مرتب:۔ڈاکٹر حمیرا ناز غوری
" />

"علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی ،اسلامیان ھند کا ایک تہذیبی ورثہ"

"علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی ،اسلامیان ھند کا ایک تہذیبی ورثہ"
مرتب:۔ڈاکٹر حمیرا ناز غوری
"علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی ،اسلامیان ھند کا ایک تہذیبی ورثہ"
مرتب:۔ڈاکٹر حمیرا ناز غوری
مولانا سعید احمد اکبرآبادی(1907-1985)ہندوستان کے ایک روشن خیال عالم تھے،انھوں نے کم و بیش پچاس سال تک تدریسی،تعلیمی، تصنیفی وصحافتی خدمات انجام دیں۔ ان کے قلم سے مختلف علمی وادبی موضوعات پرایک درجن سے زائد کتابیں منظر عام پر آئیں، جنھیں اہلِ علم و ادب کے حلقے میں غیر معمولی پذیرائی حاصل ہوئی ۔ان کا اسلوبِ تحریر نہایت شستہ و رفتہ، خوب صورت و نستعلیق تھا،وہ دبستانِ شبلی کے خوشہ چینوں میں تھے۔
انھوں نے آزادی سے قبل دارالعلوم دیوبند سے عربی و اسلامی علوم میں فضیلت، اورینٹل کالج لاہور سے منشی فاضل، پھر سینٹ اسٹیفن کالج دہلی یونیورسٹی سے ایم اے کیا اوراس کے بعد اسی کالج میں انھیں لیکچرر مقررکیاگیا۔آزادی کے بعد مولانا ابوالکلام آزاد کی ہدایت پروہ مدرسہ عالیہ کلکتہ کے ذمے دار بناکر بھیجے گئے،جہاں 1959ء تک خدمات انجام دیں، اس کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے ان کی خدمات حاصل کرلی،جہاں انھوں نے دینیات فیکلٹی کاسربراہ رہے۔ انھیں کیرالہ سمیت افریقہ و یورپ،عراق وایران اور ماریشس و پاکستان کی متعدد دانش گاہوں اور تعلیمی و تحقیقی اداروں میں بطور وزیٹنگ پروفیسراورمحاضر بھی مدعو کیا گیا۔
مولانا سعید احمد اکبرآبادی نے تاریخ اور مذہبیات پر کئی اہم کتابیں تحریر کیں، جنھیں عالمی سطح پر پذیرائی و شہرت حاصل ہوئی،کئی کتابوں کے ترجمے کیے جو ہندوستان،بنگلہ دیش، پاکستان وغیرہ کی یونیورسٹیوں میں داخلِ نصاب رہیں۔
1938ء میں انھوں نے اپنے متعدد علمی رفقاکے ساتھ مل کر ’’ندوۃ المصنفین‘‘کی شکل میں ایک علمی، تصنیفی و تحقیقی ادارہ شروع کی۔اوروہ اس ادارے کے ترجمان ماہنامہ’’برہان‘‘کے ایڈیٹر بنائے گئے۔برہان میں مولانا اکبرآبادی کے اداریے،جو وہ ’’نظرات ‘‘اہم،فکر انگیز اور معاصر مسائل وموضوعات پر بے لاگ تبصرے کی حیثیت رکھتے تھے۔ انھوں نے اس رسالے میں مختلف علمی موضوعات پرمفصل و مبسوط مقالات بھی تحریر کیے،جو کئی قسطوں میں شائع ہوئے اور بعد میں وہ کتابی شکل میں بھی ندوۃ المصنفین سے چھپے۔ان کی تصانیف میں "فہمِ قرآن"، "غلامانِ اسلام"، "صدیقِ اکبر" اور "مسلمانوں کا عروج و زوال" شامل ہیں۔ ان کا انتقال 24 مئی 1985ء کو کراچی میں ہوا۔
"علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی ،اسلامیان ھند کا ایک تہذیبی ورثہ"
محترم پروفیسر ڈاکٹر حافظ محمد سہیل شفیق صاحب(صدرنشین شعبہ اسلامی تاریخ،جامعہ کراچی،کراچی) کی جانب سے گزشتہ دنوں موصول ہونے والا علمی تحفہ پروفیسر ڈاکٹر حمیرا ناز غوری صاحبہ کی نئی تالیف ہے۔
مولانا سعید اکبرآبادی مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ کو اسلامیان ہند کا تہذیبی ورثہ قرار دیتے ہیں اور اس کو مسلمانوں کی تعلیم،ثقافت اور سیاست تینوں کی تربیت گاہ تصور کرتے ہیں۔اسی تناظر میں انہوں نے ایک مفصل مضمون "علی مسلم یونی ورسٹی ،اسلامیان ہند کا ایک تہذیبی ورثہ" کے عنوان سے برہان ،دہلی میں 17 اقساط میں لکھا۔یہ مفصل تاریخی جائزہ جو کہ قبل از تقسیم و بعد از تقسیم کے جائزے پر مشتمل ہے۔ دراصل یونی ورسٹی سے متعلق ان کے احساسات وجذبات کا ترجمان اور ان کی عقیدت و محبت کا اظہار بھی ہے۔جس میں انہوں نے سرسید کی عظمت اور ان کی قائدانہ صلاحیت کا اعتراف کیا ہے اور ان کی شخصیت وتعلیمی اور تہذیبی کارناموں کا تفصیلی احاطہ کے ساتھ ان کے ملی اور دینی جذبات کو بھی بیان کیا ہے۔ اپنے مضمون میں یونی ورسٹی کے تقسیم کے بعد کے جو حالات مولانا نے لکھے وہ ان کے ذاتی مشاہدے و تجربے کے عکاس اور نصف صدی کے مشاہدات کا نتیجہ ہیں۔
مولانا کے یہ مضامین جولائی 1972 تا اپریل 1974ء تک کے دورانیے پر مشتمل ہیں۔جنہیں محترمہ ڈاکٹر حمیر ناز غوری صاحبہ نے یکجا کرکے کتابی شکل دی ہے۔کتاب کا مقدمہ علی مسلم یونی ورسٹی شعبہ عربی کے صدر جناب پروفیسر ڈاکٹر ابوسفیان اصلاحی صاحب نے "اسلامیان ہند، تاریخی دستاویز" کے عنوان سے لکھا ہے۔جس میں وہ ڈاکٹر حمیرا ناز غوری صاحبہ کی اس کوشش و کاوش کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:"حمیرا ناز کی یہ کاوش اہل علی گڑھ کے لیے مژدہ حیات ہے ۔ڈاکٹر صاحبہ کو مولانا اور مولانا کے شہر تمنا علی گڑھ سے گہری وابستگی ہے اسی جذباتی لگاؤ کے سبب احقر ڈاکٹر صاحبہ کا دلی قدرداں ہے۔۔۔۔ اور ان کی مزید تعمیری تصنیف و تحریر کے دست بدعا ہے۔"
ڈاکٹر ابوسفیان اصلاحی لکھتے ہیں کہ" سر سید کے شخصی اور فکری پہلوؤں سے مترشح ہے کہ سیادت و قیادت کے تمام تر اقدار ان کے اندر موجود تھے لیکن اس کا ہرگز یہ مفہوم نہیں کہ وہ بشریت سے بالاتر تھے۔بغیر کسی تذبذب کے کہا جاسکتا ہے کہ قرآنیات اور اسلامیات کے حوالے سے ان سے بعض فاش غلطیاں ہوئیں ۔"
کتاب کے سرسری جائزہ سے ایک پہلو یہ بھی سامنے آیا ہے کہ جا بہ جا سرسید پہ تنقید بھی موجود ہے۔ مگر کمال یہ ہے کہ ڈاکٹر ابو سفیان اصلاحی نے مولانا سعید احمد اکبر آبادی کو سرسید شناس اور حقیقت پسند ہی لکھا ہے، انھیں کسی قسم کے نازیبا القاب سے موسوم نہیں کیا۔ کیوں کہ کسی کے فکری معائب کو اجاگر کرنا دراصل اس شخصیت کی دریافت ہی ہے۔
"علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی ،اسلامیان ھند کا ایک تہذیبی ورثہ" علی گڑھ کی تہذیبی اہمیت پر ایک بہترین کتاب ہے، جسے ظاہری و معنوی محاسن سے آراستہ کرکے آفسٹ کاغذ پر ، سادہ مگر دیدہ زیب سرورق کے ساتھ" جہان حمد پبلی کیشنز، کراچی"کے تحت شائع کیا گیا ہے۔304 صفحات کی کتاب 600 روپے میں " دفتر شعبہ تاریخ اسلامی، جامعہ کراچی "سے حاصل کی جاسکتی ہے۔
ہم جناب پروفیسر ڈاکٹر حمیرا نا زغوری صاحبہ کو اس کتاب کی تدوین و اشاعت پر مبارکباد پیش کرتے ہیں اور اپنے دیرینہ کرم فرما پروفیسر ڈاکٹر حافظ محمد سہیل شفیق صاحب(صدرنشین شعبہ اسلامی تاریخ،جامعہ کراچی،کراچی)کے اس گرانقدر عنایت پر دل سے مشکور ہیں۔

محمداحمد ترازی




M.Ahmed Tarazi
About the Author: M.Ahmed Tarazi Read More Articles by M.Ahmed Tarazi: 319 Articles with 358234 views I m a artical Writer.its is my hoby.. View More