جب بھی ایران کے دفاعی نظام، خاص طور پر بیلسٹک میزائلوں
کا ذکر ہوتا ہے تو ایک نام سب سے نمایاں ہو کر ابھرتا ہے " حسن طہرانی مقدم"
۔ ایرانی میڈیا اور عسکری حلقے انہیں "Father of Iranian Missile Program"
کہتے ہیں۔ان کے قبر پر فارسی زبان میں بھی لکھا گیا ہے "پدر صنعت موشکی
ایران" یعنی "ایران کے میزائل پروگرام کا باپ" کہتے ہیں۔ ان کی زندگی، کام،
اور مشن صرف فوجی ٹیکنالوجی تک محدود نہیں تھا بلکہ ایک نظریاتی جہت بھی
رکھتا تھا، جو براہ راست اسرائیل کے خلاف مزاحمت سے جڑی ہوئی تھی۔
حسن طہرانی مقدم 1959 میں تہران میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی طور پر وہ ایرانی
پاسدارانِ انقلاب (IRGC) کے رکن بنے۔ عراق ایران جنگ 1980 تا 1988 کے دوران
انہیں اندازہ ہوا کہ ایران کو اگر بیرونی جارحیت سے بچانا ہے تو اسے دور
مار کرنے والے میزائلوں کی اشد ضرورت ہے۔ اس احساس نے ان کی زندگی کا رخ
بدل دیا۔ایران نے 1990 کی دہائی میں شمالی کوریا کے ساتھ تکنیکی اشتراک
شروع کیا۔ کہا جاتا ہے کہ حسن طہرانی نے خود شمالی کوریا کا دورہ کیا اور
وہاں سے اسکڈ میزائلوں کے بلیو پرنٹ حاصل کیے، جنہیں بنیاد بنا کر ایران نے
اپنے شاہین صفت میزائل تخلیق کیے۔ ان میں "شہاب"، "قدر"، "سجیل" اور "عماد"
جیسے میزائل شامل ہیں جن کی رینج 1500 سے 2500 کلومیٹر تک ہے یعنی یہ نہ
صرف اسرائیل بلکہ مشرقِ وسطیٰ کے ہر کونے کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے
ہیں۔
حسن طہرانی مقدم صرف ایک سائنسدان یا انجینیئر نہیں تھے، بلکہ وہ ایک
نظریاتی شخصیت بھی تھے۔ ان کا یہ جملہ بارہا دہرایا جاتا ہے:
"ہم وہ لوگ ہیں جو اسرائیل کو مٹانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔"
یہی جملہ آج ان کی قبر پر بھی درج ہے، جو تہران کے بہشت زہرا قبرستان میں
واقع ہے۔قبر کے کتبے پر لکھا ہے کہ !
“Here lies the burial place of someone who wanted to annihilate Israel”۔
“یہ وہ شخص ہے، جوکہ اسرائیل کو نابود کرنا چاہتا تھا۔”
یہ کتبہ ان کی فکر اور مشن کی عکاسی کرتا ہے کہ ایران کے دفاعی پروگرام کا
مقصد صرف سرحدی تحفظ نہیں، بلکہ ایک مخصوص سیاسی و نظریاتی ہدف بھی ہے۔
حسن طہرانی کی اچانک موت! حادثہ یا سازش؟
12 نومبر 2011 کو تہران کے قریب ایک فوجی اڈے پر میزائل تجربے کے دوران زور
دار دھماکہ ہوا، جس میں طہرانی مقدم سمیت 16 افراد جاں بحق ہوئے۔ ایران نے
اسے "حادثہ" قرار دیا، مگر عالمی میڈیا اور کچھ مبصرین نے اسرائیلی خفیہ
ایجنسی موساد پر شبہ ظاہر کیا۔ اسرائیل نے ہمیشہ ایران کے میزائل پروگرام
کو خطرہ قرار دیا ہے، اور حسن طہرانی اس پروگرام کا دماغ تھے۔
طہرانی مقدم کی شہادت کے باوجود ایران کا میزائل پروگرام نہ صرف جاری ہے
بلکہ مسلسل ترقی کی جانب گامزن ہے۔ ان کے شاگرد اور ان کی قائم کردہ
بنیادوں پر کام کرنے والے ماہرین آج بھی ایران کی فوجی طاقت میں اضافے کے
لیے کوشاں ہیں۔ ایران کے میزائل آج صرف دفاع نہیں بلکہ سفارتی دباؤ اور
اسٹریٹجک طاقت کی علامت بن چکے ہیں۔
حسن طہرانی مقدم ایک شخصیت نہیں، بلکہ ایک نظریہ تھے۔ ان کی زندگی
ٹیکنالوجی، نظریے اور قومی خودمختاری کے درمیان ایک دلیرانہ ربط کی کہانی
ہے۔ آج جب مشرقِ وسطیٰ میں طاقت کا توازن بگڑ رہا ہے، تو ایران کے میزائل
اور ان کے بانی کا نام ہر اس بحث کا مرکزی نکتہ ہے، جو خطے کے مستقبل پر
اثر انداز ہو سکتا ہے۔
|