مجبوریاں

ٹھنڈی ہوا اور ہلکی دھوپ کے ساتھ ایک حسین صبح... وہ بستر سے اٹھا اور کھڑکی کے قریب کھڑا ہوا۔ ڈھیلے ٹراؤزر پر ڈھیلی شرٹ پہنے وہ کھڑکی سے باہر آتے جاتے لوگوں کو دیکھنے لگا۔ آتے جاتے لوگ باہر کے نہیں بلکہ اس کے اپنے گھر کے نوکر تھے جو لان میں اپنے مخصوص کاموں کو نمٹا رہے تھے۔ صبح تو کافی دیر پہلے ہی ہوچکی تھی لیکن اس کی صبح ابھی ہوئی تھی۔ ہاتھ سے جمائی روکتے ہوئے وہ پلٹا اور کمرے کا جائزہ لیا۔ بیڈ پر بہت سے تکیے بکھرے پڑے تھے جن میں سے کچھ نیچے گرے تھے۔ صوفے پر کھلی کتابیں پڑی ہوئی تھی اور سامنے رکھی میز پر کافی کے دو کپ۔ کمرہ بےحد بکھرا ہوا تھا کوئی بھی چیز اپنی جگہ پر موجود نہیں تھی۔ الماری کے کپڑے تک بیڈ پر پڑے تھے۔ زمین پر ایک جوتا الٹا اور ایک جوتا سیدھا کہیں دور پڑا تھا۔ اس وقت اگر کوئی باہر سے آ کر یہ کمرہ دیکھتا تو سر پکڑ کر واپس چلا جاتا….. شاید ہی کسی کو اس قدر پھیلے کمرے کی عادت ہو۔ اس نے مسکراتے ہوئے پورے کمرے پر ایک نظر دوڑائی اور فریش ہونے چلا گیا۔ کچھ دیر بعد اگر دیکھا جائے تو اسی جگہ کھڑکی کے سامنے وہ کھڑا تھا۔ کمرہ اب بھی بالکل ویسی ہی بکھرا ہوا تھا لیکن وہ اب کافی بہتر نظر آتا تھا۔ سیاہ جینز پر سفید قمیض پہنے وہ کافی اچھا لگ رہا تھا۔ ہاتھ سے بالوں کو سیٹ کیا اور صوفے کے کنارے پر جوتے پہننے کے لیے بیٹھ گیا۔ آج کا دن کافی اچھا گزرنے والا ہے۔ یہ سوچ کر وہ ایک بار پھر مسکرایا اور کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا۔ کچھ کام ہی تو تھے جو وہ کیا کرتا تھا ان میں سے ایک اچھی امید رکھنا اور ہر وقت مسکراتے رہنا۔ نیچے سب اس کا انتظار کر رہے ہوں گے ایک اور اچھی امید لگاتے ہوئے وہ آئینے کی جانب بڑھا, اپنے آپ کو دیوار میں لگے بڑے آئینے میں دیکھا اور مسکراتا ہوا سیڑھیاں اترنے لگا۔

بڑی ٹیبل پر سب بیٹھے نظر آئے۔ یقیناً سب اسی کا انتظار کر رہے تھے۔ اس کے چہرے پر ابھی بھی مسکراہٹ تھی۔ کلائی پر گھڑی باندھتے ہوئے وہ کرسی کھینچ کر بیٹھا اور ایک ایک کر کے سب پر نظریں دوڑائیں۔

"کیا بات ہے بھئی ناشتہ نہیں ہوگا کیا آج ؟؟ "

اس نے مسکراتے ہوئے سوال کیا۔ کسی نے اس کے سوال کا جواب نہیں دیا... سب خاموشی سے نظر جھکا کر بیٹھے رہے۔ سامنے بیٹھے صاحب کے اشارہ کرنے پر ٹیبل پر بیٹھیں تمام خواتین اردگرد ہوگئیں۔

" زمان!! آج تم مجھے بتا ہی دو…. آخر کب تک ایسا چلتا رہے گا ؟ یہ کیا آوارہ پن ہے کہ تم رات کو دیر سے آؤ اور صبح دیر سے اٹھ کے آوارہ گردی کرو۔ میں نے تمہیں اس لیے پڑھایا تھا کہ تم روزانہ ایسی آوارہ گردی کرتے پھرو ؟"

سامنے بیٹھے چشمے والے صاحب نے اپنی بات مکمل کی اور اس کے جواب کا انتظار کرنے لگے۔ اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ جواب دینا بھی نہیں چاہتا تھا۔ روزانہ یہی سوال اب وہ اس کا کیا جواب دے۔ ٹیبل پر شاندار ناشتہ اس کے لیے لگا دیا گیا۔ اب وہ ناشتہ کر رہا تھا۔ چشمے والے صاحب اس وقت تک اسے دیکھتے رہے جب تک اس نے ناشتہ مکمل نہیں کیا۔ ناشتہ ختم ہونے پر وہ ٹیبل سے اٹھنے لگا تو چشمے والے صاحب نے ہاتھ کے اشارے سے بیٹھنے کا کہا۔ وہ بیٹھ گیا پھر سے وہی سب کچھ سننا تھا جو روزانہ صبح ناشتے کے وقت سنا کرتا تھا لیکن آج اس نے کچھ اور سننا ہوگا اسے یہ بات معلوم نہیں تھی۔

"یہ کیا پاگل پن ہے زمان... تم کیا کر رہے ہو... تم نے سوچا بھی ہے کہ کیا کرو گے تم آگے… تم یہ سمجھتے ہو کہ تمہارا باپ تمہیں کما کر دے رہا ہے اور تم کھا رہے ہو, پی رہے ہو… تم اس گھر کے اکلوتے بیٹے ہو. ڈالر میں کتنے مسئلہ چل رہے ہیں…. تم یہ بات اچھی طریقے سے جانتے ہو۔ روزانہ ہمارے آفس سے کوئی نہ کوئی فائل یا کوئی نہ کوئی چیز غائب ہو جاتی ہے اور ہمیں پتہ ہی نہیں چلتا کہ آخر یہ کون رہا ہے۔ تمہیں اس کی کوئی پروا نہیں۔ تم صرف اپنی آوارہ گردی کرتے ہو۔ آج فیصلہ ہو کے رہے گا۔ "

"کیا مسئلہ ہے بابا…. روزانہ ایک ہی بات... جب میں نے کہہ دیا کہ میں سوچ لوں گا تو میں سوچ لوں گا۔"

زمان نے لاپرواہی سے ہاتھ کا اشارہ کرتے ہوئے کہا۔

"تمہیں اسی وقت اس مسئلے پر بات کرنی ہوگی ورنہ…"

"ورنہ کیا…..؟"

"ورنہ تمہیں کوئی نہیں روک سکتا تم اس گھر سے جا سکتے ہو۔"

چشمے والے صاحب نے بڑی آرام سے یہ بات کہہ دی۔ ان کی یہ بات کہنے پر ایک خاتون ہاتھ میں پکڑی تھال لیے چشمے والے صاحب کے قریب آئیں اور ان کا کندھا جھنجھوڑتے ہوئے کچھ کہنے لگیں۔ ان کی یہ بحث روز کی تھی لیکن آج ملک صاحب نے گھر سے جانے کی بات کر دی تھی۔ زمان کچھ دیر خاموش بیٹھا رہا... پھر کچھ سوچتے ہوئے اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔ کمرے سے واپسی پر اس نے سفید قمیض پر براؤن ویسٹ کوٹ پہنا ہوا تھا اور ہاتھ میں ایک بڑا بیگ بھی تھا۔ وہ جا رہا تھا کسی کو اس بات کی امید نہیں تھی کہ زمان ایک بار کہنے پر ہی برا مان جائے گا اور یوں ہاتھ میں بیگ اٹھائے چلا جائے گا۔ اسے کسی بات کا برا نہیں لگتا تھا وہ اچھا ہونے پر بھی مسکراتا تھا اور غلط ہونے پر بھی مسکراتا تھا۔ اسے کسی بات کی پروا نہیں ہوتی تھی۔ آج اس کا یہ رویہ دیکھ کر گھر کے تمام افراد اس کے سامنے آ کھڑے ہوئے۔

" زمان یہ کیا بچکانہ حرکت ہے….؟"

ان میں سے ایک خاتون نے بلند آواز میں کہا۔ وہ خاموشی سے سب کو دیکھ رہا تھا۔ اسے مزید بحث نہیں کرنی تھی۔ وہ جانا چاہتا تھا اور جو وہ چاہتا تھا اسے کوئی نہیں روک سکتا تھا۔ ملک صاحب کے کہنے پر سب نے اسے راستہ دیا اور وہ گھر کے بڑے دروازے سے باہر نکل گیا۔ دھوپ اب تیز ہو چکی تھی۔ وہ اس وقت باہر نہیں نکلا کرتا تھا لیکن آج مجبوری تھی... مجبوری تو انسان کو کہیں بھی لے جا سکتی ہے۔ وہ دھوپ کو دیکھ کر مسکرایا اور اپنے قدم آگے بڑھاتا رہا۔

……………………………………..

ریل گاڑی کے سفر کی بات ہی الگ ہوتی ہے۔ وہ یہ سوچتے ہوئے ٹرین کے باہر کا منظر دیکھنے لگا۔ ایسا بالکل نہیں لگتا تھا کہ وہ گھر والوں سے ناراض ہو کر جا رہا ہے بلکہ یوں لگتا تھا کہ بہت دن کی تھکن کے بعد کہیں گھومنے نکلا ہے۔

وہ گھر کا اکلوتا لڑکا تھا, اچھا تھا اور لمبا بھی تھا۔ اسے کسی کی بات کا برا نہیں لگتا تھا وہ ہر بات کو لاپرواہی سے ختم کر دیتا تھا۔ اس کے چہرے کا رنگ گندمی تھا اور چہرے پر ہلکی ہلکی داڑھی تھی جبکہ مونچھیں تھوڑی گہری تھیں۔ سفر کافی لمبا تھا لیکن خوبصورت مناظر دیکھتے ہوئے اور تھوڑا بہت سو کر سفر گزر ہی گیا۔ بالکل وقت کی طرح... اچھا ہو یا برا ہو گزر ہی جاتا ہے۔

وہ اپنا بڑا بیگ لیے ریل گاڑی سے اسٹیشن پر اترا۔ اسے اب کہاں جانا تھا یہ سوال اس کے لئے کافی مشکل تھا۔ بڑے شہر کے امیر کبیر لڑکے کو ایک معمولی سے گاؤں میں دیکھ کر بہت عجیب لگ رہا تھا۔ اچھی خاصی سہولتیں میسر تھی اسے... بس تھوڑا بہت کام ہی تو کرنا تھا۔ زمان شاید پہلی دفعہ اس جگہ پر آیا تھا اسی لئے تھوڑا بہت ہی چل کر اسے لوگوں سے راستے کا پوچھنا پڑتا۔ چہرے سے وہ کافی تھکا ہوا لگتا تھا۔ ظاہر ہے تھکنا تو اسے تھا ہی اور یہ تو بس ابھی شروعات تھی۔ اسے کافی دیر تک پیدل چلنا تھا۔ دوپہر بھی کافی گہری ہو چکی تھی۔ بھوک اور پیاس کی شدت بھی کافی زیادہ تھی۔ یہ سوچتے ہوئے اس نے ایک معمولی سے بنے دھابے کا رخ کرلیا۔ شکل سے اور کپڑوں سے وہ کافی اچھے گھرانے کا لگتا تھا۔ اسے آتا دیکھتے ہی دھابے میں موجود ملازمین جلدی جلدی اسے خوش آمدید کہنے لگے۔ اسے کافی اچھا لگا... وہ بھی سر ہلاتے ہوئے ان کے پیچھے چلنے لگا۔ دھابہ معمولی سا تھا لیکن کافی بڑا تھا۔ ہر طرف بڑے بڑے تخت لگے تھے جس پر گاؤ تکیہ رکھے ہوئے تھے۔ ایک صاف ستھرے اور اچھے تخت پر اسے بٹھایا گیا۔ تھکن سے چور وہ بیٹھا تو اسے کافی سکون ملا۔ اس نے جوتے اتارے اور پیر اوپر کرکے پالتی مار کر بیٹھ گیا۔ کھانے کے پوچھنے پر اسے کافی حیرت ہوئی کیونکہ اس نے ایسے کھانے کا کبھی سنا بھی نہیں تھا لیکن مجبوری۔۔۔۔اسے وہیں کھانا تھا لہذا ایک بڑی تھال میں چاول کی روٹی اور آلو کی قتلیاں اس کے لیے لائی گئیں…. ساتھ میں ایک مٹی کا چھوٹا مٹکا بھی تھا جس میں تازہ دہی سے بنی نمکین لسی تھی۔ کھانے کو دیکھ کر منہ نہیں بناتے... بچپن میں اس نے کتابوں میں پڑھا تھا۔ یہ بات سوچتے ہوئے وہ مسکرایا اور بڑی تھال کو اپنے قریب کیا۔ دھابے میں آتے ہوئے اس نے ہاتھ دھو ہی لیے تھے لہذا اب اس نے کھانا شروع کیا۔ ایک لقمہ لیتے ہی اسے کافی اچھا لگا اور وہ بڑی لذت سے کھانے لگا۔ اس کے کھانے کا انداز بہت اچھا تھا سامنے بیٹھا شخص اگر سے دیکھے تو اس کا بھی کھانے کا دل کرے، کچھ ایسا انداز تھا اس کے کھانے کا۔ چاول کی بنی نرم روٹی سے آلو کی قتلیاں کھاتے ہوئے اسے کا فی لطف آیا اور نمکین لسی کی تو بات ہی الگ تھی۔ کھانا کھا کر اسے کافی سکون ملا اس نے ہاتھ دھوئے اور وہیں تخت پر نیم دراز ہوگیا۔

………………………………….

اس کی آنکھ خوبصورت شام سے کھلی۔ گاؤں کی شام کی بات بھی الگ تھی۔ آسمان پر اڑتے ہوئے پرندے اور ٹھنڈی ہوا کے جھونکے…. اسے کافی دیر ہو چکی تھی اب اسے پھر سے اپنی منزل کی طرف بڑھنا تھا۔ اس نے جوتے پہنے اور دھابے کے ملازمین کو چند نوٹ پکڑا کر روانہ ہو گیا۔ پھر سے ایک لمبا سفر جو اسے پیدل چل کے طے کرنا تھا۔ بالآخر اس کی منزل آپہنچی۔ چل چل کر اس کے جوتے مٹی میں ہو گئے تھے اور وہ ایک بار پھر سے تھک گیا تھا۔ یہاں گاڑیوں کا تو نام و نشان نہ تھا... شہر میں تو پھر ایک دو گاڑیاں تھیں جس میں وہ سفر کیا کرتا تھا لیکن یہاں صرف گھوڑے گاڑیاں اور بیل گاڑیاں تھیں جس میں جانا اسنے مناسب نہ سمجھا…. لہٰذا وہ خود ہی پیدل چل کر اس مقام تک آ پہنچا جس کا دروازہ کافی خصتہ حالت میں تھا۔ اس نے دروازہ بجایا…. کچھ دیر بعد ہی دروازہ کھلا اور ایک عمر دراز خاتون سامنے موجود تھیں۔ اس نے اپنا تعارف کروانا چاہا تو مسکراتے ہوئے سلام کیا اور آگے بڑھ کر کہا۔

"میں زمان ملک ہوں…. شہر سے آیا ہوں۔ نام تو شاید آپ نے میرا سنا ہی ہو گا۔ میں کچھ دن یہاں قیام کرنا چاہتا ہوں۔ اگر آپ کی اجازت ہو تو میں…."

اس کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی بوڑھی خاتون نے اسے کھلے دل سے گھر میں داخل ہونے کی اجازت دی۔ گھر کافی چھوٹا تھا۔ اندر داخل ہوتے ہی ایک بڑا برآمدہ تھا جہاں پر تخت لگا تھا اور اندر دو چھوٹے کمرے بنے تھے۔ بوڑھی خاتون نے مسکراتے ہوئے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور اسے اندر لے آئیں ۔ انھوں نے جلدی جلدی ہاتھ سے تخت جھاڑتے ہوئے اسے وہاں بٹھایا۔

"واہ بھئی... زمان بیٹا آیا ہے۔ بیٹا آرام سے پیر اوپر کر کے بیٹھو۔"

رشتہ داری کافی دور کی تھی لیکن امیر ہونے کی وجہ سے وہ بہت دور تک مشہور تھا۔ بوڑھی خاتون اس کے برابر میں آ کر بیٹھی۔ تھوڑی بات چیت کے بعد زمان نے انہیں بتایا کہ وہ گھر والوں سے ناراض ہو کر یہاں آیا ہے اور کچھ دن یہیں قیام کرے گا۔ اس کا کچھ کام ہے جب تک وہ پورا نہیں ہوتا وہ یہی رہے گا۔ کسی کو خط بھیج کر اس کے بارے میں بتانے سے اس نے سختی سے منع کردیا کہ وہ کسی کو نہ بتائیں کہ میں یہاں موجود ہوں۔ مغرب کی اذان کا وقت ہوا تو بوڑھی خاتون اس سے نماز کی اجازت لے کر اٹھ گئیں اور برآمدے میں بنے وضو خانے سے وضو کرنے لگیں۔

"خالہ جان آپ نے مجھے اٹھایا کیوں نہیں اتنی دیر ہو گئی…"

آواز پر زمان نے چونک کر چھوٹے کمرے کی جانب دیکھا۔ آواز وہی سے آئی تھی۔ کندھے پر دوپٹہ ڈالے کھلے بالوں کو جوڑے میں لپیٹتے ہوئے وہ دروازے کی چوکھٹ پر کھڑی تھی اور بوڑھی خاتون سے مخاطب تھی ۔اسے معلوم نہ تھا کہ برآمدے کے کونے کی طرف لگے تخت پر کوئی موجود ہے۔ بوڑھی خاتون وضو کرنے میں مصروف تھی لہذا جواب نہ دے سکی۔ لڑکی نے بالوں کو لپیٹنے کے بعد اپنا سرخ آنچل سر پر ڈالا اور برآمدے میں آئی۔ وہاں داخل ہونے پر اسے کسی کی موجودگی کا احساس ہوا تو اس نے بائیں جانب گردن موڑ کر دیکھا۔ تخت پر ایک دراز قد کا جوان بیٹا اسے ہی دیکھ رہا تھا۔ اسے دیکھتے ہی وہ گڑبڑا گئی اور اپنے آنچل سے اپنا چہرہ ڈھانپنے لگی۔ زمان نے شرمندہ ہوتے ہوئے نظریں جھکا دیں۔ اتنے میں بوڑھی خاتون بھی وضو کرکے آچکی تھیں۔

"ارے بے وقوف لڑکی اس سے منہ کیوں چھپاتی ہے…. یہ تو اپنے گھر کا ہی لڑکا ہے۔ زمان ….کچھ دن یہی رہے گا ہمارے ساتھ ۔ تو سو رہی تھی اس لیے میں نے تجھے اٹھانا مناسب نہ سمجھا۔"

لڑکی نے جھجکتے ہوئے اپنا دوپٹہ نیچے کیا اور سادگی سے سلام کیا۔ وہ انتہائی خوبصورت تھی یا زمان کو لگی تھی۔ اس کی بڑی, سیاہ آنکھوں میں کاجل تھا اور رخسار سرخ تھے۔ بالکل اس کے آنچل کی طرح…. زمان نے بھی سادگی سے سلام کا جواب دیا اور ادب میں کھڑا ہو گیا۔ بوڑھی خاتون نے لڑکی کا تعارف کروایا اور اسے بتایا کہ کچھ مہینے پہلے سے وہ ان کے ساتھ رہ رہی ہے۔ اس کا نام سعدیہ ہے اور اس کے ماں باپ فوت ہوچکے ہیں... لہٰذا وہ ان کے ساتھ ہی رہتی ہے اور ان کے کام میں ہاتھ بٹاتی ہے…. ساتھ میں سلائی بھی کرتی ہے۔

سعدیہ اب واپس چھوٹے کمرے کی جانب چلی گئی جب کہ زمان بوڑھی خاتون سے اجازت لے کر کچھ دیر باہر ٹہلنے کے بہانے چلا گیا۔

مغرب کی نماز کے کافی دیر بعد زمان اس چھوٹے گھر میں واپس آیا۔ بوڑھی خاتون نے زمان کے کھانے کا کافی اچھا انتظام کر لیا تھا۔ اور وہ اب سعدیہ سمیت اس کا کھانے پر انتظار کر رہی تھیں۔ اس کے گھر میں داخل ہوتے ہی دسترخوان لگا دیا گیا۔ کوئلے والے سالن کی اور روٹی کی بہت زبردست خوشبو آ رہی تھی۔ زمان نے پہلا لقمہ لیتے ہی بوڑھی خاتون سے کھانے کی تعریف کی تو خالہ جان نے بتایا کے کھانا سعدیہ نے بنایا ہے۔ ان تینوں نے ساتھ کھانا کھایا اور کھانے کے دوران کسی نے کوئی بات چیت نہیں کی۔ کھانے سے فارغ ہو کر زمان پھر اس بڑے تخت پر آ کے بیٹھ گیا۔ سعدیہ ایک بڑی پیالی میں زمان کے لئے چائے لے آئی اور بہت ادب سے اسے پیش کی۔ زمان چائے نہیں پیتا تھا لیکن اسے پینی پڑی کیونکہ مجبوری تھی۔ زمان کو چائے دے کر سعدیہ خالہ جان کے پاس کمرے میں چلی گئی۔ زمان سعدیہ سے کھانے کی تعریف کرنا چاہتا تھا لیکن اسے موقع نہ ملا۔ چائے بھی بہت زبردست بنی ہوئی تھی۔ اس نے شاید ہی کبھی ایسی چائے پی ہو۔ اسے اب اپنے سونے کی فکر تھی کہ وہ کس طریقے سے اس کھلے برآمدے میں سخت تخت پر رات گزارے گا اور بات اگر ایک رات کی ہو تو چلتا بھی لیکن ابھی تو اسے کافی دن یہیں گزارنے تھے۔ خیر تھکن کی وجہ سے وہ زیادہ دیر بیٹھ نہ سکا اور وہی تخت پر نیم دراز ہو گیا۔ شاید وہ پہلی دفعہ کھلے آسمان کے نیچے سو رہا تھا... وہ تو اپنے بڑے کمرے میں, نرم بستر پر سویا کرتا تھا لیکن مجبوری…. سعدیہ جب خالہ جان کے کمرے سے آئی تو تخت کے کنارے پر چائے کی پیالی رکھی تھی اور وہ گہری نیند میں سو چکا تھا۔ وہ دبے قدموں کے ساتھ تخت کے کنارے پر آ کھڑی ہوئی... بہت آہستگی سے چائے کی پیالی اٹھائی اور باورچی خانے کے جانب چلی گئی۔

………………………………………..


مرغوں کی تیز آواز سے اس کی آنکھ کھلی۔ وہ چونک کر اٹھا۔ کچھ لمحے تو اسے سمجھ نہیں آیا کہ وہ کہاں ہے۔ وہ جوتے پہنے پہنے ہی سو گیا تھا۔ اس نے برآمدے کے چاروں طرف نظریں دوڑائیں۔ ایک چھوٹے کمرے کا دروازہ کھلا تھا جبکہ دوسرے کمرے کا دروازہ بند تھا۔ گاؤں کا موسم بھی عجیب تھا…. دوپہر کو اس قدر گرمی اور رات کو کافی ٹھنڈ تھی۔ اس نے جوتے اتارے اور تخت پر رکھے اپنے بڑے بیگ سے کچھ کپڑے نکالے اور فریش ہونے چلا گیا۔ وہ واپس آیا تو صبح کی روشنی چاروں طرف پھیل چکی تھی۔ برآمدہ بھی اب کافی روشن نظر آتا تھا۔ آج اس نے سیاہ کرتا شلوار پہن رکھا تھا۔ غسل خانے سے نکلتے ہوئے اس نے تولیہ سے ہاتھ, منہ پونچھا اور تخت کے کنارے پر آ بیٹھا۔ تھوڑی دیر میں دروازہ بجنے لگا... زمان نے اٹھنا چاہا لیکن چھوٹے کمرے سے سعدیہ تیز قدموں کے ساتھ دروازے تک آ پہنچی اور اسے کھولا۔ خالہ جان باہر سامان لینے گئیں تھیں ان کو گھر میں داخل ہوتا دیکھ کر زمان کھڑا ہو گیا اور ان سے شکوہ کیا کہ انہوں نے اسے کیوں نہیں اٹھایا کہ وہ سامان لے آتا۔ خالہ جان نے شفقت سے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور شکریہ ادا کر کے باورچی خانے میں چلی گئیں۔ سعدیہ بھی ان کے ساتھ سامان اٹھائے باورچی خانے کی جانب چلی گئی۔

وہ اب یہاں کیا کرے گا…. یہ سوچتے ہوئے وہ خالہ جان سے اجازت لے کر باہر چلا گیا۔ کچھ جگہوں کا تو اب اسے معلوم ہو ہی گیا تھا لہذا وہ گاؤں میں بنی تنگ گلیوں میں چہل قدمی کرنے لگا۔ آج ہوا میں تھوڑی ٹھنڈک تھی اور آسمان پر کہیں کہیں سیاه بادل بھی موجود تھے۔ بارش کا تھوڑا بہت امکان تھا۔ زمان کو بارش بہت پسند تھی... وہ آسمان کو دیکھتے ہوئے مسکرایا۔ وہ کچھ دیر تک یوں ہی گلیوں میں چکر کاٹتا رہا۔ تھوڑی دیر بعد اسے گلی کے کنارے سے وہ آتی دکھائی دی۔ آج اس نے گہرا نیلا رنگ پہن رکھا تھا اور ہاتھ میں ایک بڑا سا مٹکا اٹھایا ہوا تھا۔ اسے آتا دیکھ کر زمان اسی طرف چلا گیا۔ اس نے سن رکھا تھا کہ گاؤں کے لوگ پانی بھرنے کہیں دور جاتے ہیں۔ یقیناً سعدیہ بھی وہیں جا رہی تھی۔ وہ اس کے قریب پہنچا اور اس کے ہاتھوں سے مٹکا لیا۔ سعدیہ اسے دیکھ کر مسکرائی وہ بھی جواباً مسکرایا۔ اب وہ دونوں ساتھ ٹہلتے ٹہلتے اس بڑے کنویں کی طرف چلے گئے جو گھر سے کافی دور تھا۔ آسمان اب تقریبا سیاه بادلوں سے ڈھک چکا تھا۔ کسی بھی وقت بارش ہو سکتی تھی۔ زمان نے کنویں سے پانی بھرا اور کچھ دیر وہیں سعدیہ کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔ وہ رات کے کھانے کی تعریف کرنا چاہتا تھا لیکن بات کا آغاز کس طرح کرے…. اسے سمجھ نہیں آیا۔

" کھانا بہت لذیذ تھا رات کا۔"

آخر اس نے جہجکتے ہوئے کہا۔ سعدیہ نے شکریہ ادا کیا۔ اور یوں بات چیت کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ زمان نے سعدیہ کو بتایا کہ وہ اپنے گھر والوں سے ناراض ہو کر یہاں آیا ہے اور اب وہ کچھ دن یہیں رہے گا۔ اس نے سعدیہ کو بتایا کہ وہ اپنی مرضی کا کام کرنا چاہتا ہے لیکن اس کے بابا یعنی ملک صاحب اسے اپنی کمپنی میں ہی رکھنا چاہتے ہیں اور اصولاً ہونا بھی یہی تھا۔ زمان اس گھر کا اکلوتا بیٹا تھا اسے ہی اس کمپنی کو سنبھالنا تھا لیکن اسے ان سب چیزوں میں کوئی شوق نہیں تھا... اس کا ذہن ان سب چیزوں سے بہت الگ تھا۔ وہ اپنی مرضی سے اپنا کوئی کام کرنا چاہتا تھا۔ زمان کے والد ملک صاحب کی کمپنی ان کے شہر کی بڑی کمپنیوں میں مانی جاتی ہے۔ جسے سب اورو (ORO) کے نام سے جانتے ہیں۔ وہ کافی بڑی اور عالیشان کمپنی تھی جہاں مختلف قسم کے کام سرانجام دیے جاتے تھے۔ بہت سے مسائل کی بنا پر ملک صاحب زمان کو مسلسل کہتے رہے کہ وہ کسی طرح ان مسلوں کا حل نکالے لیکن چونکہ زمان کو ان سب کا کوئی شوق نہیں تھا لہذا وہ سب کچھ چھوڑ کر یہاں اس گاؤں میں آگیا۔ زمان کی بات مکمل ہونے کے بعد سعدیہ نے بھی اسے بتایا کہ کس طریقے سے اس کے ماں باپ فوت ہوئے اور وہ اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر بڑے گاؤں سے چھوٹے گاؤں آگئی اور خالہ جان کے ساتھ رہنے لگی۔ اب وہ اپنی تمام پڑھائی چھوڑ کر ان کے ساتھ سلائیں میں ہاتھ بٹاتی ہے اور اسی طرح ان دونوں کا گزربسر ہو رہا ہے۔ دونوں کافی دیر تک کنویں کے سامنے کھڑے باتیں کرتے رہے۔ موسم بہت خوشگوار تھا اور ٹھنڈی ہوائیں مسلسل چل رہی تھیں۔ زمان کو سعدیہ کے بولنے کا انداز کافی پسند آیا تھا۔ وہ بہت نرمی سے بات کرتی تھی اور ہر الفاظ کی ادائیگی بہت ہی طریقے سے کرتی تھی۔ مسلسل چلتی ٹھنڈی ہوائیں یکدم تھم گئیں اور ایک ایک کرکے بارش کی ننھی ننھی بوندیں برسنے لگیں۔ اس سے پہلے کے بارش بڑھے... انہیں جلد سے جلد گھر تک پہنچنا تھا۔ گھر تک پہنچنے تک وہ دونوں بری طرح بھیگ چکے تھے۔ کیونکہ بارش مسلسل تیز ہوتی جا رہی تھی۔ خالہ جان پریشانی سے دروازے پر کھڑی تھیں۔ ان کے چہرے پر فکرمندی تھی اور وہ بھی برآمدے میں کھڑے ہونے کی وجہ سے ایک حد تک بھیگ چکی تھیں۔ زمان اور سعدیہ کو آتا دیکھ کر اُنکے چہرے پر اطمینان آیا۔

……………………………………….
وہ پریشانی سے اپنے آفس میں چکر کاٹ رہے تھے۔ آفس کی کھڑکیوں پر بوندیں تیز تیز برس رہی تھیں۔ کسی نے دروازہ بجا کر اندر آنے کی اجازت مانگی تو وہ خود دروازے تک پہنچے اور دروازہ کھولا۔ سامنے ایک لڑکا کھڑا تھا, جس کے ہاتھ میں چند فائلیں تھیں۔ ملک صاحب نے جھپٹ کر اس کے ہاتھ سے فائلیں لیں اور تمام فائلیں ٹیبل پر رکھ کر کھول کھول کر دیکھنے لگے۔ وہ لڑکا بھی ان کے پیچھے آ کھڑا ہوا۔ جب کچھ نہ ملا تو ملک صاحب نے زور سے فائل بند کر دی اور ٹیبل پر ہاتھ مارا۔

" وہ فائل بہت اہم تھی ڈھونڈو اسے۔ نوید ! ڈھونڈو…"

ملک صاحب نے زوردار آواز میں کہا۔ پیچھے کھڑا لڑکا تابعداری سے کمرے کا دروازہ بند کر کے چلا گیا۔ ملک صاحب پریشانی اور بے بسی میں سر پکڑ کر کرسی پر بیٹھ گئے۔ کچھ دیر بعد جب نوید واپس آیا تو اس کے ہاتھ خالی تھے اور چہرے پر ناامیدی تھی۔ آج آٹھواں دن تھا…. چھوٹی موٹی چیزیں تو آفس سے غائب ہو ہی رہی تھیں لیکن اس فائل کا غائب ہو جانا ملک صاحب کو کافی گہرا صدمہ دے گیا تھا۔ اتنے سالوں کی محنت اس کمپنی ارو میں تھی اور یوں اس کی بربادی ہوتے دیکھنا ان کے لئے کافی مشکل تھا۔ ملک صاحب نے نوید سے زمان کا پوچھا تو اس نے مایوسی سے سے بتایا کہ اس کا ابھی تک کوئی پتہ نہیں ہے۔ وہ عام طور پر تو کہیں جاتا تھا تو اسی شہر میں ہوتا تھا۔ دوسرے شہر میں اس نے معلومات کروائی لیکن اس کا کچھ پتہ نہ چل سکا۔ کمپنی کو اور باپ کو اس حالت میں چھوڑ کر جانا کوئی عقلمندی نہیں تھی۔ ملک صاحب سر پکڑ کر بیٹھے رہے۔ وہ زمان کو ڈھونڈیں یا اپنی کمپنی کو برباد ہونے سے بچائیں...؟ نوید نے ملک صاحب کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے انہیں دلاسہ دیا۔ ایک دم کچھ یاد آنے پر نوید چونکا۔ ملک صاحب کے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ کچھ دنوں پہلے زمان کے پاس کوئی لیٹر آیا تھا۔ جس میں کسی گاؤں کی کچھ تصاویر اور ایڈریس تھا۔ زمان خود بھی نہیں جانتا تھا کہ وہ کس نے بھیجا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ وہیں چلا گیا ہو۔ ملک صاحب کو یہ سن کر کافی حیرت ہوئی کہ زمان بھلا شہر چھوڑ کر گاؤں کیوں جائے گا...؟ بات ناراض ہونے والی تھی تو نہیں... چلو اگر وہ اتنی سی بات پر ناراض ہو بھی گیا تو شہر چھوڑ کر گاؤں جانا…. زمان کے جاتے ہی اس بڑی فائل کا غائب ہو جانا... ان سب کا آپس میں کوئی لنک لگتا تھا۔ ملک صاحب کو تشویش ہوئی اور انہوں نے کہا۔

" ان سب کے پیچھے کسی کی سازش ہے۔ زمان کو گاؤں بھیجنا اور یہاں سے فائل غائب کرنا... ان دونوں کے پیچھے کوئی ایک ہی ہے۔ اب وہ کون ہے اس کا پتا تم لگاؤ گے۔

ملک صاحب نے نوید کو ذمہ داری سونپی کہ وہ جلد از جلد اس گاؤں جائے اور کسی طرح زمان کو ان ساری باتوں سے آگاہ کرے۔

………………………………………..


بارش کے بعد گاؤں کا موسم کافی خوشگوار ہو گیا تھا۔ زمان ہر چیز سے بے خبر برآمدے کے تخت پر لیٹا تھا۔ بارش میں بھیگنے کی وجہ سے وہ بری طرح سردی کی لپیٹ میں آ گیا تھا۔ سر درد سے پھٹ رہا تھا جب کہ بخار کی وجہ سے آنکھیں جل رہی تھیں۔ خالہ جان نے سعدیہ سے چائے بنانے کا کہا تو وہ باورچی خانے سے گرم گرم تازہ بنی چائے لے آئی۔ خالہ جان تخت کے کنارے پر بیٹھیں اور اسے سہارا دے کر اٹھایا…. ساتھ میں ایک سبز رنگ کی گولی بھی اسے تھمائی جو وہ کسی حکیم سے لے کر آئی تھیں۔ زمان نے گولی کو الٹ پلٹ کر دیکھا۔ جب چاول کی بنی روٹی کھالی تھی تو یہ گولی کھانے میں کیا برائی ہے….. یہ سوچ کر اس نے گولی منہ میں رکھی۔ گولی کی کڑواہٹ اس کے منہ سے لے کر حلق تک جا پہنچی۔ گرم چائے کا گھونٹ لینے پر اسے کچھ سکون ملا۔ دوا میں نیند تھی یا اسے سکون ملا تھا…. وہ مغرب تک سوتا رہا۔ اس کی آنکھ کھلی تو برآمدہ خالی تھا۔ خالہ جان کی کوئی پڑوسن چھوٹے کمرے میں بیٹھی تھیں اور ان کی باتیں کرنے کی آواز برآمدے تک آ رہی تھی۔ زمان اٹھا تو اسے اپنی طبیعت کافی ہلکی پھلکی لگی۔ خالہ جان سے تازہ ہوا لینے کا کہہ کر وہ باہر چلا گیا۔ ظاہر ہے عورتوں میں بیٹھ کر کیا کرتا... جانے کے لیے تو بہت سی جگہیں تھیں لیکن وہ جان کر اس جگہ پر آیا تھا تاکہ اس کے گھر والے اسے ڈھونڈ نہ سکیں اور وہ کسی حد تک کامیاب بھی ہو گیا تھا۔ ابھی تک تو کوئی اسے ڈھونڈنے نہیں آیا تھا اور اسے امید تھی کہ جب تک اس کے گھر والے اس کی بات نہیں مانیں گے وہ آرام سے یہاں رہ سکتا ہے۔

اندر چھوٹے کمرے میں خالہ جان اپنی پڑوسن کو کچھ باتیں زمان کے بارے میں بتا رہی تھیں۔ سعدیہ باورچی خانے میں چائے بنا رہی تھی اور انہیں ان دونوں کی آواز صاف سنائی دیتی تھی۔ خالہ جان اور پڑوسن کی باتیں کرنے کی آواز ہلکی ہونے پر سعدیہ نے چھوٹے کمرے کے دروازے کی چوکھٹ پر کھڑے ہو کر سننا چاہا کہ وہ ہلکی آواز میں کیا باتیں کر رہی ہیں۔ خالہ کی پڑوسن انہیں کہہ رہی تھی کہ وہ سعدیہ کی شادی کے لیے رشتہ ڈھونڈ رہی ہیں تو وہ اپنے دور کے بھانجے زمان کے لیے ہی دیکھ لیں اسے۔ جس کے جواب میں خالہ جان نے جو بات کہی اس سے سعدیہ کے چہرے کی مایوسی صاف دکھائی دیتی تھی۔ خالہ جان کا کہنا تھا کہ زمان ایک شریف اور اچھا لڑکا تو ضرور ہے لیکن وہ سونے کا چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہوا ہے۔ بڑے شہر کا لڑکا ہے ایک چھوٹے گاؤں کی لڑکی سے رشتہ مانگنا کوئی مناسب بات نہیں ہے اور اس کے ماں باپ تو کبھی بھی نہیں مانیں گے۔ غالباً اس کے ماں باپ نے اس کے لئے کہیں لڑکی ڈھونڈ رکھی ہو۔ مجھے اپنے بچے زمان پر بھروسہ تو پورا ہے لیکن وہ ایک بڑے شہر کا لڑکا ہے…. کسی کی نیت اور خیال بدلنے میں دیر نہیں لگتی... اسی لئے میں زمان سے اس بارے میں کوئی بات نہیں کرنا چاہتی۔ سعدیہ نے خاموشی سے چھوٹے کمرے کے چوکھٹ پہ کھڑے ہو کر باتیں سنیں اور واپس باورچی خانے میں چلی گئی۔ اس کا دل یکدم بہت اداس ہو گیا تھا۔ نہ جانے وہ دل میں کیا خیالات لے کر بیٹھ گئی تھی۔ وہ امیر کبیر لڑکا چھوٹے گاؤں کی لڑکی کے بارے میں بھلا کیوں سوچے گا...؟؟ اس نے اپنے اداس ہوتے دل کو تسلی دی اور چائے بنانے میں مصروف ہو گئی۔


………………………………………………
ملک صاحب کے گھر میں سب پریشانی سے بیٹھے ہوئے تھے۔ سب سے بڑے صوفے پر ملک صاحب تھے جبکہ تمام چھوٹے صوفوں پر گھر کی خواتین اور باقی لوگ بیٹھے تھے۔ سب کی سرگوشیوں کی آواز ایک دوسرے کو سنائی دے رہی تھیں۔ نوید کے کمرے میں داخل ہوتے ہی سب خاموش ہو گئے۔ نوید اندر آیا اور ادب سے سب کو سلام کیا۔ ملک صاحب اسی کے منتظر تھے۔ ملک صاحب کے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ اس نے اس گاؤں کے بارے میں معلومات تو کی ہے۔ اب وہ کل صبح یا شام کسی بھی وقت اس گاؤں کے لئے روانہ ہو جائے گا۔ اس کی یہ بات سن کر ملک صاحب کے چہرے پر اطمینان آیا اور وہ پر سکون ہو کر بیٹھ گئے۔ کمپنی کی اس طرح کی ناکامی اور زمان کا یوں ایک دم سے چلے جانا سبھی کے لیے پریشان کن تھا۔


…………………………………………


زمان گھر واپس آیا تو بخار کی شدت کافی کم تھی لیکن سر میں معمولی سا درد تھا۔ باورچی خانے سے برتنوں کی آوازیں آرہی تھیں اور خالہ جان ابھی تک اپنی پڑوسن کے ساتھ بیٹھی باتیں کر رہی تھیں۔ زمان نے باورچی خانے میں جھانکا تو سعدیہ برتن دھوتی نظر آئی۔ وہ بھی باورچی خانے میں داخل ہوگیا۔

" ایک کپ چائے مل سکتی ہے مجھے...؟"

آواز پر سعدیہ چونکی اور ہاتھ دھو کر جلدی سے اپنا آنچل سر پر ڈالا اور یہ کہہ کر باہر آ گئی کہ اسے کسی ضروری کام سے باہر جانا ہے…. آپ خالہ جان سے چائے کا کہہ دیں۔ زمان کو اس کا اکھڑا لہجہ کچھ عجیب لگا۔ وہ بھی اس کے پیچھے برآمدے میں آ کھڑا ہوا۔ وہ دوسرے چھوٹے کمرے سے چادر لے کر آئی اور اپنے کندھوں پر ڈالتے ہوئے خالہ جان سے خدا حافظ کرنے لگی۔ زمان نے اس سے کہا کہ وہ سعدیہ کو چھوڑ آئے گا... جہاں وہ جانا چاہتی ہے لیکن بہت کہنے کے باوجود بھی سعدیہ نہ مانی اور جلدی جلدی باہر چلی گئی۔ زمان کو سعدیہ کا اس طریقے سے نظر انداز کرنا کچھ مناسب نہ لگا۔ اس کے چلے جانے کے بعد وہ برآمدے میں رکھے تخت پر آ کر بیٹھ گیا اور آسمان کو دیکھتے ہوئے کچھ سوچنے لگا۔


……………………………………………

ڈھلتی شام اور لوگوں کے شور میں وہ رکشے کی پچھلی سیٹ سے اتری۔ کچھ بکھرے ہوئے پیسے رکشے والے کی طرف بڑھائے۔

" چاچا یہ لیجئے گن لئے گا اسے۔"

وہ جلدی میں نظر آتی تھی۔

"ارے بیٹا آپ نے گن کے ہی دیے ھونگے۔"

رکشے والے نے کھلے پیسے بغیر گنے جیب میں رکھتے ہوئے کہا۔"

" گن لیا کریں۔ آج کے زمانے میں کسی پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا۔"

رکشے والا پھڑپھڑاتی آواز کے ساتھ اپنا رکشہ دور لے گیا۔

" اور مجھ جیسے لوگوں پر بھروسہ تو ذرا بھی ممکن نہیں۔"

وہ تلخ مسکراہٹ کے ساتھ کہتے ہوئے تیز قدموں سے اس بڑے مکان میں داخل ہو گئی۔

………………………………………..

اگلی صبح زمان جلدی اٹھ گیا تھا۔ آج اسے گاؤں کی ان جگہوں پر جانا تھا جہاں وہ پہلے نہیں گیا تھا۔ وہ اپنے ساتھ تو سعدیہ کو بھی لے کر جانا چاہتا تھا لیکن رات سے سعدیہ نے اس سے ٹھیک سے بات نہیں کی تھی لہذا وہ خاموشی سے خالہ جان کو بتا کر چلا گیا۔ ضروری تو نہیں ہے آپ جو چاہیں وہی ہو۔ یہ سوچتے ہوئے زمان تنگ گلیوں میں سے گزر رہا تھا۔ کھلے علاقے میں آ کر اس نے اپنے قدموں کی رفتار کم کردی۔ یکدم اس کے ہلکے قدم تھم گئے…. جب اس نے سامنے سے نوید کو آ تا دیکھا۔ نوید نے اسے دور سے ہی دیکھ لیا تھا اور اب وہاں سے دیکھ کر مسکرا بھی رہا تھا اور ہاتھ بھی ہلاتا اس کے قریب آ رہا تھا۔ زمان کا دل کر رہا تھا کہ وہ کہیں بھاگ جائے لیکن ایسا ممکن نہ تھا۔ اس کی مجبوری تھی... اسے وہیں رکنا تھا۔ آخر اسے کس نے بتا دیا کہ میں یہاں موجود ہوں۔ نوید نے زمان کے قریب آ کر اسے سلام کیا…. زمان نے اس پر نظر ڈالے بنا سلام کا جواب دیا۔ نوید زمان کا اچھا دوست بھی تھا اور اس کے ساتھ اس کے والد کی کمپنی میں کام بھی کرتا تھا۔ عمر میں وہ زمان کے کے برابر ہی تھا لیکن قد میں وہ زمان سے کافی چھوٹا تھا۔ نوید نے وہیں کھڑے کھڑے زمان کو پوری داستان بتائی کہ کس طریقے سے اس کے باپ کی محنت سے بنائی ہوئی کمپنی کی بربادی ہو رہی ہے اور وہ یہ سب کچھ چھوڑ کر اس معمولی سے گاؤں میں رہ رہا ہے۔ زمان کو یہ سب سن کر کافی حیرت ہوئی اور اسے اپنی اس حرکت پر افسوس بھی ہوا لیکن اب پچھتانے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ اب اسے ہی کچھ کرنا تھا…. اپنے باپ کے لیے….. اس کمپنی کے لیے…. زمان، نوید کے ساتھ واپس جانے کے لیے راضی ہوگیا لیکن اس شرط پر کہ وہ آج نہیں بلکہ کل واپس آئے گا۔ نوید کے بہت اصرار کے باوجود وہ نہ مانا۔ زمان نوید کو خالہ جان کے گھر لے آیا۔ سفر کافی لمبا تھا اور دوپہر بھی کافی گہری ہو چکی تھی اسی لیے زمان نوید کو خالہ جان کے گھر لے آیا کہ وہ دوپہر کا کھانا کھا کر کچھ دیر آرام کرلے اور اپنے سفر پر روانہ ہو جائے۔

خالہ جان نے نوید کی مہمان نوازی بھی بہت زبردست طریقے سے کی۔ نوید بھی ان سے مل کر کافی خوش ہوا۔ نوید, زمان اور خالہ جان نے ساتھ کھانا کھایا۔ زمان کے پوچھنے پر خالہ جان نے بتایا کہ سعدیہ اپنے ضروری کام سے باہر گئی ہوئی ہے اور اسے آتے آتے شام ہو سکتی ہے۔ نوید کھانا کھا کر برآمدے کے اسی تخت پر نیم دراز ہو گیا ۔ شام میں اسے سفر پر روانہ ہونا تھا۔

……………………………..



ایک بار پھر وہ رکشے والے کو پیسے تھما کر اس بڑے مکان میں داخل ہوئی۔ گھر میں داخل ہوتے ہی سیڑھیاں تھیں جنہیں پار کرکے ایک بڑا کمرہ تھا۔ وہ جلدی جلدی سیڑھیاں پھلانگ کر اس بڑے کمرے میں آ پہنچی جہاں پہلے سے کوئی موجود تھا۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی اس نے کندھے پر ڈلی چادر کو جھٹک کر صوفے پر ڈالا اور خود بھی زور سے صوفے پر بیٹھ گئی۔

"سعدیہ... تم کب آئیں...؟"

سعدیہ کے صوفے پر بیٹھنے پر سامنے بیٹھی لڑکی نے نظریں اٹھا کر سوال کیا۔ سعدیہ نے جواب دیا تو لہجے میں کافی بے بسی اور سختی تھی۔ وہ اسے بتا رہی تھی کہ وہ اس چھوٹے سے مکان میں رہ رہ کر تنگ آ گئی ہے۔ زمان اپنی کمپنی اورو کے بارے میں کچھ بتاتا ہی نہیں ہے.... اسے تو اپنی کمپنی میں کوئی انٹرسٹ ہے ہی نہیں... اسے گاؤں بھیجنے کا کوئی فائدہ بھی نہیں ہوا اور نہ ہی میرے اتنی مہینوں وہاں رکنے کا کوئی فائدہ ہوا۔ میں جلد ہی اس بوڑھی خاتون سے جان چھڑا کر یہاں واپس آ جاؤں گی۔ کمپنی کی اہم فائلیں تو اب ہمارے پاس ہی ہیں... پھر زمان کی کیا ضرورت....

کچھ چیزیں جیسی دکھتی ہیں ویسی ہوتی نہیں ہیں اور کچھ چیزیں جیسی ہوتی ہیں ویسی دکھتی نہیں ہیں۔


 

Hiba Hanif Rajput
About the Author: Hiba Hanif Rajput Read More Articles by Hiba Hanif Rajput: 11 Articles with 11179 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.