‘‘ارشادِ ربانی ہے:’’اور آپ بلند ترین اخلاق کے درجہ پر
ہیں ‘‘۔سیرت کی کتابوں میں نبی ٔ کریم ﷺ کاحسن اخلاق بے شمار واقعات میں
نظر آتا ہے ۔ ایک مرتبہ نبی اکرم ﷺ نے نجد کی جانب سفرِ جہاد کیا ۔راستے
کی ایک وادی میں نبیٔ کریم ﷺ اوراصحاب آرام کی غرض سے درختوں کے سائے میں
ادھر اُدھر بکھر گئے۔ پھر جب وہ لوٹے تو حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ جب
میں سو رہا تھا تو میرے پاس ایک شخص آیا، اور اُس نے تلوار اُٹھا لی، جب
میں بیدار ہوا تو دیکھا کہ وہ شخص میرے سر پرتلوار سونت کر کھڑا تھا۔ اُس
نے مجھ سے پوچھا: (اے محمد!) اب آپ کو مجھ سے کون بچائے گا؟ میں نے جواب
دیا: اللہ، پھر اُس نے دوسری مرتبہ کہا: آپ کو مجھ سے کون بچائے گا؟ میں نے
کہا: اللہ۔ یہ سن کر وہ خوف زدہ ہوا اور تلوارنیچے گرا دی، سو وہ شخص یہ
بیٹھا ہے پھر آپ ﷺ نے اُس سے انتقام بھی نہیں لیا۔‘‘ حسن اخلاق کا ایسا
بلند درجہ اور کہاں دکھائی دے گا؟
آج کل ملک بھر میں اذان کے حوالے سے تنازع چل رہا ہے۔ آپ ﷺ ایک جماعت کے
ہمراہ راستے سے گزر رہے تھے تو راستے میں مؤذن نے اذا ن دی تو کچھ دشمنان
دین اسلام نےمذاق اڑاتے ہوئے نقل اُتارنا شروع کر دی۔ نبی ﷺ نے کچھ لوگوں
کو بھیجا اور وہ انھیں پکڑ کر لےآئے۔ نبیٔ کریم ﷺ نے فرمایا: تم میں سب سے
اُونچی آواز کس کی تھی؟ لوگوں نے حضرت ابو مخذورہ کی طرف اشارہ کیا۔ آپﷺنے
سب کو لوٹاکر ان کو حکم دیا: اذان پڑھو! ابو مخذورہ سخت نفرت کے باوجود
کھڑے ہو گئے تو آپﷺ نے خود اذان بتائی اور جب وہ اشھد ان محمد رسول اللہ تک
پہنچا تو پیارے نبی ﷺ نے فرمایا: دوبارہ ان کلمات کو بلند آواز سے کہو۔
اذان پوری ہوگئی چاندی کی ایک تھیلی دے کر پیشانی اور چہرے پرہاتھ پھیر اور
فرمایا: اللہ تجھ پر برکت نازل فرمائے ۔ بس پھر کیا تھا حضرت ابو مخذورہ آپ
کے اس حسن اخلاق سے متاثر ہو کر مسلمان ہوگئےاور عرض کیامجھے مکہ میں مؤذن
مقرر کر دیں! آپ ﷺنے فرمایا: ہاں میں تمہیں امیر بناؤں گا۔
احسن الخلائق محمد ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ کامل مومن وہ ہے جس کے اخلاق اچھے
ہیں‘‘۔ غزوۂ بدر کے بعد صحابۂ کرام رضی اللہ اجمعین نے اسیران جنگ کے
ساتھ حسن ِ سلوک کرکے اس ہدایت پر عملدرآمد کا ایک بہترین نمونہ پیش
فرمادیا۔انہوں نےجن قیدیوں کے پاس کپڑے نہیں تھے ان کو کپڑے دلوائے ۔وہ ان
لوگوں کو حسب طاقت بہترین کھانا یعنی گوشت روٹی وغیرہ کھلاتے اور خود
کھجوریں کھا لیتے۔ ابو عزیز بن عمیر کا بیان ہےکہ جب مجھے بدر سے لائے تو
میں انصار کی ایک جماعت میں تھاتو وہ صبح یا شام کا کھانا لاتے تو روٹی
مجھے دیتے اور خود کھجوریں کھاتے ۔ان میں سے جس کے ہاتھ روٹی کا ٹکڑا آتا
وہ میرے آگے رکھ دیتا۔مجھے شرم آتی میں اسے واپس کرتا مگر وہ مجھ ہی کو
واپس دیتا اور ہاتھ نہ لگاتا۔ ایک جنگی قیدی کے ساتھ جن لوگوں کا یہ رویہ
تھا تو دیگر لوگوں کے ساتھ کیسا رہا ہوگا اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں ہے۔
یہی حسن اخلاق تھا جس نے دلوں کو جیت کر اسلام کو پھیلا دیا۔
پچھلے دنوں میرا اپنے ایک بنگلا دیشی غیر مسلم کے ساتھ پٹنہ جانے کا اتفاق
ہوا۔ وہ اب ہندوستان کا شہری بن چکا ہے لیکن وطن سے محرومی کا قلق تو
یقیناً اس کے دل میں ہنوز ہوگا کیونکہ بیوی بچے کے علاوہ سارے اعزہ و اقارب
تووہیں ہیں ۔ ہم لوگوں کو رات میں نکلنا تھا اس لیے دوپہرکو ہوٹل چھوڑ دیا
۔ دفتری کام سے فارغ ہونے کے بعد ہم دونوں جماعت کے دفتر آگئے جہاں مہمان
خانے میں بیٹھ کر وہ کمپیوٹر پر کام کرتا رہا۔ اس دوران اس کو کھانا کھلایا
گیا اور واپسی میں بہار کی مشہور لیچی بھی تحفے میں دی گئی۔ اس مہمان نوازی
سے وہ اس قدر متاثر ہوا کہ شام کو بس اسٹینڈ پر جاتے ہوئے سارا راستہ اپنے
میزبان کی تعریف میں رطب السان رہا۔ اس نے یہ اعتراف کیا کہ جدید نسل کے
اندر یہ حسن اخلاق مفقود ہے۔ اگلے وقتوں کی یہ اقدار کس قدر اچھی ہیں ۔
باتوں باتوں میں اس نے کہا کہ لوگ آپس میں اتنے اچھے ہیں اس کے باوجود
سماج میں لڑائی جھگڑا کیوں ہوتا ہے۔ بغیر کسی وعظ و نصیحت کے اپنے ساتھی کی
زبان سے نکلنے والا یہ جملہ میرے دل پر نقش ہوگیا اور مجھے خیال ہوا کہ اگر
ہندو وں اور مسلمانوں کے درمیان ایسے روابط قائم ہوجائیں تو سنگھ پریوار کے
لیے ان کو آپس میں لڑا کر اپنی سیاست چمکانا بے حد مشکل ہوجائے گااور ان
کا اسلام کی حقانیت کو تسلیم کرلینا کس قدر سہل ہوجائے گا۔
|