غذائی عدم تحفظ،زرعی ملک میں بھوک کا بڑھتا ہوا خطرہ
(Ghulam Murtaza Bajwa, Lahore)
|
ایوان اقتدارسے |
|
پاکستان ایک زرعی ملک ہے، جہاں کی زمینیں زرخیز ہیں، پانی کی بڑی نہریں موجود ہیں، موسمی حالات سازگار ہیں، اور آبادی کا بڑا حصہ دیہی علاقوں میں رہتا ہے۔ مگر اس سب کے باوجود اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت (FAO) کے حالیہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی 38 فیصد آبادی غذائی عدم تحفظ کا شکار ہے۔ یہ محض ایک عددی رپورٹ نہیں، بلکہ اس کے پیچھے کروڑوں انسانوں کی بھوک، افلاس، محرومی، اور بقاء کی جنگ کی کہانیاں چھپی ہیں۔پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جن کی معیشت کی بنیاد زراعت پر ہے۔ کپاس، گندم، چاول، مکئی اور گنا یہاں کی اہم فصلیں ہیں۔ مگر جب ہم اپنے کسان کی حالتِ زار دیکھتے ہیں یا عام شہری کی دسترخوان پر نظر دوڑاتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ کہیں کوئی بہت بڑی غلطی ہو رہی ہے۔ ملک میں غذائی عدم تحفظ کی کئی وجوہات ہیں، جن میں سب سے نمایاں وجہ عام آدمی کی کم معاشی سکت ہے۔ مہنگائی کا طوفان مسلسل شدت اختیار کر رہا ہے، جبکہ اجرتیں اس رفتار سے نہیں بڑھ رہیں۔ ایک دہائی پہلے جہاں بیروزگاری کی شرح ڈیڑھ فیصد تھی، آج وہ سات فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ ایک طرف بیروزگاری، دوسری طرف کم آمدنی اور تیسری جانب آسمان سے باتیں کرتی قیمتیں —یہ سب عوامل ایک عام آدمی کو معیاری خوراک سے محروم کر رہے ہیں۔دیہی پاکستان، جو کہ مجموعی آبادی کا تقریباً 63 فیصد ہے، غذائی عدم تحفظ کا سب سے بڑا شکار ہے۔ یہاں خوراک کی دستیابی کم ہے، خریدنے کی سکت اور بھی کم۔ غربت، بیروزگاری، کمزور صحت کا ڈھانچہ، ناقص تعلیمی سہولیات، اور بنیادی انفراسٹرکچر کی کمی نے دیہی عوام کو ایک دائرہِ محرومی میں جکڑ رکھا ہے۔دیہی علاقوں میں خاص طور پر خواتین اور بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔ حاملہ خواتین کو ضروری غذائیت نہیں ملتی، جس کا براہ راست اثر نوزائیدہ بچوں کی صحت پر پڑتا ہے۔ نتیجتاً پاکستان میں کم وزن بچوں کی شرح خطرناک حد تک بڑھ رہی ہے۔ یونیسیف کے مطابق پاکستان میں پانچ سال سے کم عمر بچوں کی 40 فیصد تعداد دائمی غذائی قلت کا شکار ہے۔ غذائی عدم تحفظ کا مطلب صرف پیٹ بھرنے کے لیے خوراک نہ ہونا نہیں بلکہ مناسب، محفوظ، متوازن اور صحت بخش غذا تک رسائی کا نہ ہونا ہے۔ اگر کسی خاندان کے پاس صرف دال اور روٹی کی استطاعت ہے، اور وہ گوشت، دودھ، پھل یا سبزیوں سے محروم ہیں تو یہ بھی ایک قسم کی غذائی محرومی ہے۔آج کل کے شہری خاندان بجلی، گیس، کرائے اور بچوں کی فیسوں میں الجھ کر رہ گئے ہیں۔ جب ایک سرکاری ملازم یا نجی ادارے میں کام کرنے والا شخص اپنی آمدن کا 80 فیصد حصہ یوٹیلیٹی بلز، کرائے اور بنیادی اخراجات پر خرچ کر چکا ہوتا ہے، تو اس کے پاس صحت بخش خوراک کے لیے بچتا ہی کیا ہے؟ حکومت پاکستان نے حالیہ برسوں میں غذائی تحفظ کے حوالے سے متعدد اقدامات کیے ہیں۔ ان میں سب سے نمایاں احساس راشن رعایت پروگرام، بی آئی ایس پی (بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام)، اور کسان کارڈ جیسے منصوبے شامل ہیں۔ ان کا مقصد غریب طبقے کو براہ راست ریلیف دینا، سستی خوراک کی فراہمی ممکن بنانا، اور زراعت کے شعبے کو سہارا دینا ہے۔مزید برآں، حکومت نے حالیہ بجٹ میں زرعی شعبے کے لیے سبسڈی، چھوٹے کسانوں کے لیے بلا سود قرضے، اور بیج و کھاد پر مالی رعایت کا اعلان بھی کیا ہے۔ پنجاب حکومت کی جانب سے ”ریلیف بازار“ اور ”سبسڈی پر آٹا اسکیم“بھی ایک اچھی کوشش ہے۔ مگر یہ بھی سچ ہے کہ ان اسکیموں کا دائرہ کار محدود ہے، اور اکثر اوقات شفافیت اور مستقل مزاجی کی کمی کے باعث یہ اپنی مکمل افادیت نہیں دکھا پاتیں۔زرعی تحقیق، جدید ٹیکنالوجی، پانی کے انتظام، اور فصلوں کی پیداوار بڑھانے پر خاص توجہ دی جائے۔ کسانوں کو بروقت کھاد، بیج اور زرعی مشینری فراہم کی جائے۔ زمینوں کی غیر منصفانہ تقسیم اور جاگیردارانہ نظام کسان کی خودمختاری میں رکاوٹ ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ چھوٹے کسانوں کو زمینوں کی فراہمی کے لیے اصلاحاتی پالیسی اپنائے۔جب لوگوں کے پاس آمدن کے وسائل ہوں گے تو وہ خوراک خریدنے کے قابل ہوں گے۔ اس کے لیے چھوٹے و درمیانے درجے کے کاروبار، ہنرمندی کے پروگرام، اور نجی سرمایہ کاری کو فروغ دینا ہوگا۔ناجائز منافع خوری، ذخیرہ اندوزی اور مصنوعی قلت کو روکنے کے لیے حکومتی کنٹرول ضروری ہے۔ ایک موثر پرائس کنٹرول نظام نافذ ہونا چاہیے۔غذائی تحفظ کے حوالے سے عوام میں شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ متوازن غذا، بچوں کی غذائی ضروریات، اور خوراک کے ضیاع سے بچاؤ کے بارے میں معلومات عام کرنا ناگزیر ہے۔ عالمی سطح پر غذائی عدم تحفظ سے نمٹنے کے لیے ”فوڈ بینک“ کا تصور تیزی سے پھیل رہا ہے۔ پاکستان میں بھی غیر سرکاری اور سرکاری شراکت سے بڑے پیمانے پر فوڈ بینک قائم کیے جانے چاہیں۔جب ملک کا نوجوان روزگار سے محروم ہو، ماں بچے کو دودھ کی جگہ چینی ملا پانی دے رہی ہو، مزدور دو وقت کی روٹی کے لیے سارا دن کھیتوں یا بھٹوں پر مزدوری کرے، اور شہر میں ملازم صرف پیٹرول اور بلوں کی قیمتوں پر پریشان ہو تو یہ کسی بھی حکومت کے لیے لمحہ فکریہ ہونا چاہیے۔معاشی ترقی کے تمام منصوبے، ٹیکنالوجی کے تمام خواب، اور دنیا میں پاکستان کا ''امیج'' بہتر بنانے کی تمام کوششیں اس وقت بے معنی ہو جاتی ہیں جب اپنے ہی ملک میں کروڑوں لوگ بھوکے سوتے ہوں۔حکومت پاکستان اگر اپنی پالیسیوں میں دیہی ترقی، زراعت کی بہتری، اور غربت کے خاتمے کو مرکزی حیثیت دے، اور ان پر مستقل، شفاف اور دیانت دارانہ عمل درآمد کو یقینی بنائے تو حالات بدل سکتے ہیں۔ ہمیں وہ پاکستان چاہیے جہاں ہر بچہ پیٹ بھر کر کھانا کھائے، ہر ماں کو اپنے بچے کے لیے دودھ میسر ہو، اور ہر مزدور کو اتنی اجرت ملے کہ وہ باعزت زندگی گزار سکے۔ پاکستان میں غذائی عدم تحفظ ایک سنجیدہ اور فوری توجہ کا متقاضی مسئلہ ہے۔ یہ صرف بھوک کا مسئلہ نہیں بلکہ قومی سلامتی، انسانی ترقی، اور مستقبل کی نسلوں کے تحفظ سے جڑا ہوا معاملہ ہے۔ حکومت کی موجودہ پالیسیاں اگر درست انداز میں، نچلی سطح تک پہنچائی جائیں اور ان میں تسلسل رکھا جائے تو ہم اس بحران سے نکل سکتے ہیں۔ بصورتِ دیگر، ایک زرعی ملک کے شہریوں کا بھوک سے تڑپنا نہ صرف افسوسناک ہے بلکہ یہ ریاست کے لیے ایک اخلاقی اور آئینی ناکامی بھی ہے۔
|