#العلمAlilmعلمُ الکتابسُورٙہِ رحمٰن ، اٰیت 33 تا 45
اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اٙفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
برائے مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
یٰمعشر
الجن والانس ان
استطعتم ان تنفذوا
من اقطار السمٰوٰت والارض
فانفذوا لاتفذون الّا بسلطٰن
33 فبای اٰلاء ربکما تکذبٰن 34
یرسل علیکما شواظ من نار و نحاس
فلا تنتصرٰن 35 فبای اٰلاء ربکما تکذبٰن
36 فاذا انشقت السماء فکانت وردة کالدھان
37 فبای اٰلاء ربکما تکذبان 38 فیومئذ لا یسئل
عن ذبہ انس ولا جان 39 فبای اٰلاء ربکما تکذبٰن 40
یعرف المجرمون بسیمٰھم فیوؑخذ بالنواصی والاقدام 41
فبای اٰلاء ربکما تکذبٰن 42 ھٰذہ جہنم التی یکذب بھاالمجرمون
43 یطوفون بینھا و بین حمیم اٰن 44 فبای اٰلاء ربکما تکذبٰن 45
اے ہمارے رسُول ! آپ تمام حاضر و غائب زمان و مکان پر رحمٰن کا یہ دائمی
قانُون پیش کردیں کہ اگر تُم اپنے حال سے ماضی میں جانے اور مُستقبل سے حال
میں آنے والی ساری مخلوق کو اپنے حال میں لاکر اور اپنا شریکِ حال بنا کر
رحمٰن کی قُدرت کے اِن دائروں سے نکلنا چاہو گے تو یہ اسی صورت میں مُمکن
ہو گا کہ تُم کو عالٙمِ حاضر سے نکل کر عالٙمِ غائب میں داخل ہونے کے لئے {
سلطٰن } کی وہ راہ داری مل جائے جو رحمٰن کے پاس ہے اِس لئے سو چو کہ تُم
اُس رحمٰن کی کن کن قُدرتوں کا انکار کرو گے اور تُم یہ بات بھی یاد رکھو
کہ اگر تُم اُس سُلطانِ راہ کے بغیر رحمٰن کے اِس زمان و مکان سے نکلنا
چاہو گے تو تُم جانوں کو جلادینے والی اُس آگ کے شُعلوں اور آنکھوں کو
دُھند لا دینے والی اُس دُھند کے طوفانوں میں گِھر جاوؑ گے جس میں تُمہارا
کوئی پُرسانِ حال بھی نہیں ہوگا اِس لئے ایک بار پھر سوچو کہ تُم اُس رحمٰن
کی کن کن قُدرتوں کا انکار کرو گے ، پھر جب قیامت کے زلزلوں سے آسمان شق ہو
کر چمڑے کی طرح سُرخ ہو جائے گا تو زمین کا ہر حاضر و غائب فرد اِس حال میں
حاضر کیا جائے گا کہ اُس کے دل کے ملال کی بابت کوئی سوال کرنے کی بھی
ضرورت نہیں ہو گی کیونکہ اُس دن ہر انسان کا حال اُس کے چہرے کے ملال سے ہی
ظاہر ہو رہا ہو گا ، تُم خود سوچو کہ تُم اُس رحمٰن کی کن کن قُدرتوں کا
انکار کرو گے ، یاد رکھو کہ اُس دن ہر مجرم کا سر سے لے کر پیر تک ایک ایک
بند جکڑ دیا جائے گا اور تُم خود ہی سوچو کہ اُس دن کے اُس بُرے حال میں
تُم اُس رحمٰن کی کن کن قُدرتوں کا انکار کرو گے اور اُس دن جب ہر مُجرم کو
یہ بھی بتا دیا جائے گا کہ تُمہارے بُرے اعمال کی یہی وہ بُری جہنم ہے جس
کی اِس گرما گرم زمین اور جس کے گرما گرم پانیوں کے درمیان تُم نے ہمیشہ سے
ہمیشہ کے لئے بہٹکتے رہنا ہے تو اُس وقت تُم اُس رحمٰن کی کن کن قُدرتوں کا
انکار کرو گے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اٰیاتِ بالا کے مفہومِ بالا کے بارے میں ہم سب سے پہلے یہ وضاحت کرنا چاہیں
گے کہ ہم نے اِن اٰیات کے اِس مفہوم میں حاضر زمانے کی حاضر مخلوق کے ساتھ
غائب زمانوں کی غائب مخلوق کو اِس لئے شامل کیا ہے کہ اِس سُورت کی اِن
ساری اٰیات کا اِس سُورت کی اُن دو اٰیات 14 اور 15 کے ساتھ ایک گہرا ربط و
تعلق ہے جن دو اٰیات میں پہلے زمانہِ حال میں نظر آنے والی اُس انسانی
مخلوق کی تخلیق کا ذکر کیا گیا ہے جو زمین پر حاضر و موجُود ہے اور بعد
ازاں ماضی غائب میں غائب ہو جانے والی اُس جِنی مخلوق کی تخلیق کا ذکر کیا
گیا ہے جو انسانی مخلوق سے پہلے اِس زمین پر حاضر تھی لیکن اِس زمین پر
انسانی مخلوق کے حاضر ہونے کے بعد وہ جِنی مخلوق اِس زمین سے غائب کردی گئی
ہے ، پھر اِس سُورت کی اٰیت 17 میں ہر روز ہر مشرق میں طلوعِ صبح کے ساتھ
حاضر اور ہر روز ہر مغرب میں غروبِ آفتاب کے ساتھ غائب ہونے والی انسانی
نسل کا ذکر کر کے حاضر و غائب کے اِس سلسلے کو قائم رکھا گیا ہے اور پھر یہ
حقیقت بھی ہمارے سامنے ہے کہ اِس عالٙم میں ہر لٙمحے مُستقبل غائب سے اُتر
کر حال میں حاضر ہونے اور حال سے گزر کر ماضی میں غائب ہونے والی مخلوق کے
حاضر و غائب ہونے کا سلسلہ بھی ہمیشہ سے ہمیشہ کے لئے جاری ہے جس کا مطلب
یہ ہے کہ حاضر و غائب کے یہ سارے زمانے باہم ملے ہوئے ہیں اور اِن کا ذکرِ
حاضر و غائب بھی باہم ملا ہوا ہے اِس لئے جس طرح کہیں کہیں پر اِن کا
مُنفرد ذکر ناگزیر ہوتا ہے اسی طرح کہیں کہیں پر اِن کا مُشترک ذکر بھی
ناگزیر ہوتا ہے اور اٰیاتِ بالا کا یہ مقام بھی اُسی ذکرِ مُشترک کا ایک
مقام ہے ، اِس پہلی توضیح طلب بات کے بعد دُوسری توضیح طلب بات یہ ہے کہ
اگر اللہ تعالٰی اپنے کلام میں حاضر و غائب زمان و مکان کے انسان کو حاضر و
غائب کے خطاب کے ساتھ براہِ راست خطاب کرتا تو یہ خلافِ قیاس ہوتا ہے
کیونکہ اللہ تعالٰی کے لئے کوئی عالٙم اور کوئی مخلوقِ عالٙم غائب نہیں ہے
بلکہ ہر ایک عالٙم و مخلوقِ عالٙم اُس کے لئے حاضر ہی حاضر ہے اِس لئے اللہ
تعالٰی نے اپنے اِس خطاب کے لئے اپنے اٙنبیاء و رُسل کو اپنی مُخاطبت کا
ذریعہ بنایا ہے اور اپنی اِس مُخاطبت کے ذریعے اپنی اِس آخری کتاب کے آخری
کلام میں ضرورتِ نبوت اور ضروتِ عدمِ نبوت کے مسئلے کو بھی ایک خوبی کے
ساتھ واضح کر دیا ہے اور جس سے یہ اٙمر معلوم ہو گیا ہے کہ اُس نے جب تک
چاہا زمین پر نبوت و رسالت کا سلسلہ جاری رکھا اور جب چاہا بند کر دیا ،
جہاں تک اٰیاتِ بالا کے نفسِ مضمون کا تعلق ہے تو اِس کے بارے میں ایک تو
وہی معروف نقطہِ نظر ہے کہ اِن اٰیات میں خلائی تسخیر کا امکان ظاہر کیا
گیا ہے جس کا ظاہری ذریعہ وہ { سلطٰن } ہے جس کی اہلِ تشریح نے بہت سی
تشریحات کی ہوئی ہیں اور ہمارے نزدیک اِس سُلطٰن کی ایک مُمکنہ تشریح یہ ہے
کہ اگر ایک مُحطاط اندازے کے مطابق ایک انسان اپنی گاڑی میں ساکت بیٹھ کر
ایک گھنٹے میں 100میل کا سفر کرتا ہے تو وہ جہاز میں ساکت بیٹھ کر ایک
گھنٹے میں 500 میل کا سفر کر سکتا ہے اور ایک خلائی راکٹ میں ساکت بیٹھ کر
ایک گھنٹے میں 25000 میل کا سفرکر سکتا ہے اور اگر وہ روشنی کی رفتار سے
چلنے والے کسی خلائی راکٹ کے ذریعے سفر کرتا ہے تو وہ اُس راکٹ میں ساکت
بیٹھ کر صرف ایک سیکنڈ کے دوران 186000 میل کا سفر کر سکتا ہے لیکن وہ اپنی
اِس تیز رفتاری کے با وجُود بھی عالٙم کی حدُود سے باہر نہیں نکل سکتا
کیونکہ فضائے عالٙم کی اِن لا محدُود وستعتوں میں آگ کے اتنے بڑے بڑے کُرّے
اور دُھند و دھویں کے اتنے بڑے بڑے طوفان آتے ہیں کہ اُن سے گزرنا اُس کے
بس میں نہیں ہے تاہم اِن اٰیات کے اِس مضمون کا ایک مُمکنہ مفہوم یہ بھی ہو
سکتا ہے کہ اگر انسان اِس عالٙم سے نکل بھی جائے گا تو وہ اِس جہاں نکل کر
جہاں پر بھی جائے گا وہ جہان بھی خُدا ہی کا جہان ہو گا لیکن اِن اٰیات کا
یہ مفہوم درست ہونے کے با وصف بھی اِن اٰیات کے سیاق و سباق کے ساتھ کُچھ
زیادہ میل نہیں کھاتا کیونکہ اِس سُورت کا موضوعِ سُخن قُرآن ہے اور قُرآن
کی اِن اٰیات کے اِس مُتعلقہ مضمون کے پہلے حصے کے بعد قیامت اور جنت و
جہنم کا وہ ذکر ہے جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالٰی نے انسان کو اِس
عالٙم کے اِس نظام کا ایسا پابند بنایا ہوا ہے کہ وہ اِس عالٙم و نظامِ
عالٙم سے قیامت قائم ہونے سے پہلے نکل ہی نہیں سکتا اور مزید براں یہ کہ
انسان کے پیشِ نظر اِس عالٙم سے باہر نکلنے کا وہ مقصد کیا ہے جس مقصد کے
لئے وہ اِس عالٙم سے باہر نکلنا چاہتا ہے ، اگر وہ ایک خوش حال زندگی کی
تلاش میں اِس جہان سے نکلنا چاہتا ہے وہ اِس قُرآنی وحی کی اتباع کرے جس کا
نتیجہ قیامت کے بعد وہ بہشتِ بریں ہے جس کا نام جنت ہے لیکن اگر وہ اِس
قُرآنی وحی سے اعراض کرے گا تو قیامت کے بعد اِس کے سامنے جسم و جان کو
جلانے والی وہ زمین ہوگی جس کا نام جہنم ہے !!
|