#العلمAlilmعلمُ الکتابسُورٙہِ رحمٰن ، اٰیت 14 تا 32
اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اٙفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
برائے مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
خلق
الانسان من
صلصال کالفخار
14 وخلق الجان من
مارج من نار 15 فبای
اٰلاء ربکما تکذبٰن 16 رب
المشرقین و رب المغربین 17
فبای اٰلاء ربکما تکذبٰن 18 مرج
البحرین یلتقیٰن 19 بینھما برزخ لا
یبغیٰن 20 فبای اٰلاء ربکما تکذبٰن 21
یخرج منہما الوؑلوؑ والمرجان 22 فبای اٰلاء
ربکما تکذبٰن 23 ولہ الجوار المنشاٰت فی البحر
کالاعلام 24 فبای اٰلاء ربکما تکذبٰن 25 کل من علیھا
فان 26 ویبقٰی وجہ ربک ذوالجلٰل والاکرام 27 فبای اٰلاء
ربکما تکذبٰن 28 یسئلہ من فی السمٰوٰت والارض کل یوم ھو
فی شان 29 فبای اٰلاء ربکما تکذبٰن 30 سنفرغ لکم ایہ الثقلٰن 31
فبای اٰلاء ربکما تکذبٰن 32
اگر تُم اُس رحمٰن کی قُدرتوں کو جاننا چاہتے ہو تو اِس اٙمر پر غور کرو کہ
اُس نے اِس زمین کی حاضر مخلوق کو اُس خشک مُشتِ خاک سے تخلیق کیا ہے جس
خاک سے تخلیق کے سارے سوتے خشک ہو چکے تھے اور زمین کی اِس حاضر مخلوق سے
پہلے زمین سے غائب ہونے والی اُس غائب مخلوق کو خاک پر جلنے والی اُس آگ کے
شُعلے سے تخلیق کیا ہے جس نے خاک میں چُھپے ہوئے سارے ہی جوہرِ تخلیق جلا
دئیےتھے تو تُم خود سوچو کہ تُم اُس رحمٰن کی کون کون سی قُدرتوں کا انکار
کرو گے ، اُس کی قُدرت کا یہ عالٙم ہے کہ وہ ہر روز طلُوعِ مشرق و غرُوبِ
مغرب کی اور غرُوبِ مغرب و طلُوعِ مشرق کی ساری سمتوں کی ساری مخلوقات کی
ضروریات پُوری کر رہا ہے تو تُم خود سوچو کہ تُم اُس رحمٰن کی کون کون سی
قُدرتوں کا انکار کرو گے ، اُس کی قُدرتوں کا تو یہ حال ہے کہ وہ دو
سمندروں کو اِس طرح باہم ملا کر چلاتا ہے کہ اُن دونوں کے درمیان ایک بال
برابر بھی فاصلہ نہیں ہوتا لیکن وہ ایک سمندر کے قطرے کو دُوسرے سمندر کے
قطرے کے ساتھ نہیں ملنے دیتا اِس لئے تُم خود ہی سوچو کہ تُم اُس کی کون
کون سی قُدرتوں کا انکار کرو گے ، اُس کی قُدرتوں کا ایک پہلو یہ ہے کہ وہ
اپنے اِن سمندروں میں جو موتی و مرجان بناتا ہے وہ ان کو خود ہی تُمہارے
دستِ شوق و طلب تک بھی لے آتا ہے ، تُم سوچو تو سہی کہ تُم اُس کی کون کون
سی قُدرتوں کا انکار کرو گے اور تُم اُس کی اِن حیرت انگیز قُدرتوں کے اِس
پہلو کو بھی نگاہ میں لاوؑ کہ اِن سمندروں میں تُمہارے جو بادبانی جہاز
چلتے ہیں اُن کے بادبانوں کو بھی وہی ہلاتا ہے اور اِس کے طوفانوں سے
تُمہاری جانوں کو بھی وہی بچاتا ہے ، تُم بار بار سوچو کہ تُم اُس کی کون
کون سی قُدرتوں کا انکار کرو گے ، اِس جہان کی یہ صورتِ حال بتاتی ہے اِس
جہان کی ہر ایک چیز فنا ہو جائے گی اور اُس رحمٰن کی ایک ذات و قُدرتِ ذات
ہی باقی رہ جائے گی ، تُم سو چو کہ تُم اُس کی کون کون سی قُدرتوں کا انکار
کرو گے ، اُس کی اِن قُدرتوں ہی کا یہ کرشمہ ہے کہ زمین و آسمان کی ہر
مخلوق اپنی حیات اور اپنے رزقِ حیات کے لئے اُسی سے رجوع کرتی ہے اور وہ ہر
دن کی ہر آن میں ایک نئی شان کے ساتھ اپنی ہر مخلوق کے سامنے جلوہ آرا ہوتا
ہے کیونکہ اُس کے اِس سارے جہان میں اُس کی ہر دیدہ و نادیدہ مخلوق کے لئے
اُس کا یہی قانُون طلب اور یہی قانُونِ عطا ہے جو جہان کی ہر ایک سمت اور
ہر ایک جہت میں ہمیشہ سے ہمیشہ کے لئے کار فرما ہے اِس لئے تُم سوچو اور
بار بار سوچو کہ تُم اُس کی کون کون سی قُدرتوں کا انکار کرو گے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
سُورٙہِ رحمٰن کی پہلی 12 اٰیات میں قُرآن نے رحمٰن کی جو شان بیان کی تھی
اُس کے بعد انسان سے یہ سوال کیا گیا تھا کہ تُم اُس رحمٰن کی کون کون سی
قُدررتوں کا انکار کرو گے اور اُس تمہیدِ کلام کے بعد اٙب موجودہ 18 اٰیات
میں اُس تمہیدِ کلام کی جو تفصیلِ کلام پیش کی گئی ہے اُس تفصیلِ کلام کی
10 اٰیات میں قُرآن نے جن پانچ معاملاتِ حیات پر بات کی ہے اُن پانچ
معاملاتِ حیات میں سے حیات کا پہلا معاملہ انسان اور جِنات کی وہ پہلی حیات
ہے جو انسان اور جنات کو سب سے پہلی بار ملی تھی ، دُوسرا معاملہ مشرق و
مغرب کی ہر ایک مخلوق کو ہر روز کام کی غرض سے جگانا اور ہر روز آرام کی
غرض سے سلانا ہے اور اِس مقصد کے حصول کے لئے ہر روز سُورج کا طلُوع و غروب
اپنے وقت پر کرنا اور ہر روز ہر مخلوق کو اُس کی محنت کے مطابق رزقِ حیات
فراہم کرنا ہے ، تیسرا معاملہ انسان کے سمندری سفر میں انسان کی جان کی
حفاظت کرنا ہے ، چوتھا معاملہ انسان کو اِس اٙمر سے آگاہ کرنا ہے کہ رحمٰن
کے اِس جہان میں خالقِ جہان کی ذاتِ عالی کے سوا اُس کی مخلوق کے کسی جان
دار اور بے جان فرد یا جماعت کے لِئے دائمی حیات نہیں ہے بلکہ رحمٰن کے اِس
جہان میں ہر مخلوق کے ہر فرد اور ہر جماعت نے ایک مقررہ وقت تک جینے کے بعد
مرجانا ہے اِس لئے اِن اٰیات میں پانچواں معاملہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ اگر
رحمٰن کے اِس جہان میں ہر ایک مخلوق اور ہر ایک مخلق کے ہر ایک فرد نے ایک
مقررہ وقت تک زندہ رہنے کے بعد مرجانا ہے تو اُس کو اِس جہان میں جینے کے
لئے اور مرنے کے بعد دُوسرے جہان میں جانے کے لئے اپنے اُسی رحمٰن سے رجوع
کرنا چاہیے جس کی قُدرتوں کو اُس کے سامنے بیان کیا گیا ہے اور اِس سُورت
کی ان 10 اٰیات میں سے ہر دو اٰیات کے بعد آنے والی 8 اٰیات میں 8 بار وہی
حُسنِ تکرار کیا گیا ہے کہ تُم اُس رحمٰن کی کون کون سی قُدرتوں کا انکار
کرو گے لیکن اِس حُسنِ تکرار کی قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ یہ حُسنِ تکرار اُس
اعلٰی کلام کا وہ اعلٰی اُسلوبِ کلام ہے جس میں یہ سوال اِس خبر کے طور پر
آیا ہے کہ تُم اُس رحمٰن کی قُدرتوں کا کبھی بھی انکار نہیں کر سکتے اور
کبھی بھی انکار نہیں کر سکو گے ، بہر کیف انسانی حیات کے اِن پانچ معاملاتِ
حیات میں سے پہلا معاملہ جو انسان اور جنات کی پہلی تخلیق کا معاملہ ہے وہی
اِن اٰیات کا مرکزی مضمون ہے لیکن اِس مرکزی مضمون کے بارے میں ہم مزید بات
کرنے سے پہلے یہ بات واضح کرنا چاہیں گے کہ جس طرح گزشتہ اٰیات کے ضمنی
مفہوم کے ضمن میں ہم نے یاد دلایا تھا کہ اِس سُورت کے اِس مضمون میں لفظِ
قُرآن سے مُراد صرف اسمِ قُرآن نہیں ہے بلکہ اِس مقام پر لفظِ قُرآن سے
مُراد قُرآن کا وہ لُغوی معنٰی ہے جس کا مفہوم ایک پڑھا جانے والا کلام ہے
اسی طرح یہاں پر بھی ہم یہ بات یاد دلانا چاہیں گے کہ اِس مضمون کی پہلی
اٰیت میں جو لفظِ { اِنس } وارد ہوا ہے اُس کا بھی یہاں پر وہ لُغوی معنٰی
مُراد ہے جس کا مفہوم نظر میں آنے والی مخلوق ہے اور اِس کے بعد اِس اٰیت
میں جو لفظِ { جِن } وارد ہوا ہے اُس کا بھی یہاں پر وہ لُغوی معنٰی مُراد
ہے جس کا مفہوم میں نظر آنے والی مخلوق ہے ، انسان چونکہ نوعِ انسانی ہی کی
ایک اعلٰی نوع ہے اِس لئے لفظِ { اِنس } میں وہ تمام حیوانی مخلوقات آجاتی
ہیں جو انسانی نظر میں آتی ہیں اور مُحوّلہ بالا اٰیت میں جو لفظِ { جِن }
آیا ہے اُس میں بھی وہ تمام جِنّی مخلوقات آجاتی ہیں جو انسانی نظر کو نظر
نہیں آتی ہیں ، اِس مضمون کا ماحصل یہ ہے کہ انسان اور انسان کی طرح کی
تمام حیوانی مخلوقات کو اللہ نے پہلی بار اُس وقت تخلیق کیا تھا جب زمین کا
سینہ سرد ہو کر اِس مخلوق اور اِس جیسی ہر مخلوق کے لئے قابلِ برداشت و
قابلِ رہائش ہو چکا تھا اور اِن حیوانی اٙجسام سے بھی پہلی جب زمین آتش
اُگل رہی تھی تو اُس وقت اللہ نے اِس زمین پر وہ آتشی مخلوق بھی پیدا کی
تھی جو اُس آتش کے درمیان رہ سکتی تھی اور رہتی رہی تھی لیکن اُس زمانے کی
وہ آتشی مخلوق اِس زمانے کی اِس زمین پر موجُود نہیں ہے اور مزید براں یہ
کہ جس طرح زمین سے ناپید ہونے والی ہر مخلوق کو جِن کہا جاتا ہے اسی طرح ہر
اُس نادیدہ مخلوق کو بھی جِن ہی کہا جاتا ہے جو زمین و سمندر اور فضا و ہوا
میں پر کہیں نہ کہیں پر موجُود تو رہتی ہے لیکن ہر جگہ پر ہر نظر کو نظر
نہیں آتی تاہم اِس مضمون کی مزید تفصیل سُورٙةُالجن کے تحت آئے گی ، قُرآن
کے اِس مضمون کا مقصد یہ ہے کہ جو رحمٰن اپنی اِس حاضر مخلوق کو اُس خشک
مُشتِ خاک سے نکال کر باہر لاسکتا ہے جس میں نٙم کی کی کوئی اٙدنٰی سی نمُو
بھی موجُود نہیں ہوتی اور جو رحمٰن اپنی اُس غائب مخلوق کو آگ سے پیدا کر
کےآگ میں زندہ رِکھ سکتا ہے وہ کسی مادی وجُود اور کسی مادی نقشے کے بغیر
جب چاہتا ہے اور جو کُچھ چاہتا ہے اپنی قُدرت سے پیدا کرتا ہے اور پیدا
کرسکتا ہے اِس لئے تُم ایک بار نہیں بلکہ بار بار سوچو کہ تُم اُس رحمٰن کی
کن کن قُدرتوں کا انکار کرو گے !!
|