محمدمنور عالم اپنے قلمی نام منور راہیؔ سے جانے
پہچانے جاتے ہیں۔ ان کی پیدائش ۵؍ اپریل ۱۹۶۵ء کو دربھنگہ میں ہوئی۔ اپنی
زندگی کے نشیب و فراز سے گزرتے ہوئے انہوں نے اپنا تعلیمی سفر جاری رکھا ۔
در س و تدریس سے وابستہ رہے اور اسسٹنٹ پروفیسر (اردو) گیسٹ فیکلٹی کی
حیثیت سے آر۔ این ۔ کالج ، پنڈول ، مدھوبنی میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اس
سے قبل ان کی دو کتابیں ’’ہندوستانی فلموں کا اردو سے رشتہ‘‘ (۲۰۱۸ء) اور
’’دیارِ غزل‘‘ مرتبہ ، بزم رہبر کا ترجمان (۲۰۲۰ء) منظر عام پر آچکی ہیں
اور قارئین سے داد و تحسین وصول کر چکی ہیں ۔ فی الحال وہ شہر دربھنگہ کے
معروف ادارہ ’’بزم رہبر‘‘کے صدر ہیں ۔ درس و تدریس کے علاوہ دیگر سماجی اور
فلاحی کاموں میں وہ اکثر فعال رہا کرتے ہیں۔
زیر مطالعہ کتاب ’’لہو لہو ہے قدم‘‘ ۲۰۲۲ء میں شائع ہوئی ہے ۔ یہ کتاب ۱۶۰
؍ صفحات پر مشتمل ہے۔ کتاب کا پیش لفظ ڈاکٹر منور راہی نے ’’رودادِ سفر‘‘کے
عنوان سے لکھا ہے۔ اپنے کتاب کے متعلق وہ لکھتے ہیں:
’’پیش نظر کتاب ’’لہو لہو ہے قدم‘‘ میرا پہلا شعری مجموعہ ہے جو ۱۶۰؍ صفحات
پر مشتمل ہے۔ جس میں دو نعت کے علاوہ میری شاعری کے کچے پکے افکار شعری
پیکر میں آپ کے سامنے ہیں۔ میں نے اپنے اس شعری مجموعے کا نام ’’لہو لہو ہے
قدم‘‘ اس لئے رکھا کہ :
لہو لہان ہوئے میرے پاؤں کانٹوں سے
رہِ وفا میں ہے ایسا بھی رہ گزار آیا
نچوڑتا ہوں لہو فکر کی میں شہہ رگ سے
یونہی نہیں میرے شعروں پہ ہے نکھار آیا
عالمی شہرت یافتہ شاعر پروفیسر عبدالمنان طرزیؔ نے منور راہی سے متعلق اپنے
منظوم اظہار خیال میں لکھا ہے:
اب لکھنے کی جن پہ باری
ہیں وہ منور عالم راہیؔ
چودہ برس سے شعر ہیں کہتے
میخانے کا ساغر بھرتے
عمدہ غزلیں ان کا فن ہیں
حسن ترنم، جانِ سخن ہیں
ڈاکٹر منور راہی نے حضرت مصطفےٰ ﷺ کی شان میں نعتیہ کلام بہت ہی خوبصورت
انداز میں پیش کرتے ہیں۔ چند اشعار ملاحظہ کریں:
جب کفر کی ظلمت پھیلی تھی وحدت کی ضیاء پاشی کرکے
چمکا دیا جس نے دنیا کو اس شمس و قمر کا کیا کہنا
آتے ہی زباں پہ نام نبی تعظیم سے کردیتا ہے جو خم
اس شخص کی قسمت کیا کہنا اس شخص کے سر کا کیا کہنا
اس کے بعد غزلوں کا طویل سلسلہ ہے۔ غزلوں میں حسن و عشق کی بات نہ ہو یہ
عجیب بات ہے۔ عشق زندگی کا مرکز و محور ہے۔ عالم رنگ و بو میں ہم جو کچھ
بھی دیکھتے ہیں وہ مختلف عناصر کے باہمی ربط و کشش سے بنتا ہے ۔ اس میں عشق
کی کارفرمائی نظر آتی ہے۔ عشق کہیں شعوری ہے ، کہیں نیم شعوری اور کہیں غیر
شعوری۔ یہ بات ڈاکٹر منور عالم راہی کی شاعری میں بھی گاہے بگاہے نظر آتی
ہے۔ اس نوعیت کے چند اشعار ملاحظہ کریں:
فرقت میں تری اب تو یہ حال ہمارا ہے
آہوں میں کٹے گی شب دن رو کے گزارا ہے
احوال جو راہیؔ نے پوچھا تو کہا دل نے
کچھ وقت نے روندا ہے کچھ آپ نے مارا ہے
٭٭
بن سنور کر بام پر تو شام کو جایا نہ کر
خون کے آنسو سے منھ سورج کا دھلوایا نہ کر
عندلیبانِ چمن کے گھونسلے جل جائیں گے
تو گھنیری زلف کو کاندھے پہ لہرایا نہ کر
غزل کا شاعر بنیای طور پر داخلی محسوسات کو اپنی شعری پیکر میں ڈھالنے کا
ہنر جانتا ہے۔ ڈاکٹر منور راہی بھی اس ہنر سے بخوبی واقف ہیں۔ ان کی غزلوں
کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے اشعار میں فکر کی گہرائی اور وسعت بہت
زیادہ ہے۔ ان کی افکاراور ان کے جذبات میں تازگی ہے۔فکر کی گہرائی کے ساتھ
اس میں جمالیاتی رنگ و آہنگ بھی نمایاں ہے۔ چند اشعار ملاحظہ کریں اور اس
سے محظوظ ہوں:
عبث ہیں یہ شکوے عبث ہیں یہ نالے
خوشی کے لئے غم سے جی کو لگالے
اندھیری رہِ زندگی ہے اے راہیؔ
اجالا ہو جس سے وہ شمع جلالے
٭٭
اسے چین و آرام و راحت نہیں ہے
کہ جھولی میں جس کی قناعت نہیں ہے
وہی باغباں ہے چمن بھی وہی ہے
مگر گل میں پہلی سی رنگ نہیں ہے
اب غزلیہ شاعری صرف حسن و عشق تک محدود نہیں ہے۔ غزلیہ شاعری کے ذریعہ شاعر
نئی نسل کو کوئی بڑا سے بڑا پیغام دے ڈالتا ہے۔ ڈاکٹر منور راہی بھی ان
خوبیوں سے متصف ہیں۔ وہ نوجواں سے کہتے ہیں کہ دنیا میں کامیاب ہونے کے لئے
گفتار میں شیرینی بہت ضروری ہے۔ وہ سماجی ناہمواریوں پر اپنی شاعری کے
ذریعہ طنز کرتے ہیں۔ اس لئے ان کے بہت سے اشعار کو پڑھ کر قارئین یہ کہنے
پر مجبور ہوتے ہیں کہ منور کی شاعری میں طنز کے نشتر پوشیدہ ہوا کرتے ہیں۔
چند اشعار ملاحظہ کریں:
چاشنی ہوتی ہے جس کے گفتار میں
سر خرو ہوتا ہے وہ ہی سنسار میں
پڑھ کے غزلوں کو میری ہیں کہتے سبھی
طنز ہوتا ہے راہیؔ کے اشعار میں
ڈاکٹر منور عالم راہی کو ارد و شاعری سے بہت ہی لگاؤاور پیار ہے۔ وہ زندگی
کے تجربات کو شاعری میں ڈھالنے کا ہنر جانتے ہیں ۔ وہ زندگی میں رونما ہونے
والے تمام واقعات ، حادثات اور واردات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے
کہ ان کی شاعری زندگی کا عکس معلوم ہوتی ہے۔ ان کی غزلیں تنوع کی کیفیت سے
مالا مال اور موضوعا ت کی رنگا رنگی سے آسودہ ایسی غزلیں ہیں جن کے مطالعے
سے باذوق قارئین کو تسکین پہنچتی ہے۔ یہ اشعار ملاحظہ فرمائیے:
دیکھ انہونی سارا جہاں ہے اداس
موسمِ گل میں بھی گلستاں ہے اداس
جب یہ جانا کہ حق کی صدا ہوگئے
دوست ہم سے ہمارے خفا ہوگئے
٭٭
زخمی ہوئے جو ہاتھ تو جانا یہ دوستو
کانٹے بھی بے شمار ہیں شاخِ گلاب میں
٭٭
تبسم کی خاطر یہاں لوگ اب تو
ستارے پلک پہ سجانے لگے ہیں
٭٭
رشتوں کی شاخ یہ اب کانٹے ہی اُگ رہے ہیں
مسموم ہوگئی ہے آنگن کی اب ہوا بھی
ڈاکٹر منور راہی کی غزلیہ شاعری معنویت، اسرار اور اس کی تہہ داری، لطافت
اور معنی خیزی سے مزین ہے۔ ان کی غزلوں کے مطالعے میں کسی طرح کی اکتاہٹ
قارئین کے سامنے درپیش نہیں آتی ہے۔ وہ زندگی کے دکھوں کو اپنے اشعار میں
ڈھال کر قارئین کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ ان کی شاعری کی زبان صاف ستھری اور
نہایت پاکیزہ ہے۔ وہ نہایت رواں دواں الفاظ میں غزلیں کہتے ہیں۔ چند اشعار
ملاحظہ کریں:
خلق و وفا خلوص جو پیدا کریں گے لوگ
لے کر چراغ خود انہیں ڈھونڈا کریں گے لوگ
٭٭
اس نے کانٹوں سے بھی بڑھ کے دی ہے چبھن
پھول ہونٹوں پہ جس کے کھلاتے رہے
تمہاری بزم میں ایسی نشانی چھوڑ جائیں گے
ہر اک لب پر محبت کی کہانی چھوڑ جائیں گے
٭٭
بہرِ معاش کوششِ پیہم ہے اپنا کام
دینا نہ دینا رزق یہ ٹھہرا خدا کا کام
شاعری زندگی کے مسائل کو حل نہیں کر سکتی ہے۔ لیکن اچھی شاعری زندگی کے
مسائل کے کربناک لمحوں اور احساس کو خوشگوا ر بنانے کا کام کرتی ہے۔ دل کی
زخموں کی ٹیس میں مٹھاس بھردیتی ہے۔ اس طرح زندگی کی صعوبتیں بہت حد تک
آسان ہوجاتی ہیں۔ یہ خوبی منور راہی کی غزلوں میں بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ
زیادہ تر ارد و شائقین ان کی غزلیہ شاعری کو پسند کرتے ہیں۔ چند اشعا ر
ملاحظہ کریں:
مرے دوستوں کا کرم ہے یہ مجھ پر
کوئی چوٹ دل کی پرانی نہیں ہے
٭٭
ہنستے ہنستے چوم لی میں نے تو خنجر کی زباں
پھر یہ برپا کس لئے ماتم صفِ قاتل میں ہے
٭٭
ہر ایک شخص ہتھیلی پہ جاں لئے جائے
کہ دلفریب ہے اس کے دیار کا موسم
٭٭
اور کیا ہوگا کہ جب منصف بکے گا شہر کا
چاہے گا جو اپنے حق میں فیصلہ لے جائے گا
ڈاکٹر منور راہی زندگی کے مشکل سفر سے واقف ہیں۔ اس لئے وہ کہتے ہیں کہ
زندگی کے مشکل سفر کے دوران آگے بڑھنے کے لئے کچھ خطروں کا سامنا کرنا بھی
ضروری ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ اسلاف نے جن راستوں پر چل کرکامیابی حاصل کی
ہے اسے راستے کی تلاش کامیابی کے لئے لازمی ہے۔ شعری پیکرمیں ڈھال کر اپنے
دلی کیفیت کو بیان کرتے ہوئے شاعر لکھتے ہیں:
مشکل ہے زندگی کا سفر جانتا ہوں میں
خطروں سے کھیلنا بھی مگر جانتا ہوں میں
جس پر ملی ہے چل کے انہیں منزلِ کمال
اسلاف کا وہ راہِ گزر جانتا ہوں میں
منورراہی کی غزلوں میں نغمگی ہے ، دریا کی موجوں کی مانند روانی ہے۔ بہت سے
اشعار ایسے ہیں جنہیں گنگنانے کی خواہش ہوتی ہے۔ چند اشعار دیکھیں اور
محظوظ ہوں:
تیری یادوں کی شمعوں کو فروزاں کر دیا ہم نے
شبِ غم کے اندھیروں کو پشیماں کر دیا ہم نے
ہمیں ثابت یہ کرنا تھا کہ دیوانے تمہارے ہیں
جبھی تو چاک خود اپنا گریباں کر دیا ہم نے
٭٭
خزاں جیسے چمن کی شادمانی چھین لیتی ہے
غریبی نوجوانوں سے جوانی چھین لیتی ہے
بہو جھاڑو لگاتے ساس کو ہے دیکھتی رہتی
مگر غیرت کی ماری نوکرانی چھین لیتی ہے
زیرمطالعہ کتاب میں صرف دونظمیں بعنوان ’’موت کا سفر‘‘ اور ’’کرم کرمولا‘‘
شامل ہیں۔ ایک نظم ۲۰۰۱ء میں پٹنہ میں ہوئے طیار ہ حادثہ سے متاثر ہوکر اور
دوسری نظم ۲۰۲۱ء کرونا وائرس سے ہورہی ہلاکتوں سے متاثرہوکر لکھی گئی ہیں۔
’’کر م کر مولا‘‘ جو کرونا وائرس کی وجہ سے ہورہی ہلاکتوں سے متاثرہوکر
منور راہی نے لکھی ہے ۔اس نظم میں وہ کہتے ہیں:
زندگی خوف کے سائے میں گزرتی اب ہے
موت ہر آن یہاں رقص جو کرتی اب ہے
اک قیامت تیرے بندوں پر گزرتی اب ہے
زندگی ہوگئی اب تو مری دوبھر مولا
اپنے بندوں پہ تو اب رحم و کرم کر مولا
ہر طرف موت کا آنکھوں میں ہے منظر مولا
کتا ب ’’لہو لہوہے قدم‘‘ میں آٹھ قطعات بھی شامل ہے۔ ان کے قطعات بھی
معنویت سے پُر ہوا کرتے ہیں ۔ سماجی حالات کی عکاسی کرتا ایک قطعہ ملاحظہ
کریں جسے ڈاکٹر منور راہی نے تحریر کیا ہے:
سکونِ زیست مرا آرزو نے چھین لیا
جو اعتبار تھا وہ گفتگو نے چھین لیا
ضعیف ماں کی امیدوں پہ پھر گیا پانی
’’ہوا جوان جو بیٹا بہو نے چھین لیا‘‘
|