وہ بیشتر ممالک کا تو پیر و مرشد جبکہ کچھ اسےباقاعدہ مائی باپ سمجھتے ہیں۔

یہ تو ہم سب کو ہاتھ لگ چکے ہیں کہ پوری دنیا میں جس طرح امریکہ کی دھونس دھاندلی اور دہشت و وحشت گردی چھائی ہوئی ہے اورکس طرح عالمی معیشت اور اقتصادیات پر امریکہ اور اس کے ڈالر کا قبضہ ہے۔

ڈالر کیا ہے۔ کاغذ کا ایک ایسا ٹکڑا جسے اقوام عالم کے درمیان ایک مرکزی ،معروف اور معیاری کرنسی منوایا گیا ہے۔ اور بین الاقوامی سطح پر ایسے قوانین متعارف کرواۓ گیۓ ہیں کہ بین الاقوامی تجارت کے لیۓ ہم اپنی مقامی کرنسی کے بدل میں پہلے ڈالر خریدیں گے اور پھر دیگر ضروریات زندگی جیسے گندم تیل گیس وغیرہ کی باہمی تجارت کے لیۓ ڈالر میں لین دین کریں گے۔

مطلب یہ ہوا کہ ہم اپنے وسائل کے بدلے حاصل شدہ مقامی کرنسی سے پہلے ڈالر خریدیں گے۔ یعنی دنیا کے ایک بڑے حصے کی بین الاقوامی کرنسی کی ضرورت پوری کرنے کو امریکہ ڈالر چھاپ رہا ہے اور دنیا اپنے وسائل کے بدل میں ڈالر لے رہی ہے۔ گویا باالفاظ دیگر امریکہ پوری دنیا کے وسائل پر قابض ہے۔ یہ تو ہے ڈالر کی بین الاقوامی دہشت گردی۔ چونکہ تاریخ شاہد ہے جس نے بھی ڈالر کے خلاف اپنی کرنسی میں تجارت کی بات کی اس نے اپنی زندگی کی باقی بہاریں کم ہی دیکھی ہیں۔ بصورت دیگر اقتصادی پابندیاں تو مقدر میں لکھی ہی جاتی ہیں۔

اب زرا ملک کے اندر دیکھیں کہ یہ ڈالر کیا کرشمہ سازی کر رہا ہے اور ہم ڈالر کی آڑ میں ایک دوسرے کے ساتھ کیا کیا ڈالر گردی نہیں کر رہے۔ یہ تو ہم سب جانتے ہی ہیں کہ جب روپیہ کے بدلے ڈالر کی اڑان بڑھتی ہے اور تیل مہنگا ہوتا ہے تو ملک میں مہنگائی کا ایک طوفان ِبد تمیزی کھڑا ہو جاتا ہے۔ پھر اس آڑ میں ان تمام اشیا کوبھی پر لگ جاتے ہیں جن کا تیل اور ڈالر سے دور دور کا بھی تعلق نہیں ہوتا ہے۔

تانگے والا بھی ڈبل کرایہ مانگ کرسب کی خیر مانگتا ہےاور کہتا ہےکہ تیل مہنگا ہو گیا۔ ملکی سطح پر تیار ہونے والی مصنوعات اور ملک میں پیداا ہونے والی اشیاۓ خورونوش کے بھی اسی ڈالر کے بہانے ریٹ چڑھا دیۓ جاتے ہیں۔جیسے مقامی مٹیریل سے بننے والا کپڑا۔ گنے کا رس اور تربوز وغیرہ۔
حد تو یہ ہے کہ پچھلے دنوں وائیپر خریدنے کا اتفاق ہوا تو اڑھائی تین سو والا وائیپر پانچ سو کا بتا کر مہنگائی کی وجہ ڈالر کی اونچی اڑان بتائی گئی۔اور سٹوری یہ سنائی کہ پلاسٹک چین سے آ رہا ہے اور ڈالر کی وجہ سے پلاسٹک کا ریٹ بھی چڑھ گیا ہے۔ مجھے اس سائنس اورمنطق پر شدید حیرت ہوئی۔ میں نے کہا کہ یہ تو لوکل پلاسٹک ہے۔ جو ری سائیکل کر کے اس قسم کی چیزیں بنائی جاتی ہیں۔ جیسے ہماری خالی بوتلیں ۔ ٹوٹی ڈسٹ بن۔ شاپنگ بیک المعروف شاپراور دیگر کچرا پلاسٹک محلے کا کباڑیہ اکٹھاکر کے دوبارہ فیکٹری کو بھیجتا ہے۔ وہاں پھر ان چیزوں کا پلاسٹک دانہ بنتاہے۔ایسا نہ کرو چھوٹے بھائی۔
مہنگائی کی بھی کوئی وجہ ہوتی ہے۔ کوئی حد ہوتی ہے کچھ شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے۔۔ چائنہ سے درآمد شدہ فائن پلاسٹک سے یہ تھرڈ کلاس وائیپر نہیں یہ اعلی ٰ کوالٹی کے مہنگےبرتن فوڈ گریڈ پیکنگ اور فائن کوالٹی کاپلاسٹک فرنیچر بنتا ہے۔مارکیٹ میں کچھ ایساہی حال دیگر مقامی مصنوعات اور پیداوار کا ہے۔گراں فروشی کا ایک تیسرا جدیداور اچھوتا طریقہ بھی آجکل بہت معروف ہے۔ کس بھی چیز کے من مانے دام مانگو ساتھ ایک غلیظ گالی وقت حاکم کو۔ اللہ اللہ خیر صلہ۔
 

Sibtain Zia Rizvi
About the Author: Sibtain Zia Rizvi Read More Articles by Sibtain Zia Rizvi: 28 Articles with 19144 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.