کرناٹکا حکومت کی جانب سے تشکیل شدہ نصابی ترمیمی کمیٹی
نے نصابی کتابوں کو کم و بیش بھگوارنگ سے بھر دیا ہے اور بھارت کی تاریخ کو
مسخ کرتے ہوئے سنگھ پریوار کی فکر کے مطابق اس میں اسباق کو شامل کیا گیا ،
موجودہ اسباق کو ہٹایا گیا ، تدریسی نصاب میں من گھڑت باتوں کو شامل کیا
گیااور مختلف مذاہب کے تعلق سے معلومات کو محدود کیا گیا یا پھر سیکولرزم
کی بنیادوں کو ہٹا کر ہندواتوا اور نئے ادیان کے تعلق سے اسباق کو پیش کیا
گیا ہے ۔ اس تعلق سے ریاست کے کم و بیش تمام ادباء ، دانشوران ، شعراء ،
سیاستدان اور قلمکاروں نے آواز اٹھاکر تدریسی نصاب کو سنگھ پریوار کی سوچ
کو شامل نہ کرنے کیلئے مطالبہ کیا ۔ کئی ادباء و شعراء نے احتجاج کرتے ہوئے
اپنے اسباق کو نصاب سے ہٹانے کیلئے مطالبہ کیا ۔ احتجاجات کئے ، وزیر اعلیٰ
اور وزیر تعلیم کو مکتوبات لکھے ۔ نصابی کمیٹی کے چیرمین کو ہٹانے کیلئے پر
زور احتجاج کیا اور نصاب کو نصاب رکھنے کے لئے کئی سارے اجلاس کا اہتمام
کیا ۔ ان سب سے ہٹ کر ایک طبقہ ایسا بھی ہے جس کے دانشواران ، شعراء ،
قلمکار ، ادباء اور تنظیموں نے چاں چوں تک نہیں کیا اور پورے معاملے سے
علیحدگی اختیار کرلی اور سب کچھ ہوتے دیکھ کر بھی ان دیکھے انداز میں اپنے
اپنے مشغلوں میں مصروف دکھائی دے رہے ہیں اور وہ طبقہ کوئی اور نہیں بلکہ
مسلمانوں کا ہے جس نے اورنگ زیب عالمگیر، ٹیپو سلطان ، مغلیہ حکومت کی
تاریخ ، اسلام ، پیغمبر اسلام کے تعلق سے شامل شدہ اسباق کو ہٹائے جانے اور
محدود کئے جانے کے باوجود خاموشی اختیار کی ہے ۔ آج اگر سب سے ڈرپوک ، بے
بس ، مفاد پرست، لاچار ، احمقوں کا طبقہ ہے تو وہ مسلمانوں کا ہے جن کی ناک
کے نیچے سے انکے اپنے وجود کو کھوکھلا کئے جانے کے باوجود کچھ حرکت میں
نہیں ہے جبکہ چھوٹی ذاتوں سے لیکر معمولی شناخت رکھنے والی قومیں اپنے وجود
اور پہچان کو بچانے کیلئے سرے پا جد و جہد کرتے ہوئے حکومتوں کو اپنے فیصلے
واپس لینے پر مجبور کررہے ہیں اور ایوانوں میں بحث کا باعث بنے ہوئے ہیں ۔
دوسری جانب مسلم طبقہ ہمیشہ کی طرح مشاعروں میں ایک دوسری کی واہ واہی میں
مصروف ہے ۔ گل پوشی شال پوشی کرتے ہوئے جی حضوری کرنے میں مگن ہے ، تنظیموں
ہو کر بھی نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ انجمنوں کے نمائندے صرف اور صرف جلسوں تک
محدود ہوچکے ہیں اور بعض تو عہدوں سے جاننے اور پہچاننے کیلئے اپنے آپ کو
محدو د کرچکے ہیں ۔ پرو فیسران ، محققین اور پی ہیچ ڈی ہولڈرس اس سمت میں
توجہ دینے کیلئے تیار نہیں ہیں، جو پروفیسران خدمات کے وقت معمور تھے اس
وقت انکا کہنا ہوتا تھا کہ بطور سرکاری ملازم وہ مخالفت نہیں کرسکتے ہیں
اور جب وہ وظیفہ یاب ہوچکے ہیں تو انہیں پنشن کو روکے جانے کی فکر ستارہی
ہے ۔ ان حالات میں مسلمانوں کی فلاح و بہبودی ممکن ہوتو کیسے ممکن ہے ؟۔
کون ان معاملات کو اجاگر کریگا ۔ آخر دانشوران ہیں تو کن معاملات میں وہ
دانشور ہیں ، اگر مسلمانوں کے قائد ہیں تو انکی قیادت کہاں چل رہی ہے ؟۔
اگر اب بھی مسلمان ان معاملات پر روشنی نہیں ڈالتے ، اپنے وجود کوبچانے
کیلئے کام نہیں کرتے ہیں تو یقین جانئے کہ آنے والے دنوں میں مسلمانوں کا
کوئی ساتھی نہیں ہوگا اور جس طرح سے آج اذان ، حجاب پر پابندی لگانے کے
باوجود خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں کل کے دن نصاب سے پوری طرح سے مسلمانوں
کی پہچان کو مٹائے جانے کے باوجود بھی زبان نہیں کھولیں گے ۔ ابھی تو
شروعات ہوئی ہے کل اس کا نتیجہ بھی آئیگا اور آنے والی نسلوں کو کیا جواب
دینگے یہ بھی سوچنا پڑیگا ۔ اگر ابھی سے ان معاملات پر لائحہ عمل تیار کرتے
ہوئے منظم طریقے سے کام نہیں کیا جائیگا تو آنے والی نسلیں ہم پر تھوکیں
گی ، کوسیں گی اور ہماری اس بزدلی و لاپرواہی پر ہمیں برے القاب سے یاد
کریگی ، تب شاید بہت دیر ہوچکی ہوگی ۔ اب اس مضمون کو پڑھ کر یہ نہ پوچھیں
کہ آپ کیا کررہے ہیں ۔ ہمارا کام اس جانب توجہ دلوانا ہے وہی ہم کررہے ہیں
۔
|