#العلمAlilm سُورَۃُالنجم ، اٰیت 49 تا 62 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرے ہیں !!
برائے مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
و انہ ھو
رب الشعرٰی 49
و انہ اھلک عاد الاولٰی
50 و ثمود فما ابقٰی 51 و
قوم نوح من قبل انھم کانواھم
اظلم و اطغٰی 52 والموتفکۃ اھوٰی 53
فغشہا ما غشٰی 54 فبای اٰلاء ربک تتمارٰی
55 ھٰذا نذیر من نذرالاولٰی 56 ازفۃ الاٰزفۃ
57 لیس لھا من دون اللہ کاشفۃ 58 افمن ھٰذا
الحدیث تعجبون 58 و تضحکون ولا تبکون 60
و انتم سٰمدون 61 فاجدوا للہ و اعبدوا 62
اے ہمارے رسُول ! انسان کا ابتدائے شعُور ، انسان کا اِنتہائے شعُور ،
انسان کا اِرتقائے شعُور اور انسان کا ابتلائے شعُور اللہ کی اُس مشیت کے
تابع ہے جو مشیت انسان کی تقدیر و تدبیر کو انسانی شعُور کے تابع بناتی ہے
اور انسانی شعُور کو اپنی وحی کے تابع بناتی ہے اِس لئے جو لوگ اپنی تقدیر
و تدبیر کو اور اپنے شعُور و لا شعُور کو وحی کے اِس نُور میں لے آتے ہیں
وہ اسی طرح اللہ کی حفاظت میں آجاتے ہیں جس طرح آسمان میں ستارہ شِعرٰی
سمیت آسمان کے سارے تارے اور سیارے اللہ کی حفاظت میں ہیں اور جو لوگ قومِ
نُوح و قومِ عاد و ثمُود کی طرح ظالم اور قومِ لُوط کی طرح سر کش ہوجاتے
ہیں تو وہ بھی اسی طرح خُدا کے ناگہانی عذاب کا شکار ہو جاتے ہیں جس طرح
اقوامِ ماضی کے وہ سارے لوگ خُدا کے ناگہانی عذاب میں کا شکار ہوئے تھے ،
تاریخ کے یہ عبرت ناک واقعات سنانے کے بعد آپ اپنے عہدِ کے لوگوں سے
پُوچھیں کہ آخر تُم لوگ خُدا کی کس کس قُوت اور کس کس قُدرت کا انکار کرو
گے کیونکہ اِن لوگوں پر بھی ہلاکت کی وہی گھڑی آچکی ہے جس کو صرف اِن کی
توبہ ہی ٹال سکتی ہے توبہ کے سوا کے سوا کوئی شئ نہیں ٹال سکتی اِس لئے آپ
اِن لوگوں کو یہ بھی بتا دیں کہ آج تُم ہماری جن باتوں پر تعجب کر رہے ہو
آنے والے وقت میں جب یہ باتیں ایک حقیقت بن کر تُمارے سامنے آئیں گی تو
تُمہاری توبہ کا وقت تُمہارے ہاتھ سے نکل چکا ہو گا اور آج تُم ہماری جن
باتوں پر ہنس رہے ہو آنے والےکَل تُم ہماری اِن باتوں کو یاد کر کے رویا
کرو گے اِس لئے تُم توبہ و رجوع الی الحق کے اسی حاضر وقت میں توبہ کر کے
اللہ کے اُحکامِ نازلہ کےسامنے جُھک جاو !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اِس سُورت کا آغازِ کلام آسمانی نُور کے کاہکشانی نشانات اور آسمانی وحی کی
نُورانی اٰیات سے کر کے قُرآن نے انسان کو یہ بتایا تھا کہ جس طرح تُمہارے
صحرا کی تاریک شب میں ہمارے آسمان کے نُورانی ستارے تُمہاری ہمیشہ راہ
نُمائی کرتے ہیں اسی طرح تُمہارے دل کے تاریک صحرا میں ہماری آسمانی وحی کے
نُورانی ہدایت پارے بھی تُمہاری ہمیشہ راہ نُمائی کرتی ریتے ہیں ، اللہ
تعالٰی کے یہ دونوں آسمانی نُور اللہ تعالٰی کے وہ راہ نُما حُکم ہیں جو
راہ نُما حُکم اللہ تعالٰی کے ایک راہ نُما حُکم سے تُم پر ظاہر کیئے گئے
ہیں ، تُم پر ہمارے ایک نُور کے ظہور کا مقصد زمین میں تُمہارے چلنے پھرنے
کے راستے کو اِس طرح روشن کرنا ہے کہ تُم سہولت کے ساتھ زمین کے ایک مقام
سے چل کر زمین کے دُوسرے مقام تک پُہنچ سکو اور تُم پر ہمارے دُوسرے نُور
کے ظہور کا مقصد تُمہارے تاریک دل کو اِس طرح روشن کرنا ہے کہ تُم آسانی کے
ساتھ ہمارے اَحکامِ وحی کی روشنی میں اپنے اِس عارضی جہان سے نکل کر اپنے
اُس دائمی جہان میں پُہنچ سکو جو ہماری رحمت کی ایک ابتدائی اور تُمہاری
راحت کی ایک دائمی و انتہائی منزل ہے ، اِس سُورت کے اِس پہلے مضمون کا
مرکزی خیال سیدنا محمد علیہ السلام کی معراجِ وحی ، آپ کی معراجِ وحی کا
مقامِ وحی اور اُس مقامِ وحی پر پُہنچ کر آپ پر نازل ہونے والی وہ مُکمل
وحی ہے جس مُکمل وحی نے نزولِ وحی کی اُن تمام باطل روایات کو باطل کردیا
ہے جو باطل روایات اہلِ روایت نے نزولِ وحی کے حوالے سے بیان کی ہیں ، اِس
سُورت کے اِس پہلے مضمون کے بعد وسطِ سُورت کے وسطِ مضمون میں انسان کو اِس
اَمر کی طرف متوجہ کیا گیا ہے کہ وہ اپنے صحرا کے سفر میں تو ہمارے ستاروں
کی روشنی سے ابھی بھی فائدہ اُٹھا رہا ہے لیکن اپنے دل کی تاریکی کو دُور
کرنے کے لئے اُس نُورِ وحی سے کوئی فیض حاصل کرنے سے محروم ہے جو نُور وحی
اُس پر نازل کیا گیا ہے اور اِسی لئے ابھی بھی وہ لات و منات اور عُزٰی نام
کے اُن بے جان بتوں کی پُوجا کر رہا ہے جو بے جان بُت اُس نے اپنے ہاتھوں
سے بنائے ہیں اور اُن بے جان بتوں نے اُس کے لئے کوئی چیز بھی نہیں بنائی
ہے کیونکہ وہ بُت اُس بے بس انسان سے بھی کہیں زیادہ بے بس ہیں جو بے بس
انسان اُن بتوں کو اپنے ہاتھ سے بنانے کی قُدرت رکھتا ہے ، اِس سُورت کے
اِن دو مضامین کے بعد اِس سُورت کے آخری مضمون کے پہلے حصے میں انسانی
تقدیر اور انسانی تدبیر پر ایک علمی بحث کی گئی ہے اور اُس علمی بحث کے بعد
اَب اِس مضمون کے دُوسرے حصے کا اُس لفظِ { شِعرٰی } پر خاتمہِ کلام کیا جا
رہا ہے جو لفظِ شِعرٰی اپنی لفظی ساخت کے اعتبار سے بعض اہلِ علم کے نزدیک
اسمِ عَلم اور بعض کےنزدیک اسمِ مصدر ہے ، جن اہلِ علم نے اِس لفظ کو اسمِ
علَم مانا ہے اُن کے نزدیک تو یہ وہی مشہور ستارہ ہے جس کو اہلِ مشرق الکلب
الاکبر ، الکلب الجبار ، الشعری العبور اور مرزم الجوزاء کہتے ہیں اور اہلِ
مغرب اِس کو Dog Star اور Siris وغیرہ کے اسماء سے موسوم کرتے ہیں ،
عُلمائے سائنس کا خیال ہے کہ یہ ستارہ سُورج سے اکیس درجے زیادہ بڑا اور
اکیس درجے زیادہ روشن ہے اور زمین سے 6 ء 8 نُوری سال کے فاصلے پر واقع ہے
اور فلک پر یہ ستارہ ہمیشہ جوزا کے روشن ہونے کے بعد روشن ہوتا ہے ، قدیم
مصری چونکہ اِس ستارے کو اپنا آسمانی دیوتا کہہ کر اِس کی پُوجا کیا کرتے
تھے اِس لئے اہلِ مصر کو دیکھ کر اہلِ عرب بھی اِس کی پُوجا کرنے لگے تھے ،
اِس اعتبار سے اِس ستارے کا بُت ہونا قابلِ فہم ہے کہ اِس مضمون سے پہلے جس
مضمون میں اہلِ عرب کے جن تین زمینی بتوں لات و منات اور عُزٰی کا نام لے
کر ذکر کیا گیا تھا اور اِن کے بعد نام لئے بغیر اُن کے آسمانی بتوں میں سے
زُہرہ و مُشتری وغیرہ کا ذکر بھی کیا گیا تھا اور اَب اِس مضمون کے خاتمہِ
کلام پر اُن کے ایک اور آسمانی بُت کا ذکر کرکے اُن بتوں اور اُن بُت
پرستوں کا یہ اَحوال مُکمل کر دیا گیا ہے لیکن جن اہلِ علم نے شِعرٰی کو
اسمِ مصدر مانا ہے اُن کے نزدیک شِعرٰی کا جو مصدر { شعر } ہے اُس سے مُراد
کوئی آسمانی ستارہ نہیں ہے بلکہ اُس سے مُراد انسانی شعُور ہے اور اِس
مضمون میں انسان کے اِس شعور کا ذکر کر کے انسان کے فکر و شعور سے یہ
مُنصفانہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ عقل و شعور سے عاری ہو کر جو بُت پرستی
کررہا ہے اُس پر نظر ثانی کرے اور خدائے واحد کا نا گہانی عذاب آنے سے پہلے
ہی خُدائے واحد کے سامنے سرنگوں ہوجائے تاکہ اُس پر رحم کیا جائے اور اُس
کو آنے والے اُس ناگہانی عذاب سے بچا لیا جائے جس نے اچانک آنا ہے اور اُس
نے ہر مُشرک و بد کار انسان کو خس و خا شاک کی طرح اپنے بہاو میں بہا کر لے
جانا ہے !!
|