سائنس اور ٹیکنالوجی کے فنون اور اسلحہ سازی کی اہمیت

بحمد اللہ! علمائے حق کے طبقے میں ایسے بے شمار علماء معلوم ہیں جن کی امنگوں اور آرزوؤں کا مرکز پاکستان ہے ، اور ان کے دل کی سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ وہ اسلام کے صراطِ مستقیم پر گامزن ہونے کے ساتھ ساتھ مادی اعتبار سے بھی دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرے ، یہی وجہ ہے کہ یہ حضرات علمائے ایک طرف تو مسلمانوں کو یہ تاکید کرتے آئے ہیں کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ماہرانہ تحصیل ہمارے فرائض کا اہم جز ہے ، اور اگر ہم نے اپنے اس فریضے میں کوتاہی کی تو ہم اللّٰہ کے حضور مجرم ہوں گے ، دوسری طرف ان کی شبانہ روز دعائیں اسی کام کے لئے وقف ہیں جس کو علیم و خبیر ہی جانتا ہے ۔

تفصیل کا یہاں موقع نہیں ، ہم اس وقت زمانہ حال ہی کے ان چند علماء کی تحریروں کے کچھ اقتباسات پیش کرتے ہیں، جن پر سائنس اور ٹیکنالوجی کی مخالفت کا الزام عائد کیا جا رہا ہے ۔
پاکستان میں طبقہ علماء کے سرخیل شیخ الاسلام حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی رحمۃ اللّٰہ علیہ تھے ، تعمیر پاکستان کے لئے ان کی بے لوث قربانیاں ناقابل فراموش ہیں ، انہوں نے فروری 1949 میں ڈھاکہ کی ایک کانفرنس میں پاکستانی علماء کی پالیسی کی وضاحت کرتے ہوئے واشگاف الفاظ میں فرمایا تھا کہ:
" خواہ ارباب اقتدار ہمارے ساتھ کچھ ہی برتاؤ کریں ہم خالص خدا کی خوشنودی اور اسلام اور اہل اسلام کی برتری اور بہتری کے لئے اپنی اس نئی مملکت کو مضبوط اور محفوظ بنانے میں امکانی کوشش کا کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کریں گے". (خطبہ صدارت جمعیتہ علماء اسلام کانفرنس ڈھاکہ 10 فروری 1949 ص 6 مطبوعہ کراچی)

آگے اسی تقریر میں ارشاد فرماتے ہیں:
" ہم اپنی استطاعت و امکان کی آخری حد تک ان مادی ذرائع و وسائل کی فراہمی میں کمی اور سستی نہیں کرنی چاہیۓ جن سے ہم اپنے دشمنوں کے حوصلے پست کر سکیں ، اور ان پر اپنی دھاک بٹھا سکیں ، کیوں کہ یہ چیز خود قرآن کریم کے صریح حکم واعدوالہم ما استطعتم الخ کے ذیل میں شامل ہے ۔" ( ایضاً 23,24)

نیز ارشاد فرماتے ہیں:
" میرے نزدیک تو ہمارے سارے فوز و فلاح کا راز ان چار لفظوں میں مضمر ہے: صبر و استقامت ، تقوی و طہارت ، اتحاد ملت ، اعداد قوت حسب استطاعت ، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ انفرادی و اجتماعی زندگی میں اللہ سبحانہ وتعالی سے اپنا تعلق صحیح رکھا جائے ، تاکہ اس کی امداد و نصرت کے مستحق ہو سکیں ۔ اور ساری ملت اسلامیہ متحد و یکجان ہو کر اپنی قدرت کی آخری حد تک وہ قوت فراہم کرے جس سے ابلیسی لشکروں کے حوصلے پست ہو جائیں ۔"
اور حضرت مفتی محمد شفیع صاحب صدر دارالعلوم کراچی اپنے رسالہ" جہاد " میں تحریر فرماتے ہیں:

صبر و تقویٰ اور اللّٰہ تعالیٰ پر ایمان و توکل تو مسلمانوں کی اصل اور ناقابلِ تسخیر طاقت ہے ہی، اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ہر زمانے اور ہر مقام کے مناسب اسلحہ اور سامان جنگ بھی جمع کیا جائے ۔۔۔۔۔رسول کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ہمیشہ جنگی مشقوں کا اہتمام فرمایا ، اس زمانہ میں جنگ کے جو ہتیھار تھے انکو جمع کرنے کی ہدایتیں فرمائیں ، امام حدیث و تفسیر ابنِ کثیر نے اپنی کتاب البدایہ والنہایہ میں غزوہ حنین کے تحت نقل کیا ہے کہ رسول کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے دو صحابی حضرت عروہ بن مسعود اور غیلان بن اسلم اس جہاد میں اس لئے شرکت نہیں کر سکے کہ وہ بعض جنگی اسلحہ اور سامانوں کی صنعت سیکھنے کے لئے دمشق کے مشہور صنعتی شہر میں اس لئے گئے تھے کہ وہاں دبابہ اور ضبور کی وہ جنگی گاڑیاں بنائی جاتی تھیں ، جن سے اس وقت ٹینکوں جیسا کام لیا جاتا تھا ، اسی طرح منجنیق کی صنعت بھی وہاں موجود تھی ،

اس واقعہ سے یہ بھی ثابت ہوا کہ مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ اپنے ملک کو جنگی اسلحہ اور سامان کے لئے خودکفیل بنائیں دوسروں کے محتاج نہ رہیں ورنہ یہ بھی ممکن تھا کہ یہ جنگی گاڑیاں اور منجنیق وہاں سے خرید کر درآمد کر لی جاتیں ، ہمارا فرض ہے کہ ہم اس پر پورا غور کریں کہ ۔۔۔۔۔ ہم جیسے لوگوں کو اس کی ضرورت کس قدر زیادہ ہے کہ موجودہ زمانے میں جنگ کے لئے جس طرح کے اسلحہ اور آلات اور سامان کی ضرورت ہے اس میں کسی سے پیچھے نہ رہیں اور اس کی کوشش میں لگ جائیں کہ قریب سے قریب مدت میں ان چیزوں کے لئے اپنے ملک کو خودکفیل بنا سکیں ( " جہاد" ص ۵۳ تا ۵۶ مطبوعہ کراچی ء۱۹۶۵)

نیز اپنی ایک اور کتاب " آلات جدیدہ" میں حضرت مفتی صاحب تحریر فرماتے ہیں :
خلاصہ کلام یہ ہے کہ مصنوعات و ایجادات ، قدیم ہو یا جدید جس سے انسان کی معاشی فلاح کا تعلق ہے وہ سب اللّٰہ تعالیٰ کی عظیم الشان نعمتیں ہیں جو انسان کو عطاء ہوئی ہیں عاقل انسان کا کام یہ ہے کہ ان نعمائے الٰہیہ سے فائدہ اٹھائے اور ان کا شکر گزار ہو ( آلات جدیدہ ص ۱۵ مطبوعہ کراچی ۱۳۸۱ ھ)

اور حضرت مولانا ظفر احمد صاحب عثمانی شیخ حدیث دارالعلوم الاسلامیہ ٹنڈو الہ یار اپنے ایک مضمون میں تحریر فرماتے ہیں :-
دشمن کے مقابلے میں قوت حرب (جنگی طاقت) کو اس حد تک بڑھانا چاہیے کہ دشمن پر ہیبت چھا جائے ۔۔۔۔ ہمارے پہلے خلفاء و سلاطین اس حکم پر پوری طرح عامل تھے ، حضرت معاویہ رضہ نے خلافت عثمان میں پانچ سو بحری جہازوں کا جنگی بیڑہ تیار کر رکھا تھا ، دشمن کی جنگی قوت کی مدافعت کا پورا سامان خود تیار کرتے تھے,

دوسروں کے دست نگر نہ تھے ، جیسے آج کل ہم دوسروں کے محتاج ہیں ، سب مسلمان سربراہوں کو مل کر اسلحہ سازی کے کارخانے قائم کرنے چاہئیں اور نئی نئی ایجادیں بھی کرنی چاہئیں ، یہ سب اعداوالہم مااستطتم من قوۃ میں داخل ہیں ( ماہنامہ ابلاغ جمادی الاولی ۱۳۸۷ھ ص ۴۴)

حضرت مولانا محمد یوسف صاحب بنوری شیخ الحدیث مدرسہ عربیہ نیو ٹاؤن کراچی ماہنامہ " بینات" کے ایک ادرائیے میں تحریر فرماتے ہیں:-
" عالم اسلام بالخصوص عرب کے صحراؤں میں قدرتی وسائل ، خام ذخائر اور مال و دولت کی کمی نہیں ، بلکہ فراوانی ہے ، مگر یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ ان کے مال و دولت کا بڑا حصہ یا تو غیر ملکی بینکوں میں جمع ہونے کی وجہ سے دشمنان اسلام کے کام آتا ہے ، یا شاہ خرچی ، عیش پرستی , عافیت کوشی اور آسائش پسندی کے لیے ضائع کیا جاتا ہے ، لیکن فوجی استحکام ، عسکری تربیت اور اسلحہ سازی تقریباً صفر ہے ، دشمنان اسلام جگہ جگہ ہوائی اڈے ، بحری بیڑے ، فوجی چھاؤنیاں اور اسلحہ سازی کے بڑے بڑے کارخانے قائم کر رہےہیں ، مگر عالم اسلام خدا فراموشی کے ساتھ ساتھ ظاہری تدبیر سے بھی مجرمانہ غفلت میں مست ہے ۔ ( ماہنامہ بینات کراچی ربیع الثانی ۱۳۸۷ھ ص ۴)

حضرت مولانا عبد الحق صاحب شیخ الحدیث دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک اپنی ایک تقریر میں اسی بات کو واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:-
" تم نے یورپ سے صرف بد عملی اور بد تہذیبی سیکھی وہ تو ایک منٹ میں ایک جہاز بنائیں ، بے شمار بم اور راکٹ بنائیں ، یہود کو بچانے کے لیے اربوں روپے جمع کریں ، اور ہم اپنی خرمستیوں میں مبتلا رہیں ، اجتماعی مقاصد کو بالکل بھول جائیں تو اس کا انجام ہلاکت کے سوا آخر کیا ہو گا ؟( ماہنامہ"الحق " اکوڑہ خٹک جولائی 1967 ص 17)
حضرت مولانا شمس الحق صاحب افغانی اپنے ایک مضمون " ترقی اور اسلام" میں اس موضوع پر فاضلانہ گفتگو کے بعد تحریری فرماتے ہیں:-

ترقی سے ہماری محرومی اور ہمارا یہ زوال ترک اسلام کا نتیجہ ہے ، ورنہ اسلام اور ترقی لازم و ملزوم ہیں ۔۔۔ اس آیت کے مطابق تمام مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ تمام جدید آلات میں اتنی ترقی کریں کہ اگر مسیحی اقوام سے سبقت نہ لے سکیں تو کم از کم مساوی ضرور ہوں اور عالم اسلام اس کے لیے اپنی پوری قوت استعمال کرے " ( ماہنامہ الحق اکوڑہ خٹک ستمبر 1967 ص 22)
اسلام اور جدت پسندی سے اقتباس
(مفتی تقی عثمانی مدظلہم ص ۲۹

Ilyas Mohammad Hussain
About the Author: Ilyas Mohammad Hussain Read More Articles by Ilyas Mohammad Hussain: 475 Articles with 447457 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.