استثناء کا قانون

 آئینِ پاکستان میں صوابدیدی اختیارات کا ایک جہاں آباد ہے ۔۱۹۷۳؁ کے آئین کے خالق ذولفقار علی بھٹو نے کافی غورو عوض اور مشاورت کے بعد اس شق سے آئین کو طاقت عطا کی تھی۔ریاستی امور کی انجام دہی کیلئے صوابدیدی اختیارات کا ہونا انتہائی ضروری ہو تا ہے ۔یہ انتہائی پچیدہ راہ سے نکل جانے کا ایک طریق ہوتا ہے۔جہاں کچھ بھی کام نہیں کرتا وہاں صوابدیدی اختیارات اپنا جادو دکھاتے ہیں ۔ کمال یہ ہے کہ صوابدیدی اختیارات کی مجاز اتھارٹی اس بات کا پابند نہیں ہوتی کہ کہ وہ اپنے صوابدیدی اختیارات کو پارلیمنٹ یا کابینہ کے سامنے منظوری کیلئے پیش کرے ۔ عوام الناس کو اس سے آگاہ کرنا بھی ضروری نہیں ہوتا ۔یہ مجاز اتھارٹی کا استحقاق ہوتا ہے اور کوئی اس میں مداخلت نہیں کر سکتا ۔ حتی کہ عدالت کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ وہ مجاز اتھارٹی سے صوابدیدی اختیارات کے بارے میں استفسار کرے۔ یہ معاملہ چونکہ مجاز اتھارٹی کی ذات سے متعلق ہوتا ہے لہذا کوئی یہ پوچھنے کی جسارت نہیں سکتا کہ صوابدیدی فنڈز کہاں استعمال ہو ئے ہیں اور کیوں استعمال ہو ئے ہیں؟ اگر مجاز اتھارٹی صوابدیدی اختیارات کی تفاصیل بیان کرے گی تو وہ قانون شکنی کی مرتکب ہو گی کیونکہ آئین مجاز اتھارٹی کو راز داری رکھنے کا پابند کرتا ہے اور اس باب میں اسے مکمل تحفظ حاصل کرتا ہے۔ایک دفعہ محترمہ بے نظیر بھٹو سے صوابدیدی فنڈز کے استعمال پر سوالات اٹھائے گے تھے لیکن بی بی شہید نے کسی بھی قسم کی تفاصیل دینے سے انکار کر دیا تھا ۔ان کا استدلال تھا کہ جسے آئین ِ پاکستان خفیہ رکھنے کا حکم صادر کررہا ہے اسے میں افشاء کیسے کر سکتی ہوں ؟صوابدید کے معنی ہی یہی ہیں کہ مجاز اتھارٹی کسی سے مشورہ کئے بغیر اپنی دانست میں جو مناسب سمجھتی ہے ہنگامی بنیادوں پر اس پر اپنا فیصلہ صادر کر ے ۔ صوابدیدی اختیارات ایمرجنسی اور ہنگامی بنیادوں پر استعمال کئے جاتے ہیں تا کہ ان اختیارات کے بر وقت استعمال سے قوم کو احسن طریقے سے غیر مرئی مشکلات سے صحیح و سالم نکال کر شاہراہِ ترقی پر رواں دو اں کیا جا سکے ۔،۔

ایک تو صوابدیدی اختیارات کا معاملہ ہے جبکہ دوسرا معاملہ استثنا ء کا ہے۔صدرِ پاکستان کو آئینِ پاکستان میں استثناء حاصل ہے۔یہ کسی کی ذات سے متعلق نہیں ہے بلکہ ہر وہ فرد جو صدارت کی کرسی پر متمکن ہو گا استثناء کا حقدار ہو گا۔حق شخص کا نہیں بلکہ عہدہِ صدارت کا ہو تا ہے ۔استثناء یہ ہے کہ اپنی مدتِ صدارت کے دوران صدرِ پاکستان پر نہ تو کوئی نیامقدمہ دائر کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی ان پر کسی پرانے مقدمہ کی کاروائی کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے ۔ ۲۰۱۲؁ میں وزیرِ اعظم سید یوسف رضا گیلانی کو صدر ِ پاکستان آصف علی زرداری کے خلاف سوئیس عدا لتو ں کو خط نہ لکھنے کی پاداش میں توہینِ عدالت کا سامنا کرنا پڑا تھا اور وزارتِ عظمی سے ہاتھ دھونے پڑے تھے ۔ چوہدری اعتزاز احسن کے دلائل کئی ہفتے جاری رہے تھے اور ان دلائل کا لبِ لباب یہی تھا کہ آئینِ پاکستان صدرِ مملکت کو استثناء مہیا کرتا ہے لہذا عدالت وزیرِ اعظم کو سوئیس عدالتوں کو خط لکھنے پر مجبور نہیں کرسکتی ۔ وزیرِ اعظم کا بھی استدلال یہی تھا کہ صدرِ پاکستان کو آئین میں استثنا ء حاصل ہے لہذا وہ سوئیس عدالتوں کو خط نہیں لکھ سکتے ۔ایسا کرنا آئین شکنی کے مترادف ہو گا اور وہ ایسا کرنے کا سوچ نہیں سکتے ۔ وزارتِ عظمی کی قربانی تو دی جا سکتی ہے لیکن آئینِ پاکستان سے رو گردانی نہیں کی جا سکتی ۔خط نہ لکھ کر سید یوسف رضا گیلانی نے آئینِ پاکستان سے اپنی وابستگی کا شاندار مظاہرہ کیا تھا۔اس زمانے میں افتخار محمد چوہدری پی پی پی کی کوششوں سے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے عہدہ پر بحال ہو ئے تھے ۔آصف علی زرداری افتحار محمد چوہدری کی بحالی کے سخت خلاف تھے لیکن سید یوسف رضا گیلانی ان کی بحالی کیلئے بڑے پر جوش تھے لہذا آصف علی زرداری کو بحالت ِ مجبوری اپنے وزیرِ اعظم سے متفق ہونا پڑا تھا ۔جو کچھ آصف علی زرداری کی نگاہ ِ دور رس دیکھ رہی تھی سید یوسف رضا گیلانی اسے دیکھنے سے قاصر تھے۔وزیرِ اعظم تو اپنی جمہوریت پسندی اور آئین و قانون سے اپنا قد کاٹھ بڑھانا چاہتے تھے ۔انھیں یہ گمان تک بھی نہیں تھا کہ وہ جسے بحال کررہے ہیں وہی ان کیلئے زہر کا پیالہ تجویز کریگا جو انھیں پینا پڑیگا ۔ افتخار محمد چوہدری جوڈیشل ایکٹو ازم کے حامی تھے لہذا انھوں نے چوہدری اعتزاز احسن کے استدلال کو مستردکر کے سید یوسف رضا گیلانی کو ان کے عہدے سے نا اہل قرار دے دیاتھا۔،۔

نا اہلی کا فیصلہ اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ میں کیا گیا تھا لہذا ماہرینِ قانون نے اس فیصلہ کو اسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی قرار دے کر رد کر دیا تھا۔سید یوسف رضا گیلانی وزارتِ عظمی سے ہاتھ تو دھو بیٹھے لیکن اس فیصلہ سے افتخار محمد چوہدری کوشدیدتنقید کا نشانہ بننا پڑا۔اس فیصلہ سے ان کی ذات متنازع ہو گئی جس سے ان کی تاریخی جدو جہجہد اور شہرت کو شیدید زک پہنچی۔بلندی سے پستی مقدر بننی ہو تو ایسا ہی ہوا کرتا ے۔دباؤ جبر اور پشت پناہی میں دئے گے فیصلوں کا یہی انجام ہو تا ہے۔اس فیصلہ نے آئین و قانون کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی تھیں ۔یہ فیصلہ آئینِ پاکستان سے متصادم تھالیکن اسے نافذ کیا گیا۔،۔حیران کن امر یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے اس یک طرفہ فیصلہ کے باوجود صدرِ پاکستان کو آئینِ پاکستان میں جو استثناء حا صل ہے وہ آج بھی قائم و دائم ہے ۔ موجودہ صدر بھی اس استثناء سے فیض یاب ہو رہے ہیں۔استثناء کا یہ معاملہ صرف ہمارے ساتھ ہی مخصوص نہیں ہے بلکہ دنیا بھر کے اہم ممالک کے د ساتیر میں بھی ایسے ہی صوابدیدی اور استثنائی اختیارات مو جود ہیں تا کہ کسی کٹھن صورتِ حال میں مجاز اتھارٹی غیر معمولی صورتِ حال میں اپنے اختیارات کا بر محل استعمال کر کے قوم کو مشکلات سے نکال سکے۔امریکہ ،فرانس، روس، ترکی،بھارت،مصر، ایران،شام اور دوسرے کئی ممالک میں صدرِ مملکت کو استثناء حاصل ہوتا ہے۔بہت سے ممالک میں شہنشاہی کا دور دورہ ہے لہذا وہاں پر شہنشاہ اور ملکہ کو یہی استثنائی تحفظ حاصل ہو تا ہے۔سچ تو یہ ہے کہ وہ نظامِ ریاست جسے انسان باہمی مشاورت سے چلاتے ہیں اس میں استثنائی قانون کو نا گزیر سمجھا گیا ہے جسکی جھلک ہمارے روزمرہ کے معمولات میں بھی صاف دکھائی دیتی ہے تو پھر وہ کائنات جس کا ہم سب حصہ ہیں کیا وہاں پر بھی ایساکوئی قانون موجود ہے؟کیا اس کائناتی نظام میں ایسی گنجائش رکھی گئی ہے کہ مالک ارض و سماء جب چاہے استثنائی پہلو کو اجاگر کر کے اہلِ جہاں کو اپنی بے پناہ قوتوں سے مبہوت کرتا رہے؟ دعائیں ، مناجات ،شکوے ، التجائیں،عرضداشتیں،شکائتیں اگر اپنا وجود رکھتی ہیں تو پھر استثناء کا ظہور تو ہو گا۔شب بیداری،سوزو گدازر سجدہ رییزی،ایثار،صلہ رحمی ،احسان اور ،قربانی کا اگر واقعی کوئی حقیقی وجود ہے تو پھر اس کا صلہ دیا جانا بھی ضروری ہوتا ہے ۔عطاؤں کا مشاہدہ تو ہم صبح شام کرتے ہیں،انہونیاں روز وقوع پذیر ہو تی ہیں اور ناممکنات ممکنات میں بدلتی رہتی ہیں لیکن کائناتی نظام میں کوئی خلل یدا نہیں ہوتا ۔والضالین کے انجام سے بچنے کی دعائیں تو ہم ہر نماز میں دہراتے رہتے ہیں اب اگر ہماری دعاؤں نے اپنا جلوہ نہیں دکھانا تو پھر انھیں دہرانے سے کیا حاصل؟دعاؤں کی قبولیت اپناا وجود رکھتی ہے اسی لئے کائناتی قوانین کی اتھل پتھل کے بغیر سائلین کو عطا کر دیا جاتا ہے۔،کائناتی قوانین اپنی جگہ اٹل، ضابطے اپنی جگہ مضبوط،قوانین اپنی جگہ جاری و ساری لیکن اس کے باوجود بھی اگر ساجدین کی جھولیاں دلی مرادوں سے بھردی جاتی ہین تو پھر مجھے بتایا جائے کہ اہلِ جہاں اس عنائت ِ ربانی کو کیا نام دیں گے ؟؟؟

Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 629 Articles with 515356 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.