جون 1992 ٹنڈو بہاول سندھ کے گاؤں میں حاضر سروس میجر
ارشد جمیل نے پاک فوج کے دستے کے ساتھ چھاپہ مار کر 9 کسانوں کو گاڑیوں میں
بٹھایا اور جامشورو کے نزدیک دریائے سندھ کے کنارے لے جا کر قتل کر دیا،
فوج نے الزام لگایا کہ یہ افراد دہشت گرد تھے۔الزام لگایا کہ یہ افراد
دہشت گرد تھے انکا تعلق بھارت کے ادارے ریسرچ اینڈ اینالائسس ونگ سے
تھا۔لاشیں گاؤں آئیں تو نہ صرف گاؤں بلکہ پورے علاقے میں کہرام مچ گیا ہر
ماں اپنے بیٹے کی لاش پر ماتم کر رہی تھی ان کے بین دل دہلا رہے تھے۔
خاموشی سے میتیں دفنانے کا مشورہ دیا گیا قاتل طاقتور ہیں، کسانوں کا ان سے
کیا مقابلہ،مائی جندو کو رونے کے لیے کہا گیا تو اس نے وحشت ناک نگاہوں سے
میتیوں کی طرف دیکھا اور بولی بس ! مائی جندو ایک ہی بار روئے گی,جب بیٹوں
کے قاتل کو پھانسی کے پھندے میں لٹکتا دیکھے گی۔
سب جانتے تھے ایسا ممکن نہیں تھا مگر جنازے اٹھے تو مائی جندو نے سر کی
چادر کمر سے باندھی سیدھی کھڑی ہوئی بیٹوں کو الوداع کیا،،مسئلہ یہ تھا کہ
یہ ٹنڈو بہاول(سندھ)دریائے سندھ کے کنارے پر قتل ہونے والوں کی ویڈیو بنانے
کے لیے موبائل کیمرہ بھی نہیں آیا تھا۔
خبر چلی کہ دشمن کے ایجنٹ مار کر ملک کو بڑے نقصان سے بچا لیا گیا۔جس نے
پڑھا سُنا اس نے شکر کیا۔جب سارا ملک شکرانہ ادا کر رہا تھا تب مائی جندو
نے احتجاجی چیخ ماری۔اس چیخ نے پرنٹ میڈیا کی سماعتیں چیر کے رکھ دیں،
مائی جندو بوڑھی تھی جسمانی لحاظ سے کمزور مگر وہ 3 مقتولوں کی ماں تھی اس
نے اپنی دو بیٹیوں کو ساتھ لے کر قاتلوں کے خلاف اعلان جنگ کر دیا، سوشل
میڈیا کی غیر موجودگی میں یہ جنگ آسان نہ تھی مگر نقارے بج چکے تھے کشتیاں
جل چکی تھیں اور واپسی محال تھی۔
اخباروں اور صحافیوں کے ہمراہ مائی جندو نے اس چیخ کو طاقتی مراکز کے سینوں
میں گھونپ دیا، پہلی جھڑپ ختم ہوئی اور گرد چھٹی تو معلوم ہوا کہ قتل ہونے
والے دہشت گرد نہ تھے بلکہ میجر ارشد جمیل کا ان کے ساتھ زرعی زمین کا
جھگڑا تھا، جس کی سزا میں انہیں قتل ہونا پڑا تھا۔
24 جولائی 1992 کو جنرل آصف نواز نے نواز شریف سے ملاقات کی جس میں یہ
معاملہ زیر غور آیا اور جنرل آصف نواز نے میجر ارشد جمیل کا کورٹ مارشل
کرنے کا حکم دے دیا، 29 اکتوبر کو فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے میجر ارشد جمیل
کو سزائے موت اور 13 فوجی اہلکاروں کو عمر قید کی سزا سنائی.
سپہ سالار نے رحم کی اپیل 14 ستمبر 1993 کو مسترد کی،اسکے بعد رحم کی اپیل
صدر فاروق لغاری سے کی گئی جو 31 جولائی 1995 کو مسترد ہوئی لیکن سزا پر
عمل درآمد روک دیا گیا،میجر کے بھائی کی اپیل پر سپریم کورٹ کے جج سعید
الزمان صدیقی نے حکم امتناع جاری کیا اور سزا روک دی۔
سزائے موت پر عمل نہ ہونے پر 11 ستمبر 1996 مائی جندو پھر میدان میں
نکلی۔اسکی 2 بیٹیوں نے حیدرآباد پریس کلب کے سامنے تیل چھڑک کر خود کو آگ
لگا کر جان دے دی۔ملک میں ایک بار پھر کہرام مچ گیا، بالآخر 28 اکتوبر 1996
کو طاقت کی دیواریں مائی جندو کے مسلسل دھکوں کے سامنے ڈھیر ہوگئیں۔
حیدر آباد سنٹرل جیل میں مائی جندو کو لایا گیا،سامنے تختہ دار پر اسکے
گاؤں کے 9 بیٹوں کا قاتل میجر ارشدکھڑا تھا.تختہ دار کھینچا گیا قاتل میجر
ارشد جمیل کا جسم جھول گیا،سامنے کھڑی مائی جندو کی بوڑھی مگر زورآور آنکھ
سے ایک اشک نکلا اسکے رخسار کی جھریوں میں تحلیل ہوگیا.۔مائی جندو تمہیں
دنیا کے تمام کمزور اور مظلوم سلام کرتے ہیں ــ!
|