نوپور شرما کے خلاف مغربی بنگال اسمبلی میں ایک مذمتی قرارداد منظور کی گئی
۔اس قرارداد پیش کرتے ہوئے ترنمول کانگریس کے ارکان نے بھارتیہ جنتا پارٹی
پر سیاسی فائدہ اٹھانے کی غرض سے فرقہ وارانہ تشدد کو بھڑکاکر ملک میں نفرت
کی سیاست کر نے کا الزام لگایا نیز نوپور شرما کو ہنوز گرفتار نہیں کیے
جانے پر افسوس کا اظہار کیا ۔ تاہم حزب اختلاف کے جماعت بی جے پی کے ارکان
نے اسمبلی میں قرارداد کی مخالفت کرتے ہوئے احتجاجا واک آئوٹ کیا۔ نوپور
شرما کی گرفتاری کے لیے کئی سمتوں سے دباو بڑھ رہا ہے۔ کبھی ممبئی کی پولیس
دہلی پہنچ جاتی ہے تو کبھی مغربی بنگال میں اس کی تیاری شروع ہوجاتی ہے۔
بلڈوزر کے تمام خوف و ہراس کے باوجود بریلی میں مولانا توقیر رضا احتجاجی
جلسہ کا اعلان کرتے ہیں تو لاکھوں لوگ جمع ہوجاتے ہیں۔ حکومت نوپور کے ساتھ
مزید 31؍ لوگوں پر ایف آئی آر درج کرکے جو چال چلی وہ ناکام رہی کیونکہ
ان سب کی گرفتاری سے بدنامی کے ساتھ ہنگامہ کا بھی خدشہ تھا اس لیے نئی
گرفتاریوں کا کھیل شروع ہوگیا ۔
اس نئے کھیل میں معروف سماجی جہد کا تیستا ستلواد کے ساتھ سابق آئی جی سری
کمار اور انسپکٹر سنجیو بھٹ کے نام شامل کیے گئے۔ اس کے لیے سپریم کورٹ کے
ایک فیصلے کا بہانہ بنایا گیا جو جنوری سے اب تک معلق تھا ۔ اس متنازع
فیصلے کے مواد اور زبان دونوں نے ماہرین قانون کو حیرت زدہ کردیا ۔ اس لب و
لہجے سے ایسا محسوس ہوتا ہے گویا یہ ایس آئی ٹی کی رپورٹ ہے۔ تیستا ستلواد
کی گرفتاری کےلیے مبینہ طور پر ان کے پڑوس میں واقع نارائن رانے کی کوٹھی
سے دیوار پھاند کر انسدادِ دہشت گردی شعبے کے افسران گھر میں گھسے تھے۔
انہیں دہشت گردوں کی گرفتاری کے لیے یہی تربیت دی گئی تھی لیکن تیستا کوئی
دہشت گرد تھوڑی نا تھی؟ بی جے پی والے اگر ان سے دہشت زدہ ہیں تویہ تیستا
ستلواد کا نہیں بلکہ ان کا مسئلہ ہے ۔ بی جے پی کے ذریعہ نوپور شرما کی
معطلی پر برہم نام نہاد دیش بھگت ان تینوں کی گرفتاری سے مطمئن نہیں ہوئے
کیونکہ یہ سارے ہندو تھے ۔ اس لیے جب بات نہیں بنی تو اپنے رائے دہندگان کو
خوش کرنے کی خاطر محمد زبیر پر ہاتھ ڈالنا پڑا ۔ بات دراصل یہ ہے کہ گیروا
ٹولے کی زبان کو مسلمان کا خون لگ گیا ہےجس کے بغیر اسے اطمینان نہیں ہوتا
۔
موجودہ حکومت کی نظر میں محمدزبیر کا اصل قصور تو وہی ہے جس کی جانب ششی
تھرور نے اشارہ کیا کہ ’انڈیا کی نئی فیکٹ چیکنگ سروسز خاص طور پر آلٹ نیوز
ایک ایسے ماحول میں جو فیک خبروں اور غلط معلومات سے بھرا ہے، اس جھوٹ کو
غلط ثابت کرتے ہیں، چاہے وہ غلط معلومات کسی نے بھی پھیلائی ہیں۔ محمد زبیر
کی گرفتاری سچ پر حملہ ہے۔ ان کو فورا رہا کیا جانا چاہیے۔‘ بی جے پی کا
میڈیا سیل بڑی محنت سے جو جھوٹ گھڑتا ہے اس کو آلٹ میڈیا بے نقاب کردیتا
ہے اس لیے ان کی ساری محنت پر پانی پھر جاتا ہے لیکن فی الحال نوپور شرما
کی وجہ سے محمد زبیر نشانے پر ہیں اور انہیں مختلف بھونڈے انداز میں پریشان
کیا جارہا ہے۔ اس ماہ کے ابتدا میں ایک غیر معروف تنظیم راشٹریہ ہندو شیر
سینا نےمحمد زبیر پر27 مئی 2022 کو کیے گئے ایک ٹویٹ کو بنیاد بناکر شکایت
کی جس میں لکھا تھا کہ ’ہمیں یتی نرسنگھانند سرسوتی یا مہنت بجرنگ منی یا
آنند سوروپ جیسے نفرت پھیلانے والوں کی کیا ضرورت ہے جو کہ کسی طبقہ یا
مذہب کے خلاف بولنے کے لیے دھرم سنسد کا اہتمام کریں جب ہمارے پاس پہلے ہی
ایسے اینکر موجود ہیں جو نیوز سٹوڈیو سے بہت بہتر کام کر سکتے ہیں۔‘ اس
نہایت مہذب و معقول بیان کوہندو جذبات کو مشتعل کرنے کا مقدمہ درج کرواکر
محمد زبیر پر ہندو مذہبی رہنماؤں کو ’نفرت پھیلانے والا‘ کہنے کا الزام
لگایا گیا ۔
اس سے بات نہیں بنی تومحمد زبیر کو دہلی سپیشل سیل نے 2020 کے ایک مقدمہ
میں تفتیش کے لیے طلب کیا ۔ اتفاق سے اس میں زبیر نے ہائی کورٹ سے ضمانت
قبل از گرفتاری لے رکھی تھی۔ اس لیے وہ حربہ بھی ناکام رہا ۔ اس کے بعد
2018 کے کسی ٹویٹ کا حوالہ دے کر گرفتاری کی گئی حالانکہ اس کے لیے قانون
کی رو سے نوٹس دینا ضروری تھا جو نہیں دیا گیا بلکہ ایف آئی آر کی کاپی بھی
فراہم نہیں کی گئی ۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مرکزی وزیر داخلہ
امیت شاہ کی نگرانی میں کام کرنے والی دہلی پولیس یہ احمقانہ دھاندلی کیوں
کررہی ہے؟ اس کو سمجھنے کے لیے نوپور شرما کی معطلی پر آ گ بگولہ ہندو
انتہا پسندوں کے اپنی ہی پارٹی پر کیے جانے والے تبصروں کو دیکھنا ہوگا ۔
پروفیسر آنند رنگناتھن نے نوپور شرما کے ہٹائے جانے کو بی جے پی کی
بزدلانہ حرکت بتایا تھا ۔ ان کے مطابق پارٹی نے نوپور کو بھیڑیوں کے حوالے
کردیا گیا ہے۔ اس سنگین الزام کے بعد وہ نوپور کو حوصلہ افزائی کرتے ہوئے
کہتے ہیں کہ اس ملک کی طاقت کسی پارٹی کے نہیں اپنے لوگوں کے ہاتھ میں ہے۔
آنند کے بقول وہ نوپور کے ساتھ ہمیشہ ہر قدم ، ہر سانس تک کھڑے ہیں لیکن
اس کا کیا فائدہ؟ پارٹی اور حکومت نے ساتھ چھوڑ دیا تو آنند جیسے لوگوں کا
ساتھ رہنا بے معنیٰ ہے۔
انشول اگروال نامی صارف نے بی جے پی کو آئینہ دکھاتے ہوئے لکھا کہ اس نے
ایوانِ پارلیمان میں ہندو دیوتاوں کو شراب سے جوڑنے والے نریش اگروال کو
اپنی پارٹی میں شامل کیا اور ایسے وقت میں نوپور اور نوین کو نکال باہر کیا
جب انہیں خاندان سمیت جان سے مارنے کی دھمکی مل رہی تھی۔ نیز جموں کشمیر
میں چن کر ہونے والے ہندووں کے قتل پر چپیّ سادھ لی۔ ماسٹر اسٹروک ۔ راجیو
گپتا نے اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئےلکھا کہ ،’جب اسلام پسندوں کے ذریعہ
ہندو دیوتاوں کی بے عزتی کی جاتی ہے تو بی جے پی کوئی کارروائی نہیں کرتی
جبکہ اپنے کارکنا ن اور حامیوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیتی ہے۔ بھلے ہی وہ
اسلام پسندوں کے بارے میں سچ ہی کیوں نہ بولیں۔ اس طرح کی حماقت کو کچھ لوگ
بزعم خود بی جے پی کا ماسٹر اسٹروک قرار دیتے ہیں ۔ یتی شرما نے تو یہاں تک
کہہ دیا کہ نوپور شرما کو برخواست کرکے اگر بی جے پی سیکولر بننے کی کوشش
کرے گی تو یہ اس کے زوال کی ابتدا ہوگی۔ راجیش ورما نے اور آگے بڑھ کر
لکھا کہ بی جے پی کو برداشت کرنا اب مشکل ہوگیا ہے۔ انہوں نے سبھی ہندو
تنظیموں سے گزارش کی کہ وہ اپنی علٰحیدہ سیاسی جماعت بناکر بی جے پی کو
اقتدار سے ہٹا دیں ۔
مندرجہ بالا ٹویٹ کی تائید میں جتیش نے لکھا بی جے پی کشمیری پنڈتوں کو
گرفتار کرسکتی ہے لیکن ہندووں کے قتل پر کچھ نہیں کہہ سکتی ۔ اقلیتوں کی
منہ بھرائی کے لیے نوپور کو غلط طریقہ سے معطل کرسکتی ہے لیکن اس پر انعام
رکھنے والے ایم آئی ایم امیدوار کو گرفتار نہیں کرسکتی۔ عرب ممالک کے
احتجاج کو ٹیگ کرکے ایک فلمساز نے سوال کیا ۔ ایسے بنیں گے وشو گرو؟ اپنے
ہمنواوں کے اس طرح کے ردعمل نے بی جے پی کو بے چین کردیا اور ان کا غم وغصہ
کم کرنے کی خاطر بی جے پی کو محمد زبیر جیسے دلیر صحافی پر ہاتھ ڈالنا پڑا
لیکن تیستا ستلواد کی گرفتاری کی مانند یہ حراست بھی اس کو مہنگی پڑے گی ۔
نبی کریم ﷺ پر اہانت آمیز تبصرہ کرنے والی نوپور شرما کو توقع رہی ہوگی کہ
جو سلوک کپل مشرا کے ساتھ کیا گیا وہی اس کے نوازش اس کے ساتھ بھی ہوگی ۔
اسے اندازہ نہیں تھا اس کا پھینکا ہوا بم ایسےپھٹے گا کہ نہ پارٹی کسی کام
آسکے گی اور نہ حکومت ہند اس کو بچا سکے گی ۔ مودی حکومت اگر اپنے ہی ملک
میں بسنے والے مسلمانوں کے اعتراض کی جانب توجہ دیتی اور بروقت پارٹی سے
معطل کرنے کی کارروائی کروادیتی تو غم و غصہ میں کسی حد تک کمی آجاتی۔ فی
الحال دہلی پولیس ابتدا میں ہی اس کے خلاف ایف آئی آر درج کردیتی تو کچھ
لیپا پوتی ہوجاتی ۔ نوپور کو گرفتار کرکے عدالت میں پیش کردیا جاتا تو کم
ازکم دنیا کے سامنے کہنے کے لیے یہ ہوتا کہ قانون اپنا کام کررہا ہے اور اس
کو قرار واقعی سزا ہوگی لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا ۔
اس معاملے میں سرکارکا کمبھ کرن کی نیند سونا ایک مجرمانہ غفلت تھی اور اس
غلطی کی بھاری قیمت اس کو چکانی پڑ رہی ہے۔ اسی لیے قطری سرکار کا حکومت
ہند سےعوامی طور پر معافی مانگنے کامطالبہ درست معلوم ہوتا ہے۔ نوپور چونکہ
سرکارکی ترجمان نہیں تھی اس لیے اس کا بیان بھی سرکاری نہیں تھا لیکن وہ
برسرِ اقتدار جماعت کے ترجمان کا تبصرہ تھا اور فی الحال حکومت اور پارٹی
کے درمیان کا فرق مٹ چکا ہے۔ اس قضیہ میں سرکار کا بنیادی قصور یہ ہے کہ اس
نے بروقت کارروائی نہیں کی؟ قیادت کی ذمہ داری صرف محلات کے اندر عیش عشرت
کرنا نہیں بلکہ مختلف واقعات کے دوررس اثرات کا اندازہ لگاکر ان پرمناسب
ترین اقدامات کرنا ہوتا ہے ۔ کوئی حکومت اگر اپنے اس فرض منصبی میں ناکام
ہوجائے تو اس کی وہی حالت ہوتی ہے جو عالمی سطح پر مودی سرکار کی ہوئی
اورحفاظتی مشیر اجیت دوال نے اس کا اعتراف کیا ۔ حکومت کا سب سے بڑا مسئلہ
یہ ہے کہ فی الحال اس سمجھ میں یہ نہیں آرہا ہے کہ نوپور شرما کے ساتھ کیا
سلوک کرے ؟ مودی سرکار کے لیے عالمی اور داخلی دباو کے درمیان توازن قائم
رکھنا مشکل ہورہا ۔اس تنازع نے بی جے پی کے اندر زبردست خلفشار برپا کردیا
ہے۔ گرم دل کے سرپھرے نوپور اور نوین کی حمایت کرنے لگے ہیں ۔ ان پر شکنجہ
کسنے پر مجبور اعلیٰ کمان کے لیے یہ ایک سر درد ہے۔ان ناراض حامیوں کو
مطمئن کرنے کی خاطر محمد زبیر کو گرفتار کیا گیا ہے لیکن توقع ہے کہ عدالت
ان کو رہا کردے گی اور حکومت کو پھر سے ہزیمت اٹھانی پڑے گی۔
|