آج کل ہمارے معاشرے میں عدم برداشت کا بیج بڑی ہی
تیزی کے ساتھ پروان چڑھ رہا ہے ۔ بزرگ فرماتے ہیں کہ اصلی اور نقلی ہیروں
میں صرف برداشت اور سہہ جانے کا فرق ھے ۔ میں نے پوچھا بابا انسان آخر کب
تک برداشت کرے ؟ کب تک لوگوں کے طعنے سہے؟ کب تک اپنے غصے کو پئے؟ آخر
برداشت کی کوئی حد ھوتی ھے ۔ بابا مسکرایا اور بولا بیٹا اس وقت تک سہنا ھے
۔ جب تک ھیرا نہ بن جا ۔ میں نے پوچھا پھر اس کے بعد؟ بابا نے کہا ، ھیرا
بننے کے بعد ھیرے پر کوئی دبا ، کوئی آگ اور کوئی تپش اثر نہیں کرتی "۔
یہاں سے انسانیت کی معراج کا سفر شروع ہوتا ہے ۔ ہم آج شکوہ کرتے نظر آتے
ہیں کہ ہمارے بچے ہمارا کہنا نہیں مانتے ۔ بدتمیزی کرتے ہیں ۔ زبان چلاتے
ہیں ۔ آپس میں پیار محبت نہیں۔ بڑوں کی عزت نہیں کرتے ۔ کھانے میں نخرے
کرتے ہیں ۔ ہمارے زمانے میں ماں ایک چیز پکاتی تھی تو چھ بچے چپ کرکے رب کا
شکر کرکے کھاتے تھے ۔ آج ماں چھ چیزیں پکا کر ایک بچے کے پیچھے بھاگتی
پھرتی ہے ۔ ایسا کیوں ہے ؟ کبھی آپ نے سوچا ؟ آج کے بچے اتنی جلدی بور کیوں
ہو جاتے ہیں ؟ ہم نے تو کبھی نہیں کہا تھا کہ ہم بور ہو رہے ہیں ؟ کیا ہم
تمیز دار بچے تھے یا ہمارے والدین کی تربیت اچھی تھی؟سوچیں کیا ہمارے
والدین ہمارے پیدا ہوتے ہی ہمارے ہاتھوں میں موبائل فون پکڑا دیا کرتے تھے
؟ یا وہ بھی ہر وقت موبائل ہاتھوں میں تھامے موبائل زومبی بنے رہتے تھے؟
کیا وہ ٹی وی کو ہماری بیبی سٹنگ کے لیے استعمال کرتے تھے؟ کیا وہ ہمیں ٹی
وی کے آگے بیٹھ کر کھانا کھلاتے تھے؟ ذرا کل سے بچوں کا سکرین ٹائم تو نوٹ
کریں؟ ٹی وی ، لیپ ٹاپ، موبائل، گیمز سب اس میں شامل ہے. آج کے بچیکم از کم
اوسطا سارا دن سکرین ٹائم استعمال کرتے ہیں۔ کیا اس سے آدھا وقت بھی ہم نے
بچوں کی اسلامی تربیت پر بھی لگایا ہے؟کیا ہم ماں باپ, تربیت کی ذمہ داری
ایک دوسرے پر یا سکول پر ڈال کر خود فیس بک ، ٹک ٹاک اور واٹس ایپ میں
مصروف رہتے ہیں؟ اگر ہاں تو پھر تو ہمیں شکوہ کناں نہیں ہونا چاہئے ۔ سارا
قصور تو ہمارا اپنا ہے۔ ہمارے بچے بدتمیز ہو رہے ہیں ۔ اس لئے کہوہ یہ سب
غصہ، بدتمیزی، ہائپر ایکٹیویٹی، بد زبانی ہم سے اور گیمز، ٹی وی اور
کارٹونز سے حاصل کرتے ہیں جو چوبیس گھنٹے ہم انہیں خود مہیا کرتے ہیں ۔
انکی نظر کے مسائل ، دماغی مسائل ، جسمانی اور معاشرتی مسائل ، ان سب کا
ذمہ دار ہمیں کس کو ٹہرانا چاہیے؟ ان بچوں کی کری ایکٹویٹی کیوں ختم ہوتی
جا رہی ہے؟ انھیں اعلی کرداری ، ادب و آداب ، اچھے اخلاق سے دور دور کا
واسطہ نہیں ۔ کیوں؟کیا ہم نے کبھی اپنے بچوں کو کبھی اعلی کردار لوگوں کی
کہانیاں سنائی ہیں ؟ کبھی بتایا کہ ہمارے مسلم ہیرو کون تھے ؟/ ہمیں کس کو
اپنا آئیڈیل بنانا اور کاپی کرنا چاہئے ؟ ہماری ننھی فاطمہ مٹک مٹک کر
بدتمیزی سے بات کرے اور ٹر ٹر جواب دے، انڈین اداکاروں کو کاپی کرئے۔ تو ہم
خوشی سے نہال ہو کر اس کا یو ٹیوب چینل بنا دیتے ہیں۔ ہمارا کیوٹ سا احمد
اوے اوے کرکے چلائے اور غصہ کرئے تو ہم اس کو ٹی وی پر لا کر بٹھا دیتے ہیں
اور شہ دے دے کر مزید بد تمیزی پر اکساتے ہیں۔یہ تو ہمارا معاشرتی معیار ہے
۔ یہ ہمارے بچے جو سکرین پر سارا دن دیکھیں گے وہی کریں گے نا۔ ہمارے بچے
یوٹیوب زومبی کیوں بنتے جا رہے ہیں؟ کیا ہم نے کبھی رات بچوں کو سلاتیاپنے
نبی پاک کی زندگی کے واقعات سنائے ہیں؟ کیا ہم نے کبھی بتایا کہ قرآن کی
فلاں آیت کیوں اور کیسے نازل ہوئی؟ اس کے پیچھے کیا کہانی تھی؟ کبھی نبیوں
کے قصے بتائے؟ کبھی بتایا کہ حضرت ایوب نے کن حالات میں ہمت سیصبر کیا تھا؟
حضرت یوسف نے کیسے فراست اور یقین سے رب کا ہاتھ تھامے رکھا؟ حضرت ابراھیم
کیوں رب کے فیورٹ فرینڈ تھے اور کیوں اتنی قربانیاں دے کر بھی کبھی کوئی
شکوہ نہ کیا ؟ حضرت یونس کیسے مچھلی کے پیٹ سے نکلے تھے؟ قوم لوط کس جرم کی
پاداش میں اتنے عظیم عذاب کی حقدار ٹہری؟ حضرت نوح کی 900 سالہ ثابت قدمی
کا کیا نتیجہ نکلا تھا؟ حضرت آسیہ کتنے پکے ایمان والی تھیں اور اسکا انھیں
کیا صلہ ملا ؟ اﷲ حضرت مریم کی پاکیزگی کی کیوں مثالیں دیتا ہے ؟ دنیا جہان
کی کتابیں تو ہمارے بچوں کے بک شیلف میں سجی ہیں مگر کس کس کیبچوں نے پوری
قصص الانبیا پڑھی ہوئی ہے؟ ہم بچوں کے نام تو شوق سے فاطمہ، ابراھیم، موسی،
بلال، مریم ، خدیجہ اور اسماعیل رکھ دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہمارا فرض
پورا ہو گیا اب ہمارے بچے خود بخود نیک بن جائیں گے کیسے ؟ یہ بچے ہمارے
لیے کیسے صدقہ جاریہ بنیں گے ،کبھی قاری کے حوالے کرنے کے بجائے ہم نے خود
ان کو قرآن پڑھانے کی کوشش کی ہے؟ قرآن کا ترجمہ پڑھایا ہے؟ بتایا ہے کہ اﷲ
اپنی کتاب میں کہتا کیا ہے ۔ ہمارے بچوں میں کردار کی وہ اعلی خوبیاں کیسے
پیدا ہوں جو ہمارے جلیل القدر صحابہ ، اولیا اور انبیا میں تھیں؟ ابو بکر
صدیق رضی اﷲ عنہ کی نرم دلی، سخاوت، وفا شعاری اور وفاداری ، عمر فاروق رضی
اﷲ عنہ کی اعلی کرداری اور عدل وانصاف ، عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کا شرم و حیا
، ایثاراور غنا ۔ حضرت علی رضی اﷲ عنہ کی جرات ، رشد اور فراست ۔ سیف اﷲ
حضرت خالد بن ولید رضی اﷲ عنہ جیسے جری اور زیرک جرنیل کی دلیری ۔حضرت
خدیجہ کی وفاداری اور خدمت گزاری ۔ حضرت بلال حبشی کی قربانیاں اور ثابت
قدمی ۔ بی بی فاطمہ رضی اﷲ عنہما کا اپنے والد کے لئے پیار اور ادب و
احترام ۔ محمد بن قاسم اور صلاح الدین ایوبی رحمتہ اﷲ علیہ کی جرات مندی
اور بہادری ۔ حضرت انس اور حضرت عائشہ کی علم سے محبت ۔ کتنے ہی ان گنت نام
اور ہیں ۔یہی وہ مسلم ہیروز ہیں جن کی سچی داستانیں کردار و اخلاق کی
بلندیوں پر لے کر جاتی ہیں نہ کہ نیٹ فلیکس ،یوٹیوب اور سوشل میڈیا پر
گزارا وقت اور آوارہ گردیاں۔اس سے پہلے کہ سوشل میڈیا اور موبائل فون کا یہ
فتنہ ہماری نسلوں کو لے ڈوبے ابھی بھی وقت ہے ۔ اس سے مکمل نجات تو شاید اب
ممکن نہیں مگراس سوشل میڈیا کا مثبت استعمال خود بھی کریں اور بچوں سے بھی
کروائیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ شکوہ کرنے سے پہلے خود ہمیں اپنا محاسبہ
کرنا چاہیے کہ ہم نے اپنے بچوں کو اﷲ تعالے' اور نبی پاک صلی اﷲ علیہ وسلم
سے قرآن کریم اور سنت سے پیار سکھانے میں کتنی محنت کی ہے؟ ہم اپنے بچوں کو
روز کتنا کوالٹی ٹائم دیتے ہیں؟ بچوں میں احساس ذمہ داری پیدا کرنے کے لیے
کیا کرتے ہیں؟ اور انہیں اخلاق ومحبت کے کتنے درس پڑھاتے ہیں؟ کچھ دیر کو
اکیلے بیٹھئے اور سوچیے اور پھر اپنے پارٹنر سے ڈسکس کر کے پلان کیجیے ۔
مگر بچوں کو بدلنے سے پہلے پہلے خود کو بدلیے، کہ ہم بدلے تو بچوں کو بدل
پائیں گے۔ اچھے بچوں کے لیے اچھے ماں باپ بننا ضروری ہے ۔ میڈیا کے اس خو
فناک جن کو اپنے بچوں کو اغوا نہ کرنے دیں۔ ان کو قدرتی مناظر انجوائے کرنے
دیں ۔ درختوں پر چڑھنے دیں۔ ٹیچر ٹیچر اور گھر گھر کھیلنے دیں۔ بچیوں کو
اپنے ساتھ گھر داری سکھائیں اور بیٹوں کو گھر کی دیگر ذمہ داریاں تھمائیں۔
کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ رب نے تو ہمیں الحمدﷲ صحیح سلامت اولاد دی تھی ۔
مگر ہم انھیں معذور کرتے جا رہے ہیں۔ ہاتھوں میں موبائل ، نظریں ٹی وی پر
اور دماغ گیم میں۔ ان میں سوچنے سمجھنے کے پرابلم سالونگ اور اٹھ کر جسمانی
کام کرنے کی صلاحیتیں ہی مفقود ہوتی جا رہی ہیں ۔ کوئی کام کہہ دو تو سو
بہانے، یا اتنی بلند آواز کرنی پڑے گی کہ بندہ کہے خود اٹھ کر کام کر لیں۔
آئیں گے تو دو منٹ ساتھ کھڑے ہو کر احسان کر کے چلے جائیں گے۔ انھیں ماں
باپ کی قدر اور عزت کون سکھائے گا اور کیسے سکھائے گا ؟ کوئی باہر سے آکر
تو یہ کام کرنے سے رہا ۔ تربیت کا یہ کام کرنا تو ہم کو خود ہی ہے ۔میں
کہتا ہوں اگر اولاد کو سونے کا محل بھی بنا دیا تو دنیا جہان کی ڈگریاں
ہاتھ میں تھما دیں اور تربیت نہ کی تو کوئی فائدہ نہیں ایسی محنت کا ۔ کاغذ
قلم پکڑیں اور آج ہی پلان کریں۔ آج کا دن پھر نہیں آئے گا۔ ابھی تربیت کرنی
ہے اور یہ بچے ہی آپکا سب سے بہترین سرمایہ ہیں۔ یہی اولاد ہے جو انسان کے
لیے فتنہ بھی بنتی ہے اور صدقہ جاریہ بھی ۔ اب آپ انھیں اپنے لیے کیا بنانا
چاہتے ہیں ؟ یہ آپ پر منحصر ہے۔۔۔آپ کی تربیت پر منحصر ہے ۔ قیامت اور جہنم
کے ٹاپکس پر بچے کی عمر کی مناسبت سے ہی بات کریں، حکمت کے ساتھ ۔ بچے کو
دو سال کی عمر سے ہی دائیں بائیں کے فرشتوں سے متعارف کروائیے اور یہ کہ
فرشتے ہماری سب باتوں کا ریکارڈ رکھ رہے ہیں اور وہی قیامت کے دن اﷲ کے
سامنے پیش کیا جائے گا۔ ذرا بڑے ہوں تو رائی کا دانہ دکھا کر بتائیں کہ
اتنا چھوٹا سا بھی اچھا کام کریں گے تو وہ بھی ریکارڈ ہو جائے گا۔ سات آٹھ
سال کے بچوں کو ویڈیو ریکارڈنگ کے حوالے سے بھی سمجھا سکتے ہیں۔ یو ٹیوب پر
کوئی ویڈیو ہے۔ کوئی لائک کرتا ہے، کوئی ڈِس لائک۔ یونہی ہماری زندگی کی ہر
وقت ریکارڈنگ ہو رہی ہے اور ہمیں اپنی ہر چھوٹی چھوٹی ویڈیو پر اﷲ کا لائک
چاہیے ۔ اﷲ جھوٹ بولنے والے سے ناراض ہونگے کہنے کے بجائے کہیں کہ سچ بولیں
تو اﷲ تعالی خوش ہو کے آپکو زیادہ پوائنٹس دیں گے۔ زیادہ پوائنٹس کا مطلب
جنت کے نیکسٹ لیول پر جانے کے لیے انسان کوالیفائے کر سکتا ہے ۔ جہنم کا
ذکر کہیں اور بچے کے کان میں نہ پڑے بلکہ خود والدین ہی بتائیں جب بچہ ہضم
کر سکے۔ اور نرم الفاظ میں۔ کب بتانا ہے، کیا بتانا ہے اور کتنا بتانا ہے،
یہ بچے کی عمر کے حساب سے والدین خود فیصلہ کریں۔ آپ انہیں سمجھا سکتے ہیں
کہ جہنم ایک بہت بڑا garbage can ہو گا۔ اچھے لوگ جنت میں جائیں گے اور جو
اچھے نہیں ہونگے اور جنت کے لیے کوالیفائے نہ کر پائیں گے ۔ انہیں جہنم میں
پھینکا جائے گا. پھر وہاں کی بدبو، stinky food وغیرہ سبھی کو گاربج کین کے
ساتھ ریلیٹ کیا جائے۔ میرا نظریہ اس بارے میں یہ ہے کہ محبت دل میں آ جائے
تو خوف وقت کے ساتھ خود ہی آنے لگے گا. اگر خوف ڈالنے کی کوشش کی تو محبت
پیدا کرنے میں دشواری ہو گی۔ یہاں توازن برقرار رہے۔ بچے بے خوف بھی نہیں
ہونے چاہییں۔ احتساب کا احساس رہنا چاہیے لیکن انہیں بار بار اﷲ کا نام
لیکر ڈرانا مناسب نہیں۔ توبہ کے بارے میں بتائیں، یہ بھی بتائیں کہ اﷲ کی
رحمت اسکے غضب پر بھاری ہے۔ بچے کو کہیں کہ غلطی ہو گئی؟ سبھی سے ہو جاتی
ہے۔ توبہ کر کے آگے بڑھیں ۔بشکریہ
|