شہرِ قائد درختوں کے بغیر بے بس

کراچی، پاکستان کا سب سے بڑا اور گنجان آباد شہر، آج ماحولیاتی آلودگی، شدید گرمی اور بے ترتیب شہری پھیلاؤ جیسے مسائل کا شکار ہے۔ ان تمام مسائل کی ایک بڑی لیکن اکثر نظر انداز کی جانے والی وجہ درختوں کی کمی ہے۔ درخت نہ صرف آکسیجن فراہم کرتے ہیں بلکہ فضاء سے زہریلی گیسوں کو جذب کرکے ماحول کو صاف رکھتے ہیں، درجہ حرارت کو قابو میں رکھتے ہیں اور بارشوں کے نظام کو بھی متوازن بناتے ہیں۔

لیکن کراچی میں روز بہ روز درختوں کا کٹاؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ ترقیاتی منصوبوں، سڑکوں کی توسیع اور ہاؤسنگ اسکیموں کے لیے ہزاروں درخت کاٹے گئے، مگر ان کی جگہ نئے درخت لگانے کی سنجیدہ کوششیں نہ کی گئیں۔ اس کا براہِ راست اثر شہر کے درجہ حرارت پر پڑا ہے۔ اب صرف جون یا جولائی ہی نہیں، بلکہ مئی کے مہینے میں بھی گرمی کی شدت ناقابلِ برداشت ہو چکی ہے۔ درجہ حرارت 44 سے 47 ڈگری سینٹی گریڈ تک جا پہنچتا ہے۔ سڑکیں تپتی ہیں، دھوپ جلاتی ہے، اور سایہ دینے والا ایک درخت بھی نظر نہیں آتا۔

درختوں کی کمی کے باعث نہ صرف گرمی بڑھی ہے بلکہ سانس کی بیماریاں، الرجی، اور دل کی تکالیف میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ بچے، بزرگ اور بیمار افراد سب اس ماحولیاتی بگاڑ سے متاثر ہو رہے ہیں۔ درخت ایک قدرتی فلٹر کی طرح کام کرتے ہیں، جو اب شہر میں ناپید ہوتے جا رہے ہیں۔

ایسے وقت میں درخت لگانا صرف ایک ماحولیاتی عمل نہیں، بلکہ بقا کی جنگ بن چکا ہے۔ ہر شہری کو چاہیے کہ کم از کم ایک درخت ضرور لگائے اور اس کی نگہداشت کرے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ کراچی میں زندگی بہتر ہو، تو ہمیں فوری طور پر شجرکاری کو اپنی ترجیحات میں شامل کرنا ہوگا۔ درخت صرف سایہ نہیں دیتے، یہ زندگی دیتے ہیں اور کراچی کو اب زندگی کی سخت ضرورت ہے۔
 

Syeda Neha
About the Author: Syeda Neha Read More Articles by Syeda Neha: 8 Articles with 3436 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.