کیا کوئی مجھے یہ منظق سمجھا سکتا ہے کہ بطخ کا بچہ پیدا
ہوتے ہی پا نی کی جانب کیوں بھاگتا ہے جبکہ مرغی کا بچہ پانی سے خوف کھاتا
ہے؟ جگنو کی چمک اورتتلی کے پروں پر انگنت رنگوں کی مینا کاری،،سجاوٹ
بناوٹ،ہئیت،شکل و صورت اور دلکشی کا اگر بغور جائزہلیا جائے تو انسان پر
حیرت و استعجاب کے امگنت باب کھل جاتے ہیں ۔گردشِ لیل و نہار ، گردشِ شام و
سحر،گردشِ افلاک،گردشِ مہ و سال ،گردشِ زماں ، موت و حیات کے پیمانے، آسمان
سے بادلوں کا بر سنا، دریاؤں کی روانی ، سمندر کی طغیانیاں ، پرندوں کا ہوا
میں اڑنا،مچھلیوں کا پانی میں تیرنا ، پودوں کا زمین سے اگنا گلوں کا رنگ
برنگا ہونا،کہکشاؤں کا نورو نکہت کا منبہ بننا ، پرندوں کی چہکار، سب کچھ
طے شدہ قوانین پر قائم ہیں گویا کہ وہ کائنات جس کا ہم حصہ ہیں غیر متبدل
اور اٹل کائناتی قوانین کی آماجگاہ ہے۔سورج مشرق سے نکلتا اور مغرب میں
ڈوبتا ہے اور اس میں کبھی تبدیلی نہیں دیکھی گئی۔موسموں کی تبدیلی ،ہوا
پانی اور روشنی کی موجودگی اور دوسرے سارے طبعی قوانین ایک زنجیرِ حکم میں
بندھے ہوئے ہیں جس سے انھیں سرِ مو انحراف کی اجازت نہیں ۔خالقِ کائنات نے
جو قوانین بنا رکھے ہیں وہ اٹل اور دائمی ہیں ۔حد تو یہ ہے کہ قدرت اپنے
بنائے ہوئے قوانین اور ضوابط کی خود بھی پاسداری کرتی ہے ۔اسے کسی کی ذاتی
حواہش پرنہ تو بدلا جاتا ہے اور نہ ہی ان میں کوئی ترمیم کی جاتی ہے ۔ حد
تو یہ ہے کہ خدا نے جو نظام تشکیل دیا ہوا ہے وہ غیر متغیرہے اور ہمیشہ ایک
ہی نتیجہ کے ساتھ منظرِ عام پر آتا ہے۔انسان کی متلون مزاجی کی وجہ سے اس
کے ارادے تو ہر آن بدلتے رہتے ہیں لیکن ر بِ کائنات کا امر کبھی نہیں
بدلتا۔ جو لکھ دیا گیا ہے ہر شہ نے اسی کے مطابق اپنا جو ہر دکھا نا
ہے۔ایسا روزِ ازل سے ہو رہا ہے اور جب تک اس کائنات میں آخری انسان زندہ ہے
ایسے ہی ہوتا رہے گا۔،۔
یہاں تک تو سب ٹھیک ہے ۔ لیکن اس کے باوجود ہمارا مشاہدہ ہے کہ کبھی کبھی
واقعات و حادثات روزمرہ مشاہدہ کے بر عکس بھی ظاہر ہو جاتے ہیں حالانکہ
ایسا شا ذو نادر ہی ہوتا ہے ۔ اس طرح کے استثنائی عمل کا تسلسل ہمیشہ جاری
و ساری نہیں رہتا کیونکہ اس طرح یہ نظامِ کائنات چل نہیں سکتا ۔ ایسا
استثنائی ردِ عمل کسی مخصوص کیفیت کے بعد معدوم ہو جاتا ہے ۔آگ کا کام
جلانا ہے لیکن تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ کسی خاص کیفیت میں حکمِ خدا وندی سے
یہ گلزار بھی بنی تھی ۔عصا کسی خاص کیفیت میں اژدھابن گیا تھاجبکہ عصا کی
ایک ضرب سے بپھری ہوئی لہریں راستہ بن گئی تھیں اور قومِ بنی اسرائیل اس
راہ سے ساحلِ مراد تک پہنچ گئی تھی جبکہ لشکرِ فرعون تباہ و برباد ہو
گیاتھا۔ فرعون کی لاش اس بات کی گواہی دینے کیلئے کافی ہے کہ ایسا ہوا
تھا۔یہ کوئی من گھڑت کہانی اور خود تراشیدہ افسانہ نہیں ہے بلکہ ایک جیتا
جاگتا واقعہ ہے جو قرآنِ حکیم کے مقدس صفحات میں محفوظ ہو کر اقوامِ عالم
کوایک مافوق الفطرت ہستی کے وجود کا احساس دلا نے کا جواز فراہم کررہا ہے
۔(ایسا کسی کی التجا اور درخواست پر نہیں ہوا تھا )وہ مالکِ کل ہے اور ہر
شہ اس کے پنجہ قدرت میں ہے ۔ لیکن (کل شہ ا ن قدیر ) ہوتے ہوئے بھی وہ
کائناتی قوانین میں مداخلت نہیں کرتا تا وقتیکہ ایسا کرنا ناگزیر ہو
جائے۔جب اس کرہِ ارض پر ظلم و ستم حد سے بڑھ جاتا ہے تو مالکِ ارض و سماء
اپنے قوانین میں استثنائی صورت پیدا کر دیتا ہے ۔نبی آخرالزما نﷺ کے وصال
کے بعد یہ معجزاتی اور استثنائی صورتِ حال اب ختم ہو چکی ہے لیکن اس کے
باوجود ہمیں ایسے حیرت انگیز واقعات سے پالا پڑتا ہے جن کی منطق ہماری سمجھ
سے بالا تر ہو تی ہے ۔یہ ہمارا روزمرہ کا مشاہدہ ہے کہ ہمارے گردو پیش میں
کارو بار کرنے والے ایسے لاتعداد لوگ ہیں جو تعلیم و تریت،پلاننگ ،رویوں
اور منصوبہ بندی میں بالکل کورے ہو تے ہیں لیکن ان پر عام ضابطو ں کے بر
عکس مال و دولت کی ایسی بارش ہوجاتی ہے کہ انسان شسدر رہ جائے۔ارشادِ
خداوندی ہے( جب ہم دینے کا ارادہ کرتے ہیں تو بے حدو حساب عطا کرتے ہیں)۔،۔
ہمارے ہاں ایک عقیدہ ہے کہ ہماری ظاہری کائنات کے علاوہ ایک اور کائنات بھی
ہے جو دعاؤں کی کائنات ہے جوموجودہ کائنات سے بالکل علیحدہ ہے۔کائناتی
ضابطوں کے بر عکس ایک انسان کی قمیض بینائی سے محروم انسان کی آنکھوں پر
لگتی ہے تو اس کی بینائی واپس آ جاتی ہے ۔ کرتے کی خوشبو کسی انسان کے وجود
کی گواہی بن جاتی ہے ۔تختِ بلقیس کا آنکھ جھپکنے میں دربارِ سلیمان میں
پہنچ جاناکسی مخصوص جوہر کا اظہاریہ بنتاہے۔میں نے اپنی کھلی آنکھوں سے
نمازِ استسقاء کے بعد بادل برستے دیکھے ہیں ۔ سردیوں کی ایک ٹھٹھرتی رات
میں موسلا دھار بارش کے دوران کتے کے پلے کی چیخ و پکار اور جگر پاش نواؤں
سے میرے دوست ناصر ادیب ؔکے قلبِ سلیم کے آبگینے پارہ پارہ ہوئے تو ان کا
رحمد لی اور خدا ترسی کے جذبات کے زیرِ اثر طوفانِ بادو باراں میں جاں بلب
پلے کو گندے گٹر سے نکالنا،صاف کرنا اور اپنے لحاف میں حرات دینا بارگاہِ
صمدیت میں ایسا محبوب عمل ٹھہرا کہ اس پر نوازشوں اور عطاؤں کی ایسی دیدہ
زیب بارش ہوئی کہ وہ فلمی دنیا کا سب سے بڑا ادیب قرار پایاحالانکہ اس سے
قبل کوئی اسے ادیب تسلیم کرنے کو تیار نہ تھا ۔میں نے دعائے ممتا کے مظاہر
اپنے دوست صوفی ادریس احمد قریشی کی زندگی پر کھلی آنکھوں سے دیکھے ہیں۔
عابد حسین قریشی کو خدا نے جس بلند مقام، عزت،وقار اور شہرت سے نواز رکھا
ہے وہ اس کی ماں کی دعاؤں کے بغیر ناممکن تھا۔ احترام کی مسند پر جلوہ
افروزی ایسے ہی نہیں ملا کرتی۔ماں کے قدموں میں سر رکھنے والوں کیلئے آسمان
بھی جھک جاتا ہے۔کوئی دعاؤں کی دنیا سجائے بیٹھا ہو تو ایسا ہی ہوتا ہے
۔اگر انسانی زندگی سے دعاؤں کی برو مندی کو نکال دیا جائے تو پھر انسانی
قلب مٹی کا ڈھیر اور انسانی روح ویرانی کا منظر پیش کرنے لگ جائے ،سوزو
گداز کی دنیا اجڑ جائے اور انسان محض حیوانی زندگی کا نمونہ بن جائے ۔
دعائیں ، التجائیں ، سسکیا ں ، آنسو ،آہیں اور مناجاتیں پیکرِ خاکی کو
روحانی وجودکا شاہکار بنانے کی کلید رکھتی ہیں جس سے انکار ممکن نہیں۔
دعاؤں کی کائنات نا ممکن کو ممکن بنا دینے کا ہنر جانتی ہے جس سے زمانے بدل
جاتے ہیں ،وقت بدل جاتا ہے،ناتواں توانا ہو جاتے ہیں ، شکست فتح میں بدل
جاتی ہے اور معزول سرفراز ہو جاتے ہیں ۔روح کی یہ دنیا ظاہری دنیا سے مختلف
ہے۔یہ جلووں کی کائنات ہے ، نشانیوں کی کائنات ہے ، محبوب کے انکشاف کی
کائنات ہے ، خدا کی خوشنودی کی کائنات ہے،رازو نیاز کی کائنات ہے، رضا کی
کائنات ہے اور منشاءِ خداوندی کے سامنے سرنگوں ہونے کی کائنات ہے ۔یہ ایک
ایسی مخفی کائنات ہے جو ہماری ظاہری دنیا کے اندر چھپی ہوئی ہے ۔ اس کائنات
میں اشکوں کے چراغ جلتے ہیں،اس میں روشنی ہی روشنی ہے ،جلوے ہی جلوے ہیں
اور نور ہی نورہے ۔ آہِ سحر گاہی اس کائنات میں داخلے کا واحد راستہ ہے ۔
وہاں سے سب کچھ ملتا جاتا ہے لیکن کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی کیونکہ
اس کائنات کے اصول ظاہری کائنات سے مختلف ہو تے ہیں ۔کمال یہ ہے کہ باطنی
کائنات کی برو مندی کیلئے مروجہ کائناتی قوانین کو لپیٹا نہیں جاتا لیکن
جسے عطا کرنا ہوتا ہے اسے عطا کر دیا جاتا ہے ۔ رحمتِ خداوندی اور دستِ
شفقت جب انسان کا مقدر بن جائے تو ظاہری کائنات کے سارے ضابطے بغیر کسی
بدلاؤ کے انسان کے سامنے سرنگوں ہو جاتے ہیں ۔ دنیا داروں کو اس منطق کی
سمجھ نہیں آتی کیونکہ انھیں ظاہری آنکھ سے دیکھنے کی خو ہوتی ہے حالانکہ اس
کیلئے دل ِ بینا کی ضرورت ہو تی ہے۔ جسے دل کی آنکھ نصیب ہوجائے اس کا مقدر
ستاروں سے روشن تر ہو جاتا ہے۔اقبال کی پکار سنئے کہ و ہ ایسی مخفی کائنات
کے حصول کیلئے دل ِ بینا کو کیا مقام عطا کرتے ہیں؟۔(دلِ بینا بھی کر خدا
سے طلب ۔ ، ۔ آنکھ کا نور دل کا نور نہیں ) ۔،۔
|