ہانگ کانگ ،ایک مصروف عالمی مالیاتی مرکز

رواں برس یکم جولائی کو ہانگ کانگ کی چین میں واپسی کو 25 سال ہو چکے ہیں۔ان پچھلے پچیس سالوں میں ہانگ کانگ جسے چین کی جانب سے خصوصی انتظامی علاقے کا درجہ دیا گیا ہے، دنیا کے مصروف ترین مالیاتی مرکز کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے۔حالیہ عرصے میں سنگین عالمگیر وبائی صورتحال اور بیرونی غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے درپیش چیلنجوں کے باوجود، ہانگ کانگ دنیا کا ایک سرکردہ مالیاتی مرکز بنا ہوا ہے، جہاں اُس کے پاس اپنی عالمی ساکھ کو مزید بلند کرنے کے نئے مواقع مسلسل سامنے آ رہے ہیں۔ 1997 میں ہانگ کانگ کی چین میں واپسی کے بعد سے، اس کی مالیاتی منڈی اپنے وسیع پیمانے اور کھلے پن دونوں اعتبار سے ترقی کرتی رہی ہے۔ اس دوران بینکاری نظام، کیپٹل مارکیٹ کے ساتھ ساتھ غیر ملکی زرمبادلہ کی مارکیٹ میں قابل ذکر پیش رفت ہوئی ہے۔

ہانگ کانگ مانیٹری اتھارٹی کے اعداد و شمار اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ گزشتہ 25 سالوں میں ہانگ کانگ کی مالیاتی منڈی نے کس قدر تیزی سے ترقی کی ہے۔یہاں بینکنگ سسٹم کے مشترکہ اثاثے اپریل 2022 میں تقریباً 3.4 ٹریلین امریکی ڈالر تک پہنچ چکے ہیں، جس میں جولائی 1997 کی نسبت تین گنا اضافہ ہوا ہے۔ مئی 2022 تک اسٹاک مارکیٹ کی قدر 38 ٹریلین ہانگ کانگ ڈالر رہی ہے، جب کہ جولائی 1997 میں یہ محض 4.6 ٹریلین ہانگ کانگ ڈالر تھی۔ ابھی پچھلے سال ہی، تقریباً 400 بلین امریکی ڈالر مالیت کے بانڈز جاری کیے گئے، جبکہ 1997 میں یہ مالیت 20 بلین امریکی ڈالر سے بھی کم تھی۔اپنے پیمانے میں توسیع کے علاوہ، ہانگ کانگ کی مالیاتی منڈی نے چائنیز مین لینڈ میں تیزی سے ترقی پذیر کیپٹل مارکیٹ کو عالمی سرمایہ کاروں سے جوڑنے میں اہم کردار ادا کیا ہے، جس کے آغاز کے بعد سے اسٹاک اور بانڈ کنیکٹ پروگراموں کا ٹرن اوور مسلسل پھیل رہا ہے۔

تاہم یہ سفر اس قدر آسان نہیں رہا ہے۔ ہانگ کانگ کی مالیاتی منڈی نے متعدد بحرانوں کا سامنا کیا ہے، جن میں 1997 کا ایشیائی مالیاتی بحران، 2003 کی سارس وبا، 2008 کا عالمی مالیاتی سونامی، 2019 میں افراتفری اور شہر کی معیشت کو نقصان پہنچانے والے فسادات کے ساتھ ساتھ جاری حالیہ وبائی صورتحال بھی شامل ہے۔ ان چیلنجوں کے باوجود ہانگ کانگ مارکیٹ کے استحکام کا راز عالمی سرمایہ کاروں کے اعتماد میں پنہاں ہے، جو مارکیٹ کی غیر یقینی عوامل سے نمٹنے کی صلاحیت سے پیدا ہوتا ہے۔ ہانگ کانگ میں زرمبادلہ کے ذخائر جولائی 1997 میں تقریباً 80 بلین امریکی ڈالر سے بڑھ کر مئی 2022 میں 460 بلین امریکی ڈالر سے زیادہ ہو چکے ہیں، جو کہ معیشت کے حجم اور اس کی مالیاتی رسد کے حوالے سے ایک بہت بڑی پیش رفت ہے۔اسی طرح بینکنگ سسٹم بھی "لو رسک" کو برقرار رکھتا ہے، بینکوں کے سرمائے کی موزونیت کا تناسب اوسطاً 20 فیصد سے زیادہ ہے، جب کہ غیر فعال قرضوں کا تناسب 1 فیصد سے کم رہا ہے، جو دنیا کی کچھ بڑی مالیاتی منڈیوں کے مقابلے میں کم خطرات کی نشاندہی کرتا ہے۔

چائنیز مین لینڈ سے ملنے والی مضبوط حمایت بھی ہانگ کانگ کی مالیاتی مارکیٹ کے لیے بیرونی جھٹکوں سے نمٹنے میں انتہائی معاون ہے ۔ اسٹاک اور بانڈ کنیکٹ پروگراموں نے مارکیٹ کی لیکویڈیٹی کو بڑھایا ہے، بروکرز اور دیگر مالیاتی اداروں کو ہانگ کانگ میں رہنے کی ترغیب دی ہے ، جو مالیاتی استحکام کا سبب ہے۔ مین لینڈ کا تعاون ہانگ کانگ کو عالمی مالیاتی مرکز کے طور پر اپنی حیثیت کو مزید بڑھانے کے نئے مواقع بھی فراہم کر رہا ہے۔ دنیا کے متعدد ممالک کے لیے سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہونے کے باوجود، چین اب بھی اپنی تجارت کا بیشتر حصہ امریکی ڈالر میں طے کرتا ہے، جو تجارتی ادائیگیوں میں چینی کرنسی یوآن کے استعمال کے امکانات کو اجاگر کرتا ہے۔اسی باعث اگلے چند سالوں میں، یوآن کے بین الاقوامی استعمال کے لیے بہت زیادہ ترقی کے امکانات ہیں۔اس تناظر میں دنیا کے سب سے بڑے آف شور کاروباری مرکز کے طور پر، ہانگ کانگ چینی کرنسی کے عالمی استعمال کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ گرین فنانس ایک اور اہم شعبہ ہے جہاں ہانگ کانگ نے مثبت پیش قدمی کی ہے ۔ مرکزی حکومت کے سبز ترقیاتی اقدامات کی بدولت، حالیہ برسوں میں گرین بانڈز یا قرضوں کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے، جس سے مین لینڈ اور ہانگ کانگ دونوں میں گرین فنانس مارکیٹ کو فروغ ملا ہے۔یوں مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ایک مصروف مالیاتی مرکز کے طور پر مستقبل میں ہانگ کانگ ملکی معیشت کے ساتھ ساتھ عالمی تجارتی و معاشی سرگرمیوں کو بھی آگے بڑھانے میں اہم ترین کردار ادا کرے گا۔

 

Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 962 Articles with 411736 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More