|
|
اللہ تعالیٰ کی ذات صبر کرنے والوں کو بڑا اجر دیتی ہے
مگر ہم اس کی حکمت سے ناواقف ہوتے ہیں- ایک ماں کے لیے اپنی اولاد کو کھو
دینے سے بڑا غم کوئي اور نہیں ہوتا ہے اور پے در پے ایک کے بعد ایک اولاد
کو کھو دینے کا غم قیامت ٹوٹ پڑنے کے مترادف ہوتا ہے- |
|
گجرات میں ایک کے بعد
ایک بچہ کھو دینے والی ماں |
گزشتہ روز گجرات کے علاقے جیل چوک میں واقع الشفا ہسپتال
میں ایک ماں نے پیدائش کے دوران کسی پیچیدگی کے سبب بچے کی پیدائش کے وقت
ہی اس کی موت کے سانحے سے گزر رہی تھی- |
|
نو ماہ تک بچے کو اپنے رحم میں رکھ کر اس کے بعد اس کے بے جان وجود کو خود
سے جدا کرنے کے دکھ کو ایک ماں ہی سمجھ سکتی ہے- اولاد کو کھو دینے کے صدمے
سے بے حال ماں کو اس وقت زندہ رہنے کی امنگ ملی جب کہ اس کا تین سالہ فیضان
اس سے ملنے آیا اور اس نے ماں کے سینے سے لگ کر اس کو جینے کا حوصلہ دیا- |
|
|
|
بچے کو گلے لگا کر ماں
دوبارہ زندگی کی طرف لوٹ آئی |
فیضان کی توتلی زبان میں باتیں اور ماں سے اس کی محبت نے دکھی ماں کو اس
بات کا احساس دلایا کہ اس کی دنیا ابھی ختم نہیں ہوئي ہے اس نے دوبارہ سے
جینے کا ہمت اور حوصلہ کرنا ہے اوردوبارہ زندہ رہنے کی کوشش کرنی ہے- |
|
قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا |
ایک جانب ماں اپنے لعل کو گلے لگا کر دوبارہ سے ممتا کو تسکین دے کر زندگی
کے اس سفر کی جانب دوبارہ سے قدم بڑھا رہی تھی- مگر لعل ہسپتال کے باہر
موجود بغیر جنگلے کے برساتی نالے کی طرف قدم بڑھا رہا تھا جہاں اس کی موت
اس کی منتظر تھی- |
|
پیر پھسلنے سے فیضان اس نالے میں گرا اور معصوم فیضان اس نالے کی گہرائی
میں کہیں گم ہو گیا سب نے اس کو ڈھونڈنے اور بچانے کی کوششیں شروع کر دیں
تین گھنٹوں بعد جب فیضان ملا تو وہ زندگی کی بازی ہار چکا تھا- |
|
|
|
اس طرح سے ایک لاچار ماں میونسپل حکام کی لاپرواہی کے
سبب اپنے زندہ رہنے کی وجہ کو بھی کھو بیٹھی- ایک دن میں اپنے دو بچوں کے
جنازے اٹھانے والا باپ بے ساختہ یہ کہنے پر مجبور ہو گیا کہ چھوٹے جنازے
بہت بھاری ہوتے ہیں کاندھوں کو توڑ ڈالتے ہیں- |
|
حکام کی بے حسی کی ذمہ
داری کس پر ڈالی جائے |
فیضان کے لواحقین کا یہ کہنا ہے کہ فیضان کو بچایا جا
سکتا تھا اگر اس نالے پر جنگلا لگا ہوتا تو شائد وہ اس میں نہ گرتا- لیکن
کاتب تقدیر کے لکھے کو مٹانا ممکن نہیں ہے بس اگر مگر کی کسک ہی انسان کی
زندگی کے ساتھ رہ جاتی ہے- |