#العلمAlilmعلمُ
الکتابسُورٙةُالقمر ، اٰیت 41 تا 55 اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اٙفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
برائے مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!.
ولقد جاء
اٰل فرعون النذر 41
کذبوا باٰیٰتنا کلھا فاخذنٰھم
اخذ عزیز مقتدر 42 اکفارکم خیر
من اولٰئکم ام لکم براة فی الزبر 43 ام
یقولون نحن جمیع منتصر 44 سیھزم الجمع
ویولون الدبر 45 بل الساعة موعدھم والساعة ادھٰی
و امر 46 ان المجرمین فی ضلٰل و سعر 47 یوم یسحبون
فی النار علٰی وجوھھم ذوقوا مس سقر 48 انا کل شئی خلقنٰہ
بقدر 49 وما امرنا الا واحدة کلمح بالبصر 50 ولقد اھلکنا اشیاعکم
فھل من مدکر 51 و کل شئی فعلوہ فی الزبر 52 وکل صغیر و کبیر
مستطر 53 ان المتقین فی جنٰت و نھر 54 فی مقعد صدق عند ملیک
مقتدر 55
اے ہمارے رسُول ! تاریخ کی ہر تحقیق سے اِس اٙمر کی تصدیق ہو چکی ہے کہ آلِ
فرعون کے پاس بھی ہم نے بُرے عمل کے بُرے اٙنجامِ سے ڈرانے والے اپنے
نمائندے بہیجے تھے لیکن جب اُس قوم نے اُن کی تکذیب کی تھی تو ہم نے اُس
قوم کو اسی طرح اٙچانک ہی دبوچ لیا تھا جس طرح ایک غلبہ پانے والا ایک
مغلوب ہونے والے کو اٙچانک دبوچ لیتا ہے اِس لئے آپ ہماری گرفت کا وہ لٙمحہ
آنے سے پہلے اہلِ مکہ سے یہ بات پُوچھ لیں کہ تُم اہل مصر سے زیادہ بہتر
حالت میں ہو جو حق کے مقابلے میں ڈٹے ہوئے ہو یا کسی پرانے آسمانی صحیفے
میں اللہ نے تُمہارے لئے کوئی ایسی خاص رُو رعایت لکھی ہوئی ہے جس کی وجہ
سے تُم اُس تباہی سے بچ جاو گے جس سے آلِ فرعون جیسی طاقت ور قوم نہیں بچی
تھی اور یا پھر تمہیں یہ گمھنڈ ہے کہ تُم اپنی قومی جمعیت کی اجتماعی طاقت
سے حق پر غالب آجاو گے ، اگر تُمہاری یہ سوچ ہے تو یہ بہت ہی غلط سوچ ہے
کیونکہ عنقریب تُمہاری قومی جمعیت اِس طرح پارہ پارہ ہو جائے گی کہ تُم
مُنہہ چُھپا کر بھاگ جاو گے اور اِس وقت تُم جو اُس قیامت خیز گھڑی کو قریب
لانے کے لئے بیتاب ہو تو یاد رکھو کہ تُم سے پہلے ہمارے کُچھ نافرمان پہلے
ہی اُس قیامت خیز گھڑی کی گرفت میں آچکے ہیں اور کُچھ جلد آنے والے ہیں ،
جب اُس گھڑی کے مُنکر اُس گھڑی کے سخت جبڑوں میں آجائیں گے تو اُن سے کہا
جائے گا کہ اٙب تُم بُھگتو اپنی اُس نافرمانی کی سزا جو نافرمانی تُم اٙب
کرتے رہے ہو لیکن وہ گھڑی تُمہاری خواہش سے نہیں آئے گی بلکہ ہمارے حکم سے
آئے گی کیونکہ ہم نے عالٙم کی ہر ایک چیز کے ظاہر و غائب ہونے کا ایک وقت
مُقرر کیا ہواہے اور کوئی چیز اُس مقررہ وقت سے پہلے کبھی نہیں آتی لیکن جب
ہم اُس چیز کو ظہور میں آنے یا غیاب میں جانے کا حکم دیتے ہیں وہ تُمہارے
پلک جھپکنے سے بھی پہلے ظاہر یا غائب ہوجاتی ہے ، اِن بُرے لوگوں سے پہلے
جن بُرے لوگوں کو ہم اپنے اُس حکم سے جس بُرے اٙنجام تک پُہنچا چکے ہیں اُن
کا ہر ایک عمل ہماری اُس کتاب میں درج ہے جس میں ہر چھوٹی اور ہر بڑی بات
درج ہے اور اُسی کتاب میں ہمارا یہ وعدہ بھی درج ہے کہ جو لوگ ہمارے
اٙحکامِ نازلہ پر عمل کرتے ہیں اُن کے لئے ہماری وہ نادیدہ نہری زمینیں
تیار ہیں جن زمینوں میں اُنہوں نے اپنے شاہِ عالٙم کی مرضی سے جانا ہے اور
اپنے شاہِ عالٙم کی نگرانی میں رہنا ہے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اِس سُورت کی گزشتہ 40 اٰیات میں زمین سے نابُود ہونے والی اُن چار اٙقوامِ
زمین کا ذکر کیا گیا تھا جو چار اٙقوامِ زمین اللہ تعالٰی کی ذاتِ واحد کے
بارے میں اِس آسمانی نوشتے میں بیان کئے گئے نظریہِ توحید کے انکار اور اُس
کے رسولوں کے منصبِ رسالت کا انکار کر کے اپنے بُرے اٙنجام کو پُہنچیں تھیں
، اِس سُورت کے اِس مرکزی مضمون کے ضمن میں اُن مُشرکینِ عرب کا کُچھ
اٙحوال بھی بیان کیا گیا تھا جو اُس وقت قُرآنی وحی کے پہلے مُخاطب و پہلے
مُنکر تھے اور موجُودہ 15اٰیات کا آغاز مصر کے اُس فرعون کے ذکر سے کیا گیا
ہے جو بذاتِ خود مصر میں خُدائی کا ایک ایسا ظالم دعوے دار تھا جس کی
ظالمانہ خُدائی کے اُس آہنی شکنجے میں ساری آلِ فرعون اِس بُری طرح جکڑی
ہوئی تھی کہ وہ اُس کی خُدائی کے اُس حصار سے باہر نکلنے کی ذرا بھی طاقت
نہیں رکھتی تھی اِس لئے اللہ تعالٰی نے اُس قوم میں مُوسٰی علیہ السلام اور
اُن کے بھائی ھارُون علیہ السلام کو حریت و آزادی کا نقیب و سر خیل بنا کر
مامور کیا تھا ، مُوسٰی علیہ السلام اور ھارُون علیہ السلام کا پہلا کام
فرعون و آلِ فرعون کو کفر کی تاریکی سے نکال کر ایمان کی روشنی میں لانا
تھا اور دُوسرا کام بنی اسرائیل کو فرعون کی اُس ظالمانہ غلامی سے نکال کر
حُریت و آزادی کی منزل تک پُہنچانا تھا ، انسانی حریت و آزادی کا یہ کام جو
اُن دونوں نے اٙنجام دینا تھا وہ فرعون کے ایمان لانے کی صورت میں بھی
اٙمرِ لازم تھا اور فرعون کے ایمان نہ لانے کی صورت میں بھی ایک اٙمرِ لازم
تھا تاہم اگر فرعون ایمان لے آتا تو قومِ بنی اسرائیل کی آزادی کا مرحلہ
نسبتاً آسان ہو جاتا لیکن فرعون چونکہ ایمان نہیں لایا تھا بلکہ اپنے کفرِ
خُدائی کے کفر پر ڈٙٹ کر اپنے اُسی عبرت ناک اٙنجام کو پُہنچ گیا تھا جو ہر
مُتکبر انسان کا ایک قُدرتی اٙنجام ہوتا ہے لیکن اِس سُورت کی اِن اٰیات
میں فرعون و آلِ فرعون کا جو ذکر کیا گیا ہے وہ تاریخ کے ایک حوالے کے طور
پر کیا گیا ہے جہاں تک اِس خطاب کے اصل مُخاطبین کا تعلق ہے تو وہ صرف اہلِ
مکہ تھے جن کا کوئی لیڈر اگرچہ اپنی خُدائی کا دعوے دار تو نہیں تھا لیکن
اُس قوم کے اُس مُشرکانہ معاشرے کے تمام افراد اپنے بُتوں کی خُدائی کے
دعوے دار تھے لہٰذا اِن اٰیات میں سب سے پہلے تو اُن سب اہلِ مکہ کو اِس
اٙمر کی طرف متوجہ کیا گیا ہے کہ تُمہاری افرادی قُوت فرعون کی افرادی قُوت
سے زیادہ ہر گز نہیں ہے اور تُمہاری قومی جمعیت بھی فرعون کی قومی جمعیت سے
زیادہ ہر گز نہیں ہے اِس لئے اگر فرعونِ مصر اپنے تمام قومی وسائل کے با
وجُود بھی مُوسٰی علیہ السلام کی نبوت کا مقابلہ کرنے میں ناکام رہا ہے تو
پھر کوئی وجہ نہیں ہے کہ تُم اپنے وسائل کے ساتھ محمد علیہ السلام کی نبوت
کا مقابلہ کرکے کامیاب ہو سکو ، اِس تاریخی حوالے کے بعد دُوسرے مرحلے میں
اہلِ مکہ سے ایک دینی دلیل کے طور پر یہ سوال بھی کیا گیا ہے کہ اگر
تُمہارے پاس اِس نبی کی نبوت کا مقابلہ کرکے خُدا کے آنے والے عذاب سے بچ
جانے کا کوئی کتابی حوالہ موجُود ہے تو اُس کو اپنی دلیل کے طور پر ہمارے
سامنے لاوؑ تاکہ ہم بھی تو دیکھیں کہ تُم اہلِ کتاب کی مدد سے اپنے اِس غیر
عاقلانہ رویے کے بارے میں کون سا کتابی حوالہ پیش کر سکتے ہو لیکن یہ بات
مت بھولو کہ اگر فرعونِ مصر ایک حقیقی حاکمانہ قُوت رکھنے کے با وجُود بھی
اللہ کے ایک نبی کا مقابلہ کر کے فنا ہو گیا ہے تو تُم بھی اپنے اِن بے جان
بتوں کی خیالی طاقت سے اللہ تعالٰی کے اِس نبی کا مقابلہ کرکے فنا ہی ہو
سکتے ہو اور اِن اٰیات کے اِس مضمون میں اہلِ مکہ سے تیسری بات یہ کہی گئی
ہے کہ تُم لوگ قیامت قائم ہونے کے بعد توحید و رسالت کے انکار کی جس سزا کے
لئے فوری طور پر قیامت قائم کرانے اور تکذیبِ توحید و رسالت کی سزا پانے کا
مطالبہ کر رہے ہو وہ قیامت تُمہارے یا کسی اور قوم کے مطالبے پر قائم نہیں
ہونی بلکہ وہ اپنے مقررہ وقت پر قائم ہونی ہے اور اللہ کے حکم سے قائم ہونی
ہے لیکن اُس قیامت سے پہلے تُم پر اُس قیامت جیسی نتائجِ عمل کی جو قیامت
آنے والی ہے تُم اُس قیامت کی حشر سامانیوں کی بھی تاب نہیں لا سکو گے بلکہ
جب اُس قیامتِ صُغرٰی کی قیامت خیز گھڑی آئے گی تو تُم کو جان بچانے کی
مُہلت ملنا تو کُجا ، تُم کو تو اپنے مُنہہ چھپانے کی بھی کوئی جگہ کہیں پر
نظر نہیں آئے گی ، مزید براں یہ کہ اِس سُورت کی یہ آخری اٰیات کُچھ اِس
ترتیب سے بیان کی گئی ہیں کہ اِن کے اِس بیان سے ایک طرف تو زوالِ مصر و
مآلِ مکہ کا پُورا تاریخی پس منظر سامنے آجا تا ہے تو دُوسری طرف ان اٰیات
کے پڑھنے والے کی نظر میں جلالِ مُوسٰی کا وہ سارا منظر بھی آجاتا ہے جس نے
فرعون کو اپنے لشکر سمیت دریا بُرد کر دیا تھا اور تیسری طرف قُرآن کے
پڑھنے والے کی نگاہ میں جمالِ محمد علیہ السلام کا وہ واقعاتی منظر بھی
اُجاگر جہاں پر آپ اُن جان و ایمان کی دشمنوں کی جاں بخشی کرتے ہوئے نظر
آتے ہیں ، اٙمرِ واقعہ تو یہ ہے کہ جو مناظر اُن دونوں زمانوں کے انسانوں
نے بچشمِ خود دیکھے تھے وہی مناظر قُرآن کی اِن اٰیات کا پڑھنے والا انسان
اپنے فکر و خیال میں بھی اُسی طرح دیکھ سکتا اور محسوس کر سکتا ہے ، بہر
حال جس زمانے میں اِن اٰیات کے اِس مضمون کے ذریعے اہلِ مکہ سے یہ سب کُچھ
کہا گیا تھا اُس زمانے میں اُس سب کے وقوع پزیر ہونے کا انسان کوئی موہوم
سا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا اِس لئے یہ سب باتیں ایک طرف تو اُس قوم کو
اُس قوم کے مکافاتِ عمل کے ظہورِ عمل سے آگاہ کر رہی تھیں تو دُوسری طرف
یہی باتیں اُس قوم کے لئے سیدنا محمد علیہ السلام کے صدقِ نبوت کی وہ
مُعجزاتی دلیل بھی پیش کر رہی تھیں جس مُعجزاتی دلیل کا وہ قوم قدم قدم پر
مطالبہ بھی کرتی رہتی تھی لیکن اِس سلسلہِ کلام کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ
کُچھ برس بعد جب اللہ تعالٰی نے اپنے رسُول کو اُس قوم کے ساتھ مقابلے کے
مناسب وسائل بھی مُہیا کر دیئے تھے تو اللہ کے اُس رسُول نے اُن سے کبھی
بھی یہ نہیں کہا کہ یا تو تُم ہمارا دین قبول کرلو یا تُم جزیہ دے کر ہماری
غلامی قبول کرلو اور یا پھر ہمارے ہاتھوں سے مرنے کے لئے تیار ہو جاو اور
یہ بات اِس بات کی ایک قوی دلیل ہے کہ اہل روایت نے اِس قسم کی جو متشددانہ
روایات بنائی اور پھیلائی ہوئی ہیں اُن کی کوئی بھی حیثیت نہیں ہے !!
|