#العلمAlilmعلم الکتابسورةالقمر ، آیت 1 تا 17
اخترکاشمیری
علم الکتاب اردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ افراد استفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
آیات و مفہومِ آیات !!
اقتربت
الساعة وانشق
القمر 1 و ان یروا
آیة یعرضوا و یقولوا
سحر مستمر 2 وکذبوا
و اتبعوا اھوا۶ھم و کل امر
مستقر 3 ولقد جا۶ھم من الانبا۶
مافیہ مزدجر 4 حکمة بالغة فما تغن
النذر 5 فتول عنھم یوم یدع الداع الی
شئ نکر6 خشعاابصارھم یخرجون من الا
جداث کانہم جراد منتشر 7 مھطعین الی الداع
یقول الکفرون ھذا یوم عسر 8 کذبت قبلھم قوم
نوح فکذبوا عبدنا وقالوا مجنون وازدجر 9 فدعا ربہ
انی مغلوب فانتصر 10 ففتحنا ابواب السما۶ بما۶ منھمر
11 وفجرنا الارض عیونا فالتقی الما۶ علی امر قد قدر 12
وحملنہ علی ذات الواح ودسر 13 تجری باعیننا جزا۶ لمن کفر
14 ولقد ترکنھا آیة فھل من مدکر 15 فکیف کان عذابی ونذر
16 ولقد یسرنا القرآن للذکر فھل من مدکر 17
زَبر دستوں کی پستی اور زیر دستوں کی بالا دستی کا وہ انقلاب دستک دے چکا
ہے جو مشرکین کے اِس چاند چڑھے پرچم کو اِس طرح ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا کہ اہلِ
مستقبل بھی اس کو اسی طرح ایک فریبِ خیال و نظر کہیں گے کہ جس طرح ماضی میں
اہلِ ماضی اِس انقلاب کو ماضی کا ایک کھلا ہوا جھوٹ کہتے رہے ہیں حالاں کہ
اِن لوگوں کے سامنے حق بھی آچکا ہے اور حق کی وہ حکمت و تنبیہ بھی آچکی ہے
جو ڈرنے والوں کو ڈرانے کے لئے کافی ہوتی ہے اور جب اِس انقلاب کے نتائج
سامنے آئیں گے اور اس انقلاب کا داعی اِن منکر لوگوں کو مبازرت کے لئے
میدانِ مبازرت میں بلائے گا تو یہ منکر لوگ اِسی طرح اِس کی طرف سر بخم ہو
کر آئیں گے جس طرح محشر میں قبروں کے مردے قبروں سے سرنگوں ہو کر حساب حیات
دینے کے لئے اپنے مالکِ حیات کی طرف سر بخم ہو کر آئیں گے ، ماضی کی اقوام
میں قومِ نوح کے وہ سرکش لوگ بھی حق کی دشمنی میں اسی طرح پیش پیش رہتے تھے
جس طرح عصرِ حاضر کے یہ دشمنانِ حق پیش پیش رہتے ہیں لیکن جب نوح نے اپنی
سر کش قوم کی سر کشی سے تنگ آکر اللہ سے اِس کی ہلاکت کی بد دعا کی تھی تو
اللہ نے نوح کی بد دعا قبول کر کے قومِ نوح کو آسمانی بارش اور زمینی آبِ
سیلاب میں ڈبو دیا تھا اور قومِ نوح میں نوح کے جو چند سَچے پیرو کار زندہ
بچے تھے ان کو اس سفینہِ نوح میں لا کر ہلاکت سے بچا لیا تھا جو سفینہ
ہمارے سامنے پانی پر چل رہا تھا اور ہماری حفاظت و نگرانی میں چل رہا تھا ،
ہم حق کے دشمنوں کو اسی طرح گرفت میں لیتے ہیں اور اسی طرح نشانِ عبرت
بنادیتے ہیں تاکہ ہر انسان جان لے کہ ہمارا ڈراوا کوئ بہلاوا نہیں ہوتا اور
اسی ليے ہم نے قرآن یاد کرنے والوں کے لئے قرآن کا یاد کرنا آسان بنا دیا
ہے تاکہ کوئی انسان اپنے عملِ خیر و شر کے نتائجِ خیر و شر سے بے خبر نہ رہ
جائے !
مطالبِ آیات و مقاصدِ آیات !
اِس سورت کے سابقہ کلمہِ تمہید اور آیاتِ بالا کے مفہومِ بالا کی کامل
تفہیم کے لئے سب سے پہلے اِس حقیقت کا ادراک لازم ہے کہ زمانے کے جس حال
میں جو گفت گو ہوتی ہے اس گفت گو کے اس حال سے پہلے ایک ماضی اور اس حال کے
بعد ایک مستقبل بھی ہوتا ہے اور زمانہِ حال میں جو گفت گو ہوتی ہے اُس
زمانہِ حال کی اُس گفت گو میں اُس کے ماضی و حال اور مستقبل کے تینوں زمانے
شامل ہوتے ہیں اور ان تین زمانوں کے صیغے بھی شامل ہوتے ہیں تاکہ اس سنی
گئی گفت گو کو سن کر اور اس لکھی گئی گفت گو پڑھ کر سننے اور پڑھنے والے کو
یقین کے ساتھ معلوم ہو جائے کہ اس کے سنے اور پڑھے ہوئے کلام میں جو گفت گو
کی گئی ہے وہ کس زمانے کے بارے میں کی گئی ہے اور کس پس منظر میں کی گئی ہے
، زبان و بیان کے اس ضاطے کے مطابق جب ہم آیاتِ بالا پر نگاہ ڈالتے ہیں تو
ہمیں یقین کے ساتھ معلوم ہوجاتا ہے کہ اِن آیات کے اِس موضوع کی پہلی آیت
کا مضمون اس آیت کا نفسِ مضمون ہے اور دیگر سولہ آیات اِس مضمون کے رَبطِ
کلام و تکمیلِ کلام کے اَجزائے کلام ہیں ، پہلی آیت میں لفظِ { الساعة } سے
پہلے جو پہلا صیغہ { اقترب } وارد ہوا ہے وہ ماضی معروف کا وہی صیغہ ہے جو
اِس سورت سے پہلے سورةالاعراف کی آیت 185 اور سورةالانبیا۶ کی آیت 1 میں
بھی وارد ہوا ہے اور اسی مفہوم و معنی کے ساتھ وارد ہوا ہے جو مفہوم و معنی
اس سورت کی اس آیت میں مراد ہے ، اقترب کا بنیادی مادہ { ق رب } ہے جو کسی
دُور کے مقام کی چیز کو کسی قریب کے مقام پر ظاہر کرنے کے لئے بولا جاتا ہے
اور اس صیغے کے بعد چونکہ لفظ { الساعة } آیا ہے اس لئے اہلِ روایت نے ماضی
کے اس صیغے کو بلا تکلف و بلا تردد مستقبل کی قیامت کے ساتھ جوڑ کر یہ
اعلان کر دیا ہے کہ چاند محمد علیہ السلام کی انگلی کے ایک اشارے سے کٹ کر
دو ٹکڑے ہو گیا ہے جس کے بعد قیامت کی گھڑی بھی سر پر آپہنچی ہے ، آیاتِ
بالا کی اسی پہلی آیت میں لفظِ { الساعة } کے بعد آنے والا جو دوسرا صیغہ {
انشق } ہے وہ بھی ماضی معروف ہی کا ایک صیغہ جس کا معنی کسی ثابت چیز کا
کسی سخت حادثے سے دو چار ہو کر ٹکڑے ٹکڑے ہوناہے ، انشق کا یہ صیغہ سورہَ
رحمٰن کی آیت 37 ، سورةالحاقة کی آیت 16اور سورةالانشقاق کی آیت 1 میں
آسمان کے پھٹنےکے معنی میں آیا ہے اور آسمان کی پھٹنے سے جو دو باتیں سمجھ
میں آتی ہیں اُن میں سے پہلی بات یہ ہے کہ آسمان ایک بلندی ہے اور آسمان کے
پھٹنے سے مراد آسمان کی بلندی کا پھٹنا نہیں ہے بلکہ آسمان کی بلندی میں
مُعلق ان چیزوں کا پھٹنا مراد ہے جن میں آسمان ک سارے چاند و سورج اور سارے
ستارے و سیارے شامل ہیں اور اِس سے جو دُوسری بات یہ سمجھ آتی ہے وہ یہ ہے
کہ کسی چیز کے پھٹنے اور کٹنے میں یہ فرق بھی ہوتا ہے کہ جو چیز پھٹتی ہے
اُس کا پھٹنا ایک حادثہ ہوتا ہے اور حادثے کے طور پر پھٹنے والی چیز ایک بے
ترتیبی کے ساٹھ پھٹتی ہے جبکہ جو چیز کٹتی ہے اس کو ایک علمی و عملی ارادے
کے ساتھ کاٹا جاتا ہے اور وہ کاٹے جانے والی چیز ایک ترتیب کے ساتھ کٹتی ہے
لیکن اہل روایت نے اپنے کسی خود. ساختہ الہامِ خیال کے ذریعے کفار کے
مطالبے کے بعد رسو ل اللہ کی انگشتِ مبارک کے ذریعے پہلے تو چاند کا دو
حصوں میں ترتیب کے ساتھ کٹنا مراد لیا ہے اور اس کے بعد قیامت قریب آنے کا
وہ اعلان کردیا ہے کہ جو قرآن کے الفاظ و منشا کے بھی خلاف ہے ، فطرت کے
نظام کے بھی خلاف ہے اور مُسلّمہ تاریخی مظاہرِ قُدرت کے بھی خلاف ہے
کیونکہ اگر اہل روایت کی روایت کے مطابق یہ واقعہ پانچ نبوی میں مکے کی سر
زمین پر پیش آیا ہوتا تو اہلِ مکہ اسلام قبول کر چکے ہوتے اور اس کے بعد نہ
تو ہجرت کی نوبت آتی اور نہ ہی وہ جنگیں ہوتیں جو اہل روایت نے بیان کی ہیں
، جہاں تک قرآن میں جگہ جگہ پر آنے والے لفظِ { الساعة } کا تعلق ہے اور اس
تعلق سے قیامت کا جو قریب ہونا مراد لیا جاتا ہے تو اُس کی حقیقت بھی صرف
یہ ہے کہ جس طرح انسان کے اسلوبِ کلام کی رُو سے انسان کی مقررہ عمر جو اُس
کے لَمحہِ تخلیق کی طرف سے بڑھ رہی ہوتی ہے تو وہ اُس کے لَحظہِ تدفین کی
طرف سے گھٹ بھی رہی ہوتی ہے اسی طرح دنیا کی عمر بھی اپنے آغاز کی طرف سے
بڑھ رہی ہے اور اپنے انجام کی طرف سے گھٹ رہی ہے ، قرآن نے بھی اسی مٙنطقی
اسلوبِ کلام کے مطابق قیامت کے دن کو قریب تر کہا ہے جس کا ہر گز یہ مطلب
نہیں ہے کہ انسان یومِ قیامت کی گنتی گننا اور پیش گویاں کرنا شروع کر دے ،
انسان کا کام قیامت کے آنے پر ایمان لانا ہے اور قیامت کا لانا صرف اللہ
علیم و خبیر کے علم و اختیار میں ہے ، جہاں تک اس آیت میں آنے والے دوسرے
صیغے { انشق } کا تعلق ہے تو جب اس کا صلہ { السما۶ } آتا ہے تو اس کا
مفہوم قیامت کے سوا کچھ اور ممکن ہی نہیں ہوتا لیکن جب اس { انشق } کا صلہ
آیتِ بالا کی طرح { القمر } آتا ہے تو اس کا مفہوم سمندر میں آنے والے جوار
بھاٹا کی طرح انسانی حیات کے سمندر میں آنے والا وہ انقلابی مٙد و جزر ہوتا
ہے جو مد و جزر زبر دستوں کو زیرِ دست لاتا ہے اور زیر دستوں کو زبر دست
بناتا ہے اور آیاتِ بالا کے علمی پس منظر میں اس کا یہی قابلِ فہم مفہوم
مراد ہے ، بعض اہل علم نے اس اَمر کی بھی صراحت کی ہے نزولِ قرآن کے زمانے
میں چونکہ مشرکین عرب کے جھنڈے پر قمر کا نشان ہوتا تھا اِس لئے قرآن نے اس
آیت میں سیدنا محمد علیہ السلام کے علٙم کے سر بلند اور آپ کے دشمنوں کے
جھنڈوں کے سر نگوں ہونے کی وہ پیش گوئی کی ہے جو کچھ عرصے بعد ہی پوری بھی
ہو گئی ہے ، بہر حال اب تک ہونے والی اس گفت گو سے یہ اٙمر پایہِ ثبوت کو
پہنچ گیا ہے کہ انشق سے مراد کی چیز کا کسی حادثاتی طور پر پھٹنا ہے اور اس
امر میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ جہان کے جن تاروں اور سیاروں مںں ازل سی ابد
تک ٹوٹ پھوٹ کا عمل جاری ہے ان تاروں اور سیاروں میں سیارہ چاند بھی شامل
ہے اور سیارہِ چاند میں بھی ٹوٹ پھوٹ کا یہ عمل جاری ہے جو اس بات کی دلیل
ہے ان سب تاروں اور سیاروں نے ایک روز فنا ہونا ہے اور اِن سب تاروں اور
سیاروں کا فنا ہونا اِس بات کی دلیل ہے کہ بالآخر اس سارے جہان نے بھی فنا
ہوجانا ہے اور اِس سارے جہان کے فنا ہونے کا نام ہی وہ قیامت ہے جس پر
انسان نے ایمان لانا ہے !!
|