"برید مشرق"
(Muhammad Ahmed Tarazi, karachi)
علامہ ارشد القادری کے خطوط کا مجموعہ "برید مشرق" ترتیب و تدوین تحشیہ:۔ڈاکٹر خوشتر نورانی ناشر ورلڈ ویو پبلشرز،لاہور
|
|
|
"برید مشرق" اُردو میں خطوط نگاری کی جب بات کی جاتی ہے تو ایک ایسی صنف کا تصور ذہن میں آتا ہے جو اپنے تئیں مضبوط بھی ہے اور کشاں کشاں بڑی اصناف ادب میں بھی شمار کی جاتی ہے بلکہ اسے اُردو ادب میں باقاعدہ ایک فن یا ادب لطیف کی حیثیت حاصل ہے۔فنون لطیفہ میں تو اس کا شمار پہلے دن سے ہی ہے۔ خطوط میں ،خط نگار، مکتوب الیہ سے اپنے ذاتی حال احوال بیان کرتے کرتے موجودہ سیاسی، سماجی، موسمی اور فطری کیفیات کا اظہار کرنے لگتا ہے اور پھر اس کے مطابق مکتوب الیہ کے تمام احوال و کیفیات موصو ل کرتا ہے۔ یعنی خطوط نگاری اور خطوط موصولی، شخصی اظہار کا ایک بھروسے مند اور لازوال ذریعہ ہے۔ یوں بے شمار کلام فکر، خطوط کے ذریعے احباب و متعلقین تک چلے جاتے ہیں اور ان کے حاصل ہوجاتے ہیں۔ مکتو ب نویسی اُردو ادب کی ایک ایسی صنف ہے جہاں لفظ بولتے ہیں اور مکتوب نگار کا حالِ دل مکتوب الیہ کو سناتے ہیں ۔یہاں خاموشی زبان بن جاتی ہے اور دونوں جانب کی نجی زندگیاں کاغذ کی اسکرین پر نمایاں ہوجاتی ہیں۔کسی اور صنف میں یہ خصوصیت بہت کم پائی جاتی ہے کہ وہ عرض حال کا نقشہ ہو بہو اتار دے اور ایک ایک بات مکتوب الیہ تک پہنچا دے کیوں کہ مکتوب نگار اسے انتہائی توجہ اور فکرسے لکھتا ہے،اس لیے بہت سی ایسی باتیں بھی ان میں درآتی ہیں جنھیں عام اصناف میں نہیں کہا جاسکتا ۔ مکتوبات کی یہ دنیا زندگی سے بھر پور، بڑی دل چسپ اور دل نشیں دنیا ہوتی ہے ۔ ان خطوں کی مدد سے تاریخ ، ادب، سوچ و فکر، نظرو نظریہ کے بہت سے گوشے وا ہوسکتے ہیں اسی طرح پوری شخصیت کے سارے پہلو واضح نہ سہی، کچھ اہم اور کارآمد پہلو ضرور سامنے آجاتے ہیں اوران کی نجی زندگیاں، معاملات، کیفیات و مشکلات و مصائب کا کچھ اندازہ ضرور ہوجاتا ہے۔ خطوط کی مدد سے تاریخ کے گنجلک واقعات کو بھی سمجھا جاسکتا ہے ۔اسی طرح ان سے مذہبی ، سیاسی،عسکری، سفارتی حالات پر بھی روشنی ڈالی جاسکتی ہے۔ نیز اس عہدکے علمی و ادبی معاملات و سروکارکا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ مشاہیر اور ماقبل خطوط نگاروں کے خطوط کے مطالعہ سے یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ انھوں نے اپنے خطوط اور مکتوبات کو تاریخ، ادب، انشا، فلسفہ، عمرانیات، ایمان و تصوف، عقائد و نظریات، تہذیب، ثقافت، تمدن اور درخشاں اقدار و روایات جیسے بامقاصد عناصرو خوبیوں سے مالا مال کیا ہے۔ اسی لیےان میں علوم و فنون کے بحر ذخار بہتے ہیں۔ خطوط نگاری انسانی تہذیب و تمدن کے ارتقا کا فن ہے ۔ یہ فن انسانی رشتو ں اور باہمی تعلقات میں ان کے معاملات سے بحث کرتا ہے۔اس کی غرض و غایت یہی ہے کہ ان کے ذریعے انسانوں کے احوال وکوائف انسانوں تک پہنچیں ۔اس فن کے قالب میں آپسی تعلقات ،گردو پیش کے واقعات و حالات تو کبھی خالص ذاتی نوعیت کے معاملات اور کبھی علمی وفکری مباحث جگہ بناتے ہیں اور اپنا اثر چھوڑتے ہیں۔ خطوط نگاری ایسا فن ہے جو سماج میں بسنے والے انسان، ان کی فکر ،رویہ ،آپسی لین دین ،مختلف سیاسی ،ادبی اورسماجی ایشوز پر مکتوب نگار اور مکتوب الیہ کے خیالات و احساسات پر مبنی براہ راست ایسا منضبط اور مبسوط دستاویزی حوالہ بنتا ہے جس میں اس عہد کی معاشرتی زندگی، رہن سہن ،رسم و رواج، سیاسی اتھل پتھل ،تہذیبی شکست و ریخت ،علمی و ادبی مباحث اور فکری احوال و کوائف نمایاں طور پر موجود ہوتے ہیں۔یہ ایک ایسی بے ریائی تحریر ہے، جس میں انسانی شخصیت پوری طرح بے نقاب نظر آتی ہے ۔ اُردو زبان میں خطوط نویسی کا دامن بہت وسیع ہے اور خطوط نویسی کی روایت اتنی توانا ہے کہ بذات خود ایک صنف ادب کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ اُردو ادب میں مکتوب نگاروں کی طویل فہرست ہے جن میں ہر شخص کو جداگانہ امتیازات حاصل ہیں۔ان کے مطالعہ سے مکتوب نگار کی شخصیت کے ایسے پہلو عیاں ہوتے ہیں جس سے ہمیں اس کو سمجھنے میں ہی مدد نہیں ملتی بلکہ بحیثیت انسان ہم اس سے بخوبی واقف بھی ہوتےہیں۔ خط نثر کی ابتدا کے ساتھ ہی مختلف ہیئتوں اور اسلوب میں لکھے جاتے رہے،جو اپنے جداگانہ انداز کے ساتھ اپنے مقصد کی غمازی بھی کرتے ہیں ۔عہِد حاضر میں مختلف طرح کے مذہبی ، مسلکی، سیاسی ، نیم سیاسی، معاشرتی ، ادبی اور لسانی اہمیت کے حامل خطوط وجود میں آچکے ہیں ۔ان سب کی اپنی جداگانہ اہمیت ہے،جن میں خارجی سے لیکر داخلی معاملات تک زیر بحث اوراہمیت کے حامل رہے ہیں۔ یہاں یہ اَمر بھی قابل ذکر ہے کہ دنیا کے بہترین مکتوب نگار عام طور پر وہی لوگ ہوتے ہیں جو زندگی کے تپتے ہوئے ریگ زاروں پر چلتے ہیں اور اُن کے خطوط اِس سفر کی روداد ہوتے ہیں۔ "برید مشرق" زندگی کے تپتے ہوئے ریگزاروں پر چلتے ہوئے ایسے ہی سفر کی روداد ہے جس میں علامہ ارشد القادری نے ذاتی ،قومی اور ملی رنج و الم کو درد انگیز لب و لہجہ میں بیان کیا ہے۔یہ مجموعہ علامہ کے 239مکاتیب کے علاوہ مکتوب الیہ اورمکتوب میں مذکورشخصیات کے مختصر تعارف،تین اہم ضمیمہ جات"ورلڈ اسلامک مشن کی بنیاد، دستور اساسی،استفتا اور دعوت اسلامی کا لائحہ عمل" وضاحتی اشاریہ اور عکس مکتوبات پر محیط ہے۔ڈاکٹر خوشتر نورانی کے تحریر کردہ حواشی پرکچھ تحفظات کے باوجود ہمیں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ اِس کی ترتیب ،تدوین،تحشیہ کی ذمہ داری ڈاکٹر صاحب نے بڑی محنت اور تحقیق سے انجام دی اور ورلڈ ویو پبلشرزلاہور کے روح رواں جناب مقصود احمد کامران صاحب نے اسے خوبصورت سرورق کے ساتھ عمدہ کاغذ پر حال ہی میں شائع کیا ہے۔ علامہ ارشد القادری ایک ممتاز عالم دین،نکتہ رس خطیب،منجھے ہوئے مدرس،صاحب طرز قلم کار،شاعر،مناظر ،سیاسی مدبر اور عالمی مبلغ تھے۔اُن کی ولادت 15مارچ 1925ء کو سید پورہ،ضلع بلیا ،اُتر پردیش کے ایک مذہبی گھرانے میں ہوئی۔ابتدائی تعلیم گھر پر جبکہ فارسی کی ابتدائی تعلیم اپنے دادا مولانا شاہ عظیم اللہ جو جون پور کی شہرہ آفاق درس گاہ مدرسہ حنفیہ سے فارغ التحصیل تھے،سے حاصل کی ۔اعلی تعلیم کے لیے کچھ عرصہ منظراسلام بریلی میں رہے۔اس کے بعد مولانا شاہ عبدالعزیز مرادآبادی کی زیرنگرانی جامعہ اشرفیہ مبارک پور میں علوم منقولات و معقولات کی تکمیل کی اور 1944ء میں فارغ التحصیل ہوئے۔علامہ ارشدالقادری مولانا امجد علی اعظمی سے بیعت تھے اورانہیں مولانا شاہ ضیاء الدین مدنی اور شاہ فداحسین عظیم آبادی سے خلافت و اجازت حاصل تھی۔آپ نے کچھ عرصہ تدریسی ذمہ داریاں بھی انجام دیں اور درجنوں اداروں اور تنظیموں کی بنیاد و فروغ میں کلیدی کردار ادا کیا۔انہیں دینی ،سیاسی اور ملی سرگرمیوں کی وجہ سے 1964ء اور 1979ء میں قیدوبند کی صعوبتوں سے بھی گزرنا پڑا۔ علامہ ارشدالقادی نے اسلام کی تبلیغ واشاعت کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں۔آپ نے علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی،مولانا عبدالستار خان نیازی اور پروفیسر سید شاہ فرید الحق کے ساتھ یورپ و افریقہ اور مشرق وسطیٰ کا بھی دورہ کیااور کئی مدارس و مساجد و تبلیغی و تعلیمی مراکز کی بنیاد رکھنے میں عملی کردار ادا کیا۔ اپنی تمام تر دعوتی ،تحریکی،تنظیمی اور تبلیغی مصروفیات کے باوجود انہوں نے سیکڑوں علمی و فکری مضامین ومقالات لکھے اور درجنوں کتب تصنیف و تالیف کیں۔جن میں زلزلہ،تبلیغی جماعت،زیروزبر،جماعت اسلامی،انوار احمدی،دل کی مراد،جلوہ حق،نقش کربلا،دور حاضر میں منکرین رسالت،فن تفسیر میں امام احمد رضا کا مقام،ایک سفر دہلی سے سہارن پور تک،لالہ زار،تعزیرات قلم،دعوت انصاف،مصباح القرآن،لسان الفردوس، فغان درویش،عینی مشاہدات،تجلیات رضا،حدیث فقہ اور جہاد کی شرعی حیثیت وغیرہ بہت مشہورومعروف ہیں۔انہوں نے اپنی زندگی متعدد رسائل بھی جاری کیے۔جن میں پندرہ روزہ جام کوثر کلکتہ،شان ملت پٹنہ ،پندرہ روزہ رفاقت اور ماہنامہ جام نور کلکتہ نمایاں ہیں۔آپ کی بے مثال دینی و علمی خدمات پر مگدھ یونی ورسٹی گیا بہار،اور ونو بابھاوے یونی ورسٹی ہزاری باغ جھار کھنڈ سے پی ایچ ڈی اور جواہر لعل نہرو یونی ورسٹی دہلی سے ایم فل کے مقالے بھی لکھے گئے۔آپ کا انتقال 29اپریل 2002ء کو نئی دہلی میں ہوا اور تدفین آپ کے قائم کردہ ادارے جامعہ فیض العلوم جمشید پور صوبہ جھار کھنڈ میں عمل میں لائی گئی۔ "برید مشرق" میں علامہ ارشد القادری کے شامل شدہ خطوط معاصر علماء ومشائخ ، دانشوروں،دوستوں اور کچھ سیاستدانوں کو لکھے گئے ہیں۔علامہ کے یہ خطوط اپنے دور کے سیاسی، ثقافتی، تہذیبی، علمی، معاشرتی، اقتصادی اور دینی و ملی مسائل کی بھر پور عکاسی کرتے ہیں۔ان خطوط کی اہمیت کا ایک اور اہم پہلو اپنے عہد کی تاریخی، سیاسی ، دینی ،معاشی اور معاشرتی تصویر کشی ہے۔اُنہوں نے اپنے خطوط میں اپنے زمانہ کی معاشرت، سیاست اور حالات کی طرف واضح اشارے کئے ہیں اور اُن کے یہ خطوط اپنے دور کےحالات و واقعات اور سیاسی اتار چڑھاؤ اور مذہبی سرگرمیوں کے چشم دید گواہ اور زندہ تاریخ ہیں۔ علامہ ارشد القادری کی زندگی کے پچاس برسوں پر محیط اِن مکاتیب کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ علامہ ارشدالقادری کی زندگی کا مقصد اسلام اور احیائے اسلام کی تگ و دو تھا۔اِس کام کے لیے انہوں نے اپنا دل و جان وقف کردی اور اُن راہوں کا سفر اختیار کیا جن پر قدم قدم پر مشکلات اورمصائب و آلام کے کانٹے بچھے ہوئے تھے۔یہاں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ علامہ ارشدالقادری زندگی بھر”بے یقینی کے موسموں میں ایقان کی چٹھیاں تقسیم کرتے رہے اور ادراک کی بلند فصیلوں کے اُس طرف بیٹھنے والوں کے لیے نقیب بنے رہے ۔“ یہ حقیقت ہے کہ علامہ ارشد القادری کی شخصیت ایک انفرادیت کی مالک تھی،وہ گھسے پٹے راستے پر چلنے والے مسافر نہیں تھے،وہ اپنی طبیعت کے اعتبار سے انقلابی راہرو بھی تھے اور میر کارواں بھی، انہوں نے سادگی،سلاست،بے تکلفی و بے ساختگی،گنجلک اورمغلق انداز بیان کی بجائے سادا مدعا نگاری کے محاسن اپنائے جو آپ کے مجموعہ مکاتیب " برید مشرق" میں نمایاں نظر آتے ہیں،اُن کے مکاتیب اُن کی بلند اور قدآور شخصیت کی عکاسی کرتے ہیں۔علامہ ارشد القادری کے طرز تحریر میں،انوکھے پن کے ساتھ، عالمانہ سنجیدگی اور دور اندیش مسلم رہنماء کی بصیرت موجود ہے،جسے سامنے رکھ کر ہم باآسانی علامہ کی زندگی،فکر و سوچ اور کردار و عمل کا مکمل خاکہ تیار کرسکتے ہیں۔ بعض مقامات پر علامہ ارشد القادری کا اسلوب ایک شمشیر بے نیام ہے،جس میں قوس و قزاح کے رنگوں کے ساتھ مومنانہ شان اور اللہ کی برہان جھلکتی ہے اور اُن کی ہمہ گیر انقلابی شخصیت کو ظاہر کرتی ہے،مکاتیب کا مطالعہ اِس بات کو بھی واضح کرتا ہے کہ علامہ کی ذہانت بہت تیزی سے ہر شخص یا ہر چیز کا مضحک پہلو دیکھ لیتی ہے۔ہماری نظر میں ”برید مشرق “ کا اسلوب اُردو میں مدت تک زندہ رہے گا،اور یہ مکاتیب نئی نسل کو دینی،تحریکی اور تنظیمی سمیت کئی جہتوں سے روشنی دکھاتے اورمنزل کا پتہ دیتے رہیں گے۔یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ ”برید مشرق“ میں شامل خطوط کثیر المقاصد ہیں جنھیں ڈاکٹر خوشتر نورانی صاحب نے بڑی عقیدت اور جانفشانی سے اِس طرح ترتیب دیا ہے کہ یہ اپنے عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ہوتے نظر آتے ہیں۔ "برید مشرق "علامہ ارشد القادری کے مکاتیب کا مجموعہ ہی نہیں بلکہ ان کی ملکی اور بین الاقوامی علمی ،تحریکی و تعمیری خدمات دینی ایثار ،منصوبہ سازی ، بالغ نظری، روشن خیالی ، سیاسی بصیرت اور تبلیغی جدوجہد کا ایک ایسا گوشوارہ ہے،جس کے مطالعے سے زندگی کے کینوس پر علامہ کی جو تصویر بھرتی ہے، وہ ایک ایسے درویش کی ہے ، جس نے اپنے علم و فکر، قوت و توانائی ،دل و دماغ، خلاص و وفا کی ساری پونجی مذہب و ملت کے قدموں پر اس طرح نچھاور کر دی ہے کہ اس کے زنبیل میں اپنے ، اپنے گھر اور جگر کے گوشوں کے لیے کچھ بچا ہی نہیں۔اِس پر بھی دل میں یہ حسرت باقی رہی کہ کاش دین و ملت کی مجموعی ترقی اور سرخروئی کے لیے وہ اپنے بدن سے لہو کے قطرات بھی نچوڑ دیتا۔ "برید مشرق " میں شامل خطوط کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ علامہ نے جتنے بھی خطوط لکھے وہ سماجی،ملی،سیاسی،دینی اور علمی ضرورتوں کے پیش نظر لکھے،گویا یہی ضرورتیں ان کی محرک تھیں۔علامہ کے یہ خطوط اِس لحاظ بھی تاریخی حیثیت کے حامل ہیں کہ ان کے مطالعہ سے بیسویں صدی کے نصف آخر کی ملی تاریخ کے کئی اہم گوشوں مثلاًشاہ بانو کیس،مسلم پرسنل لا،بابری مسجد ،خلیجی جنگ،جمشید پور اور بھاگل پور کے ہندو مسلم فسادات،گنبد خضرا کے انہدام کا مسئلہ اور مدرسہ ایجوکیشن بورڈ وغیرہ پرروشنی کے ساتھ جماعتی تاریخ مثلاً آل انڈیا مسلم متحدہ محاذ،ورلڈ اسلامک مشن،جماعت رضائے مصطفیٰ ،جامعہ اشرفیہ مبارک پور،ادارہ شرعیہ پٹنہ،شرعی بورڈ مباکپور،دعوت اسلامی،رضوی اشرفی نزاع،اور سعودی و خلیجی ممالک میں کنزالایمان پر پابندی وغیرہ کے اہم پہلوؤں اور سرگرمیوں سے بھی واقفیت ہوتی ہے۔ "برید مشرق" میں ترتیب وتدوین نگار نے خطوط کے ساتھ تین اہم ضمیموں اور مکتوب نگار کی بعض اہم دستاویزی تحریریں بھی شامل کی ہیں۔اور اخیر میں متن و حواشی پر مشتمل وضاحتی اشاریہ کے بعد کتابیات کی تفصیل بھی مندرج کی ہے۔جناب مولانا منظر الاسلام ازھری کے بقول ڈاکٹر خوشتر نورانی نے"برید مشرق کو اپنے تفصیلی مقدمے،علمی حواشی و تعلیقات،مکتوب نگار کی ملکی و بین الاقوامی کارناموں کی تاریخ ،تعارف مکتوب نگار،تعارف مکتوب الیہم،ضمیمہ جات اور اشاریے کے ذریعے شہکار بنادیا ہے۔" گویا "برید مشرق"علامہ ارشد القادری کے مکاتیب کا مجموعہ ہی نہیں ،ان کی ملکی اور بین الاقوامی علمی،تحریکی اور تعمیری خدمات،دینی ایثار،منصوبہ سازی،سیاسی بصیرت اور تبلیغی جدوجہد کا ایساتاریخی گوشوارہ بھی ہے۔جس کی ترتیب و تدوین کرکے ڈاکٹر خوشتر نورانی صاحب نے اہم فریضہ سر انجام دیا ہے۔انہوں نے"برید مشرق" کو ترتیب دے کر اِس کتاب کو مفید عام ہی نہیں بنایا بلکہ فن خطوط نویسی میں ایک مثبت اور اہم تاریخی دستاویزکا بھی اضافہ کیا ہے ۔چنانچہ اس کارنامے پر مولف مبارکباد کے مستحق اور ادارہ ورلڈ ویو پبلشرز لاہور تحسین کے لائق ہیں۔ نیاز فتح پوری نے لکھا تھا"مشاہیر اہل علم و قلم کے خطوط کی جمع و ترتیب کو دور حاضر میں کچھ زیادہ اہمیت نہیں دی جا رہی،حالانکہ یہ خطوط ایک سرمایہ سے کم نہیں،اہل علم و فکر،صاحب دانش کے قلم سے نکلے الفاظ، پندونصائح،حالات کے بہتے دھارے پر اُن کے تبصرے،نقد و جرح اہم نکات کی نشاندہی اور فکری رہنمائی مہیا کرتے ہیں۔"زیر نظر کتاب ”برید مشرق “ کی جمع و ترتیب اِسی سوچ کی عکاس ہے۔ محمداحمد ترازی
|