''جنگ ِآزادی 1857ء اور قیام ِ پاکستان میں خانقاہِ شیخو شریف کا کردار''

''جنگ ِآزادی 1857ء اور قیام ِ پاکستان میں خانقاہِ شیخو شریف کا کردار''
بہت سے غیر معلوم تاریخی دَر وا کرتی ہوئی ایک خوبصورت کتاب
''جنگ ِآزادی 1857ء اور قیام ِ پاکستان میں خانقاہِ شیخو شریف کا کردار''
بہت سے غیر معلوم تاریخی دَر وا کرتی ہوئی ایک خوبصورت کتاب
تحریر:۔محمداحمد ترازی
تاریخ ِپاک و ہند سے دل چسپی رکھنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ 1857ء کی جنگ ِآزادی میں علمائے اہل ِسنت اور مشائخ ِطریقت کا نہایت بنیادی کردار رہا ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے تو کچھ مبالغہ نہ ہوگا کہ شمالی ہند میں انگریزوں کے خلاف مسلم رائے عامہ ہموار کرنے اور پورے خطے میں انقلاب کی فضا برپا کرنے کا بنیاد ی کام اِنہی کی قیادت و سربراہی میں ہوا ۔اِن مجاہدین ِجنگ ِآزادی میں بطل ِحریت حضرت علامہ فضل حق خیر آبادی ؒ،مفتی صدر الدین خاں آزردہ دہلویؒ، مولانا سید احمد اللہ شاہ مدراسیؒ، مفتی عنایت احمدکاکوریؒ، مولانا رحمت اللہ کیرانویؒ، مولانا فیض احمد بدایونیؒ، مولانا ڈاکٹر وزیر خاں اکبر آبادیؒ، مولانا وہاج الدین مراد آبادیؒ، مولانا رضا علی خاں بریلویؒ،مولانا امام بخش صہبائی دہلویؒ، مفتی مظہر کریم دریابادیؒ، حکیم سعید اللہ قادریؒ وغیرہ کے انقلابی کارنامے آب ِزر سے لکھنے کے قابل ہیں۔
انگریز کی آمد اور برعظیم پر مکمل قبضے کے بعد وقت کا تقاضہ علماء و مشائخ ِاہلسنت کو مسندِ دعوت و ارشاد سے اٹھا کر رسم ِشبیری ادا کرنے کے لیے میدان عمل میں لے آیا۔اُنہوں نے جنگِ آزادی کا بگل بجایا ،عملی معرکوں میں حصہ لیا،قید و بند کی مصیبتیں اٹھائیں،پھانسی کے پھندوں کو چوما،کالے پانی کی سزائیں پائیں،مگرقومی آزاد ی کے نعرے سے دستبردار ہوکر راہِ فرار اختیار نہیں کی۔1857 ءکے معرکہ کار زار میں اِ ن علماء و مشائخ نے آزادی حریت کی شمع روشن کی اور انگریز کی غلامی کو قبول نہ کیا۔
جبکہ 1857 ءکے بعد مولانا احمد رضا خان محدث بریلویؒ نے اِس قافلہ حریت کی فکری آبیاری کرتے ہوئے دو قومی نظریے کا جداگانہ شعور اجاگر کیا۔ محدث بریلوی ؒ کے بعد آپؒ کے خلفاء اور علمائے اہلسنّت حجۃ الاسلام مولانا حامد رضا خانؒ، صدرالافاضل مولانا نعیم الدین مرادآبادیؒ، مبلغ اسلام علامہ عبدالعلیم صدیقیؒ،سیّد محمد محدث کچھوچھویؒ، مولانا امجد علی خان اعظمیؒ، ابوالحسنات سید محمداحمد قادریؒ، ابوالبرکات سید احمد قادریؒ،علامہ عبدالحامد بدایونیؒ، امیر ملت پیر جماعت علی شاہؒ صاحب، حضرت خواجہ قمر الدین سیالویؒ، مولانا سید احمد سعید کاظمیؒ، مولانا عبدالستار خان نیازیؒ، مولانا عبدالغفور ہزارویؒ، مولانا ابراہیم علی چشتیؒ، مولانا غلام محمد ترنمؒ، مفتی سرحد مفتی شائستہ گلؒ، پیر عبدالرحیم پیر آف بھرچونڈی شریفؒ، پیر آف مانکی شریفؒ اورپیر آف زکوڑی شریف ؒ و دیگر پیران ِ عظام نے برصغیر کے مسلمانوں میں سیاسی شعور کی بیداری میں بہت اہم کردار ادا کیا اور تحریکِ پاکستان میں ہراوّل دستے کا کردار ادا کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم لیگ اور قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے شانہ بشانہ کام کیا۔
اِن اکابرین ِاہلسنّت کی یہ تاریخی جدوجہد جماعت ِرضائے مصطفیٰ، شدھی و سنگھٹن تحریکوں، تحریکِ خلافت، تحریک ِموالات و ہجرت اور آل انڈیا سنی کانفرنس کے قیام 1925 ءسے لے کر بنارس سنی کانفرنس 1946 ءکے تاریخ ساز اجلاس اور 14 اگست 1947ءکو قیام ِپاکستان تک پھیلی ہوئی ہے۔ بے شک قیام ِپاکستان علماء و مشائخ اور عوام اہلسنّت کی لازوال جدوجہد اور قربانیوں کا ثمرہے۔ کوئی غیر جانبدار مورخ اِس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا کہ تحریک ِپاکستان کے سفر میں تکمیل پاکستان تک کوئی ایک موڑ بھی ایسا نہیں تھا، جہاں حضراتِ علماء و مشائخ ِاہلسنّت قوم کی رہبری و رہنمائی کے لیے موجود نہ تھے۔مگر ستم ظریقی یہ ہوئی کہ ہماری قومی و ملی تاریخ کے بہت سے روشن و تابناک کردار اوراُن کی تاریخ ساز جدوجہد کے بہت سے گوشے آج بھی نظروں سے اوجھل ہیں۔جس میں کچھ اپنوں کی کمزوری و کوتاہی اور کچھ متعصب تاریخ نویسوں کا مذہبی و مسلکی تعصب کارفرما رہا۔
''جنگ ِآزادی 1857ء اور قیام ِ پاکستان میں خانقاہِ شیخو شریف کا کردار''1857ء سے 1947ء تک،حصہ اول،ہماری قومی تاریخ کے ایک ایسے ہی روشن اور تاریخی پہلو کی نقاب کشائی کرتی ہے جو اب تک اہل وعلم و محققین کی نظروں سے پوشیدہ رہا ہے۔اِسے جناب سید سید علی ثانی گیلانی صاحب نے ترتیب دیا ۔ ادارہ ''صوت ِ ہادی ''خانقاہ ِعالیہ قادریہ شیخو شریف ضلع اوکاڑہ ،پنجاب نے خوبصورت سرورق اور اعلیٰ پیپر پرشائع کیا اور ہمیں یہ تحفہ درویش محترم کرم فرماپیر محمد طاہر حسین قادری صاحب سجادہ نشین خانقاہ ِ منگانی شریف ،ضلع جھنگ کی جانب سے موصول ہوا۔''جنگ ِآزادی 1857ء اور قیام ِ پاکستان میں خانقاہِ شیخو شریف کا کردار''پانچ ابواب پر مشتمل ایک ایسی مختصر مگر جامع اور تاریخی کتاب ہے جس میں خانوادہ گیلانیہ قادریہ'' شیخو شریف'' کے 1857ء سے 1947ء تک قومی و ملی جدوجہد اور کردار و عمل کو نہایت ِعمدگی سے اُجاگر کیا گیا ہے۔
باب ِاول۔سلطنتِ مغلیہ کے زوال،اولاد ِ حضرت داتا شاہ چراغ لاہوریؒ اور سجادہ نشین مرشد سادات امام حیدر بخش لاہوریؒ کے مختصر حالات زندگی ، بڑے فرزند حسن بخشؒ کی سکھ مظالم کے خلاف مسلمان اُمراء سادات گیلانی و بخاری اور دیگر مسلم زمینداروں کو متحد و منظم کرنے کی کوششوں،اپنوں کی بزدلی اورمخالفت کے بعدپہلے سلطان پور پھرلاہور ہجرت ، نواب شیخو خان و جھیرہ کھرل کی دعوت پر اُس کے گھر چاہ توتاں والا قیام،نواب شیخو ہی کے اصرار پر اپنے ماموں سید غلام غوث ستگھرویؒ کی دختر سے نکاح ثانی،نواب شیخو وجھیرہ کا اپنی تمام املاک آپؒ کو ہبہ کرنا اور پھرنواب شیخو کے ایثار ، محبت اور قربانیوں کی نسبت سے ایک نئی خانقاہِ ''شیخو شریف '' کے قیام کے واقعات سے مزین ہے۔
یہاں یہ واضح رہے کہ خانقاہِ عالیہ قادریہ'' شیخو شریف'' حضور غوث اعظم رضی اللہ عنہ کی اولاد سے منسوب ایک بستی ہے۔جسے 1757ء میں حضرت داتا شاہ چراغ رحمۃ اللہ کی اولاد میں سے ایک فرد ِکامل سید حسن بخش المعروف داتا حسنین سائیں نے آباد کیا۔یہ بستی انتظامی لحاظ سے ضلع اوکاڑہ میں آتی ہے ، ویسے خطی طور پر یہ ضلع شیخو پورہ ، اوکاڑہ اور فیصل آباد کا سنگم ہے۔ یہ بستی گوگیرہ سے 8 کلو میٹر بسمت شمال مشرق واقع ہے ، جو کبھی جنگ ِآزادی 1857ء کا حلقہ اور شیر پنجاب رائے احمد خان کھرل شہید کا ہیڈ گوارٹر بھی رہا تھا۔
اِس باب کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ نواب شیخو بے اولاد تھے ،اُنہوں نے حسنین سائیںؒ سے اولاد کے لیے دعا کی درخواست کی،آپ ؒنے مراقبہ کے بعد ارشاد فرمایا کہ ''تمہارے حصے میں آخرت کی بہت ساری نعمتیں ہیں غم نہ کرو اور مطمئن رہو''روایت ہے کہ حسنین سائیں ؒنے یہ بھی فرمایا کہ ''اللہ کی رضا اِسی میں ہے کہ میری اولاد تمہارے نام و لقب سے پہچانی جائے گی۔''یہی وجہ ہے کہ آج پونے تین صدیاں گزرجانے کے بعد بھی تمام اولادِ حسنین ؒ ''سادات ِشیخو شریف'' کے نام سے ہی جانے پہچانے جاتے ہیں۔
بابِ دوم۔خانقاہ ِشیخو شریف کے دوم اور سوم سجادہ نشین سید عبدالقادر بن حضرت حسنین سائیںؒ اورسید محمد سائیںؒ،کے حوالے سے ہے۔اِن دونوں سجادگان کے عہد میں خانقاہ کی تعمیروترقی ہوئی،علماء و مشائخ تک خانقاہ کا تعارف و پیغام پہنچایا گیااور بندگانِ خدا کو نیکی و ہدایت کا راستہ دکھایا گیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ شیخو شریف کی شہرت دوردراز کے علاقوں تک پھیل گئی ۔بالخصوص سید محمد سائیں ؒ کے دور میں ایک مضبوط خانقاہی نظام وجود میں آچکا تھا اور سیال، فتیانے،وٹو،بھدرو و کئی علاقائی قوموں کے ساتھ آس پاس کے تمام بلوچ و کھرل قبائل بھی آپ کے مریدین میں شامل ہوچکے تھی ۔سید محمد سائیںؒ کا وصال انگریز گورنر جنرل لارڈ ڈلہوزی کے عہد میں اپریل 1849ء میں ہوا اور آپ کی تدفین شیخو شریف میں ہی عمل میں لائی گئی ۔اِس طرح آپ خانوارہ عالیہ قادریہ شیخو شریف کے پہلے بزرگ ہیں جن کا مولد ومدفن شیخو شریف کی سرزمین بنی۔
باب ِسوم۔تیسرا باب اِس خانقاہ کے چوتھے سجادہ نشین سید عبدالرزاق گیلانیؒ کے عہد پر مشتمل ہے۔یہ وہ دور ہے جب سلطنتِ مغلیہ آخری ہچکی لے رہی تھی۔جس کی بقا و دوام کے لیے علماء و مشائخ کی جانب سے فتویٰ جہاد صادر ہوچکا تھا ۔مسلمانان ِہند برطانوی سامراج سے آزادی کے لیے برسر پیکار تھے اورجنگ ِ آزادی کے اثرات'' شیخو شریف'' میں بھی محسوس کیے جارہے تھے۔چنانچہ حضرت سید محمد سائیںؒ کے عرس کے اختتام پر چند سرکردہ قبائلی سرداروں کے سامنے انگریز وں کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ،نہتے مسلمانوں پر توڑے گئے مظالم اور علمائے اہلسنت کی جانب سے فتویٰ فرضیتِ جہاد کے مسائل رکھے گئے اوراُن سے جنگ ِ آزادی میں مسلمانوں کا ساتھ دینے کا عہدو پیمان لیا گیا۔اِن قبائلی عمائدین و زعماء میں شیر پنجاب رائے احمد خان کھرل اور میاں جیوے خان آرائیں جو سید عبدالرزاق گیلانی کے مرید خاص تھے،بھی شامل تھے۔
مرشد کی تربیت و اصلاح اور نگاہ ِخاص نے رائے احمد خان کھرل میں جذبہ جہاد دو آتشتہ کردیا تھا، مگر سن رسیدگی اَمر مانع محسوس ہورہی تھی ۔چنانچہ ایک دن رائے احمد خان کھرل نے اپنے مرشد سید عبدالرزاق گیلانی ؒکی خدمت میں عرض کی ''حضور عمر اب 80 سال تک پہنچ چکی ہے یہ ضعیف ہاتھ تلوار اور بندوق کیسے اٹھائیں گے۔''مرشد نے فرمایا''احمد خان مسلمان مجاہد کبھی بوڑھا نہیں ہوتا،اُس کو اللہ کی مدد کا وعدہ ہے۔''پھر رائے احمد خان کھرل کی تجویز پر آپ کے مرشد ؒ نے تمام سادات ِ گیلانی ستگھرہ و دیپال پورو دیگر قائدین اوراپنے مریدین سے انگریز سامراج کے خلاف رائے احمد خان کھرل کا ساتھ دینے کے لیےبیعتِ جہاد لی۔
اِس کتاب میں تاریخ کا یہ اہم ،خاص اورپس پردہ پہلو تاریخی شہادتوں کے ساتھ بھی سامنے آتا ہے کہ مجاہدِ جنگِ آزادی1857ء رائے احمد خان کھرل کو میدان ِکار زار میں جاکر انگریز سامراج سے پنجہ آزمائی اورمقام ِشہادت سے سرفراز ہونے کی کی ترغیب دینے والےخانقاہ ِ شیخو شریف کے چوتھے سجادہ نشین سید عبدالرزاق گیلانی ؒتھے ۔یہ سید عبدالرزاق گیلانیؒ کی ہی مذہبی،روحانی اور عسکری کوششیں و کاوشیں تھیں جوپنجاب کے ضلع گوکیرہ،شیخو پورہ،فیصل آباد ،پاک پتن ،دیپال پور کے علاقوں میں نقارہ جہاد بجا اور مجاہدین جنگ ِ آزادی 1857ء کی نقل و حرکت میں تیزی آئی۔کتاب میں شامل تاریخی شواہد بتاتے ہیں کہ انگریز سرکار اور سکھ سردار ہمیشہ سادات ِگیلانیہ کے روحانی مقام و مرتبہ اور عوام الناس میں غالب اثرورسوخ سے خائف اور ڈرے ہوئےرہے۔
بابِ چہارم ۔کتاب کا باب چہارم 1857ء کی جنگ ِ آزادی کے بعد1930ء تک کے اہم سیاسی واقعات سے آراستہ ہے۔اِس باب میں ایک قابلِ تکلیف اور افسوسناک پہلو 1892ء میں سید عبدالرزاق گیلانیؒ کے وصال کے بعد خانقاہِ شیخو شریف میں خانقاہی نظام کا زوال ،دھڑے بندیوں میں تقسیم اور متعدد سجادہ نشینوں کا ظہور ہے۔یہ وہ المیہ ہے جس میں آج بھی ہماری متعدد مشہور و معروف خانقاہیں مبتلا ہیں۔
اِس باب میں خانقاہ ِ شیخو شریف کے حوالے سے سب اہم تاریخی اور نئی بات یہ بھی سامنے آتی ہے کہ اِس خانوادے کے ایک بزرگ حضرت سید محمد حسین ؒ کے روابط مسلم لیگ اور دیگر مسلم رہنماؤں بالخصوص حضرت علامہ اقبالؒ،مولانا محمد بخش مسلم بی اےؒ،پیر سید فیض الحسن آلو مہارویؒ ،حافظ سید مسعود احمد شاہؒ ،مولانا ظفر علی خاں وغیرہ سے رہے۔اِس باب میں یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ مولانا محمد بخش مسلم بی اےؒ،نے سید محمد حسین ؒ کو ایک ایسی تنظیم کی بنیاد رکھنے پر بھی آمادہ کیا جو گاؤں اور دیہاتوں کے نوجوانوں میں قومی و ملی جذبہ کو بیدار کرکے مسلم لیگ کے ہراول دستے میں شامل کر دے۔چنانچہ مولانا محمد بخش مسلم بی اے کے تحرک پر سید محمد حسین ؒ نے 1932ء میں ''حزب ِغوثیہ''نامی جماعت کی بنیاد رکھی۔جس نے تحریک ِ پاکستان کی جدوجہد میں بہت اہم کردار ادا کیا۔آپ ؒنے ''الہادی'' کے نام سے ایک رسالہ بھی جاری کیا جس کا مقصدمریدین کی علمی و عملی تربیت اور باہمی تعاون و رابطہ کے ذریعے آپس میں متحد و منظم کرنا تھا۔اُس دور میں ''الہادی '' کے لکھنے والوں میں خود قبلہ سید محمد حسین ؒ ،صاحبزادہ فیض الحسن آلومہارویؒ،ابوفیض منشی علم الدینؒ اور مولانا محمد بخش مسلم بی اے ؒقابل ذکر ہیں۔
بابِ پنجم ۔ کتاب کا آخری اور بہت ہی اہم تاریخی باب ہے۔جس میں امیر ملت پیر جماعت علی شاہ صاحب ؒ کی تحریک پاکستان کی تائید و حمایت کے لیے علماء اور خاص طور پر مشائخ کو خانقاہوں سے نکل کر رسم ِ شبیری ادا کرنے کے ترغیبی خطوط ارسال کرنے کا بھی ذکر ہے۔اِس حوالے سے امیر ملت نے ایک خط ''خانقاہ ِ شیخو شریف'' کے سجادہ نشین سید سردار عالم ؒکو بھی لکھا تھا۔ جو اب تک سجادگان ِ شیخو شریف کے پاس موجود ہے۔اِس باب کے مطالعہ سے یہ انکشاف بھی ہوتا ہے کہ پیراصغر علی گیلانیؒ بنفس نفیس مسلم لیگ میں متحرک رہے۔اُنہوں نے پیرانہ سالی اور جوان بیٹے کی موت کے باوجود 1946ء کے الیکشن میں فعال کردار ادا کیا اور اپنے تمام مریدین کو ہدایت فرمائی کہ وہ صرف اور صرف مسلم لیگ کو ووٹ دیں۔آپ کا طرز عمل '' مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ '' کا عملی مصداق تھا۔یہی وہ وجہ تھی جو ضلع منٹگمری(ساہیوال) کی چاروں نششتوں پر مسلم لیگی اُمیدواروں نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی۔یہ آپ کے ہی حلقہ اثر اور عقیدت و رشتہ داری کےثمرات تھے کہ ساداتِ دیپال پور اور عوام الناس نے تحریک ِ پاکستان میں اہم کردارادا کیا۔
دیپال پور ہی کی ایک سرگرم اور متحرک شخصیت پیر سید ظفر علی شاہ بن سید امیر علی شاہ گیلانی نے 1940ء میں مسلم لیگ کے لاہور اجلاس میں نا صرف شرکت کی بلکہ اجلاس سے واپسی پر دیپال پور میں''پرائمری مسلم لیگ ''کی بنیاد رکھی۔جس نے اپنے فرائض قیام پاکستان تک بخوبی ادا کیے۔ اُنہوں نے ملک خضر حیات کی وزاتِ عظمی کے خلاف تحریک چلائی اور مسلم لیگ تحصیل دیپال پور کے تاحیات جنرل سیکرٹری کی حیثیت سے خدمات بھی انجام دیں۔یہ سادات ِ گیلانیہ و بخاری کی ہی تائید وترغیب تھی جو عقیدت مندوں کا اِک سیل رواں مسلم لیگ میں شامل ہوا ،جس سے اُس کی افرادی قوت میں اضافہ ہوا اور پنجاپ میں قیام پاکستان کی تحریک پروان چڑھی۔اِس باب کے مطالعہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ خانقاہِ شیخوشریف نے تقسیم ہند کے بعد نوزائدہ مملکت پاکستان آنے والے مہاجرین کی حفاظت،رہائش اور آباد کاری میں ہی بھرپور حصہ نہیں لیا بلکہ ترک ِسکونت نہ کرنے والے مقامی غیر مسلموں کے تحفظ کو بھی اپنا فرض گردان کر تعمیر وطن میں اہم کردار ادا کیا۔
نبیادی طو پر ''جنگ ِآزادی 1857ء اور قیام ِ پاکستان میں خانقاہِ شیخو شریف کا کردار''خانقاہِ عالیہ قادریہ شیخو شریف'' کے سجادگان اور وابستگان کے تحریک ِ پاکستان میں عملی کردار کو واضح اورنمایاں کرتی ہے۔مشائخ ِ عظام اور پیران کرام کے حوالے سے ہماری قومی و ملی تاریخ کا یہ وہ پہلو ہے جس کے بہت سے اب تک پوشیدہ اور نظروں سے اوجھل ہوئے ہیں۔ضرورت اِس اَمر ہے اِن پر کام کیا جائے اوراِنہیں وقت کی دبیز تہہ سے نکال کر
اپنے اسلاف کی اِس قابل فخر تاریخ کو محفوظ بنایا جائے۔اِن بزرگوں کے حالات،اِن کی کاوشوں سے پردہ اٹھانا اور اِن سے استفادہ کرنا اِس لئے بھی ضروری ہے کہ فی زمانہ اہلسنت وجماعت میں علمی اورعملی جہاد جیسی قدرگراں مایہ کی کمی ہوتی جارہی ہے۔اِس تناظر میں اپنے اسلاف کے مجاہدانہ کردار کا مطالعہ ہماری آنے والی نسل کے اخلاق اورروحانی زندگی میں پیدا شدہ ٹھہراؤ میں فکری بالیدگی و تازگی پیدا کرسکتا ہے۔
صاحب ِکتاب سید سید علی ثانی گیلانی نے اِسی فکر کو سامنے رکھتے ہوئے ''جنگ آزادی 1857ء اور قیام پاکستان میں خانقاہ ِ شیخو شریف کا کردار''مرتب کی ہے ۔خود علمی و ادبی آدمی ہیں اور دینی و دنیاوی تعلیم کے زیور سے آراستہ ہیں۔کئی کتابوں کے مصنف ہیں ۔آپ کی زیرادارت سہ ماہی علمی و ادبی مجلہ''صوتِ ہادی'' بھی شیخو پورہ سےشائع ہوتا ہے۔سید علی ثانی گیلانی کا اندازِ تحریر سادہ ، شائشتہ اور اور دلنشین ہے۔وہ حقائق کی تلاش میں دور تک جاتے ہیں اور اپنے اَخذ کردہ نتائج کی تائید میں قوی دلیل لاتے ہیں۔اُنہوں نے کتاب ضروری حوالوں ، نادر و نایاب تصاویر اوراہم تاریخی دستاویزات سے مزین کی ہے۔
درحقیقت یہ اُن بزرگان دین کے کارہائے نمایاں کی روداد ہے جو انقلابِ زمانہ کے چشم دید گواہ تھے۔تحقیقی اعتبار سے یہ ایک عمدہ کتاب ہے جو بہت سے غیر معلوم در وا کرتی ہے۔اِس علمی و تحقیقی کارنامے پرہم جناب سید سید علی ثانی گیلانی صاحب کو مبارک باد پیش کرتے ہیں کہ اُن محنت ،کوشش اور متجسس طبیعت نے خانقاہِ شیخو شریف کے سجادگان اور وابستگان کی 1857ء سے 1947ء قیام پاکستان تک سیاسی خدمات کو مسبوط علمی شکل عطا فرمائی ۔ یقیناً یہ ایک ایسی اہم تاریخی دستاویز ہے،جو اپنی اساس ،اپنی روایات اور اپنی تاریخ سے جڑے رہنے اور مادر پدر آزاد دنیا کی رنگینیوں میں ڈوبنے سے بچاتی ہے۔یہی وہ شاہراہ عمل ہے جو ہمیں حسرت و یاس اور ناکامی و نامرادی کے اندھیروں سے نکال کر روشن مستقبل کا راستہ دکھاتی ہے۔جناب سید علی ثانی گیلانی کی یہ کتاب اِسی جذبہ محرکہ کی ترجمان وعکاس اور وقت کی اہم ضرورت ہے۔
M.Ahmed Tarazi
About the Author: M.Ahmed Tarazi Read More Articles by M.Ahmed Tarazi: 319 Articles with 358034 views I m a artical Writer.its is my hoby.. View More