بد ترین معاشی حالات


ملک کا موجودہ بحران سیاسی ہے، یا معاشی، یا پھر سماجی، یہ اخلاقی بھی ہو سکتا ہے۔اس بحران کا ذمہ دار کون ہے، مقننہ، عدلیہ یا ادارے۔یہ بحث پورے ملک میں جاری ہے۔ لیکن یہ بحران ہے شدید تر۔بظاہر یہ بحران قابو میں آتا نظر نہیں آتا۔پٹرول نے بلند پروازی کے سبب ساری دنیا کی حرکت محدود کر دی ہے۔ لوگ کرونا کے ماحول میں بھی اس قدر محتاط نہیں تھے جتنی احتیاط پٹرول نے انہیں سکھا دی ہے۔ دنیا ہمیں تحقیر کی نظروں سے دیکھ رہی ہے کہ ہم اس قدر نالائق ہیں کہ بحران کو کنٹرول کرنے کی بجائے اس میں اضافے ہی کئے جا رہے ہیں۔حال ہی میں افواہ گرم تھی کہ ہم اپنے بجلی کے پلانٹ چلانے کے لئے دنیا کے پسماندہ تریں ملک افغانستان سے کوئلہ حاصل کر رہے ہیں۔ مگر کیا ہوا کہ کوئلے کی دلالی میں منہ کالا ہی ہوا مگر کوئلہ نہیں ملا۔ افغانستان کی وزارت پٹرولیم اور معدنیات کے ترجمان عصمت اﷲ برہان نے جو اتفاق سے مفتی بھی ہیں فتویٰ جاری کر دیا کہ پاکستان کی اقتصادی قمیض اتنی پھٹی ہوئی ہے کہ وہ افغانستان سے ملنے والے کوئلے کے چند ملین ڈالروں کے فائدے سے رفو نہیں ہو سکتی۔انہوں نے کہا کہ طالبان حکومت کا پاکستان کی حکومت سے کوئلے کی تجارت کا کوئی معاہدہ نہیں اور ہم مستقبل میں اگر ضرورت ہوئی تو کوئلے کو بطور پریشر پوائنٹ استعمال کر سکتے ہیں، سیدھی بات ہے کہ وہ بلیک میلنگ کے لئے کوئلے سے کھیلیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم کوئلہ مقامی صنعت کاروں کو بیچتے ہیں۔ انہیں یہ کوئلہ پاکستان کو بیچنے کی کوئی پابندی نہیں لیکن ہم نے کوئلے کی برآمد پر ڈیوٹی عائد کر دی ہے جو پہلے 90 ڈالر تھی مگر اب دو سو ڈالر ہے ۔ ہمیں پاکستان کی معاشی طور پر انتہائی خراب حالت کا پتہ ہے اور ہمیں پاکستان کے اپنے ساتھ رویے کا بھی پتہ ہے اس لئے ڈیوٹی میں اضافہ ایک انتقامی کاروائی ہے۔ پاکستان نے نہ ہم پر پہلے گل پاشی کی تھی اور نہ ہی ہمیں آئندہ کے لئے کوئی امید ہے۔پاکستان میں ہمارے لوگ قید ہیں اور ہمارے ان بزرگوں کو تنگ کیا جا رہا ہے جو ہمارے لئے کوئلے کی تجارت سے زیادہ اہم ہیں۔

یہ ایک ایسے ملک کے ترجمان کا بیان ہے کہ جو ہمارا ہمسایہ ہے اور جس کے بارے ہم برادر ملک کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔جس کو آپ اپنا برادر کہیں اس کا ایسا رویہ بھی ایک ناکامی ہے، حکمت عملی کی ناکامی، سوچ کی ناکامی، خاجہ امور کی ناکامی۔سچ تو یہ ہے کہ ناکامیاں اگر آپ کا منہ دیکھ لیں تو آپ جس آئینے میں بھی دیکھیں ناکامیاں ہی رقصاں نظر آتی ہیں۔آج ہماری حکومت ہر طرح سے ناکام ہے۔ میں پٹرول کی بلند پروازی کی بات کر رہا تھا۔میں ایکبڑے سٹور میں کھڑا تھا۔ وہاں کا ایک ملازم کسی سے فون پر بات کر رہا تھا کہ میں آج تو نہیں پھر کسی دن آؤں گا۔ کیا بتاؤں پہلے سو روپے کا پٹرول روز موٹر سائیکل میں ڈلواتا تھا۔ کام پر آنا جانا بھی ہو جاتا تھااور کہیں ایک آدھ جگہ آسانی سے ہو بھی آتا تھا۔ اب بڑی مشکل سے کام پر ہی آنا جانا ہوتا ہے کہیں اور کا سوچا ہی نہیں جاتا۔سچ تو یہ ہے کہ پٹرول، بجلی اور گیس کی نئی قیمتوں کی بدولت مڈل اور لوئر کلاس کے لوگوں کی زندگی محدود ہو چکی۔چاہے وہ کھانے کی بات ہو یا آنے جانے کی ، آمدن اخراجات کا ساتھ نہیں دے رہی۔ہمارے موجودہ وزیر اعظم انقلاب کی بہت باتیں کرتے تھے۔ وہ انقلاب اب منہ کھولے کھڑا ہے کس کو کب نگل لے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ لیکن اسے آنا ضرور ہے۔

اس سارے برے حالات کی ذمہ داری تو کسی پر بھی ڈالی جا سکتی ہے۔حکومتی ٹیم کی کارکردگی بھی کمزور ہے مگر اسٹیبلشمنٹ کی غیر ضروری مداخلت بھی بہت سارے مسائل کا پیش خیمہ ہے۔ اسٹیبلشمنٹ والے سمجھتے ہیں کہ لوگ اندھے ہیں انہیں پتہ نہیں چلتا کہ کون کیا کر رہا ہے۔ لوگ سب جانتے اور سمجھتے ہیں لیکن کسی ادارے کے چند لوگوں کی اپنی ایسی حرکتیں ان کے پورے ادارے کو بدنام کرنے کا باعث ہیں۔ عالمی سطح پر ہماری عدلیہ دنیا کی بد ترین عدلیہ شمار ہوتی ہے۔ اب تو سپریم کورٹ کے جج بھی پنچایت لگانا شروع ہو چکے ہیں۔ انہیں ٹھوس فیصلے کرنے میں کیا امر مانع ہے۔ ہائی کورٹ کے فیصلوں میں انصاف پوری طرح نظر نہیں آتاجو کہ افسوسناک ہے۔ عام آدمی انصاف سے بہت مایوس ہے۔عدلیہ کسی بھی ملک کی سالمیت کی امیں ہوتی ہے اور اس کے فیصلے لک کی بقا کے ضامن ہوتے ہیں۔ کاش عدلیہ انتہائی فعال ہو جائے۔ کیونکہ اس وقت صرف اور صرف عدلیہ ہی ان حالات میں ملک کو بچا سکتی ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ اصل انحطاط تعلیمی ہے ۔ تعلیم پر توجہ نہ ہونے کے سبب قوم کے مزاج میں کوئی چیز سیدھی نہیں۔ یہ ایک لمبی بحث ہے مگر ملک کودیوالیہ ہونے سے بچانے کے لئے حکومت جو کچھ وقتی طور پر کر رہی ہے اس کا بوجھ تو صرف اور صرف عام آدمی پر پڑ رہا ہے۔ ایلیٹ کلاس کے لوگوں کو تو اتنی مہنگائی فرق ہی نہیں ڈالتی۔ حکومت کو اس بوجھ کو ایلیٹ کلاس کو منتقل کرنا ہو گا۔ زیادہ نہ سہی چھوٹے چھوٹے دو تین کام بھی ہو جائیں تو ہمارے سب مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ کوئی شخص جو پاکستان میں سرکاری ملازمت کرتا ہو اس کے لئے دوہری شہریت پر پابندی لگا دی جائے۔ وہ تمام لوگ جن کے غیر ممالک میں اکاؤنٹ ہیں انہیں کہا جائے کہ اس ملک میں رہنا ہے تو اپنا سرمایہ اس ملک میں واپس لے کر آئیں۔حکومت کو اپنے وزیروں ، مشیروں اور خصوصی نائبین کی تعداد کو محدود کرنا چائیے اور جو چند مشیر وزیر وغیرہ رکھے جائیں ان کی مراعات، ان کا سٹاف، انکی گاڑیاں اور ان کی عیاشیاں بہت محدود کر دی جائیں۔ سیاست خدمت خلق کا دوسرا نام ہے اسے خدمت خلق کا انداز دے دیں، لوگوں میں اس کی حرص ختم ہو جائے تو بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں کیونکہ سب سے زیادہ لوٹ مار حکمران یا ان کے پروردہ کرتے ہیں۔ شخصی جائیداد کو محدود کرنا بھی ضروری ہے۔بہت سے ایسے دوسرے اقدامات بھی ہیں جن کابوجھ صرف ایلیٹ کلاس پر آئے گامگر حکمران میری طرح سوچ ہی نہیں سکتے کیونکہ وہ خود بھی ایلیٹ ہیں۔ ایسے اقدامات سے ان کی ذات پر ضرب آئے گی اور کون خود کو ہلاکت میں ڈالتا ہے۔


تنویر صادق

 

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 500405 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More