قلم شگوفیاں۔ مشکل فیصلے

قارئین
جیسا کہ احباب جانتے ہیں کہ وطن عزیز میں پچھلے کئ سالوں سے تبدیلی کا ایک نعرہ گونج رہا تھا۔ پھر تحریک چلی اور تبدیلی آئی۔ پھر ا س تبدیلی میں بہت کچھ تبدیل ہوا۔سیاستدانوں نے پارٹیاں ، پارٹییوں نے چہرے اور چہروں نے وفاداریاں تبدیل کیں۔ البتہ عوام نظام کی تبدیلی مانگتی رہی۔ دیکھتے ہی دیکھتے عوامی فلاحی منصوبوں کے نام تبدیل ہوگۓ۔ وزارتیں تبدیل ہوئیں۔ آۓ روز، روزمرہ اشیاۓ ضروریہ کی قیمتیں تبدیل ۔البتہ سیاستدانوں اور صنعت کاروں کی قسمتیں تبدیل ہوگئیں۔ پھر تبدیلی کے اس سفر میں پوری سرکار ہی تبدیل ہو گئ۔ اور قوم کے پرانے حقیقی خادم آ گۓ۔اب یہاں سے ایک مشکل سفر شروع ہو گیا جس کی وجہ سے مشکل فیصلے کرنے پڑے۔ بڑی مشکل سے مرکز کے بعد بڑے صوبے میں قدم جمانے کی کوشش کی گئی۔ الیکشن سے لے کر کابینہ کی تشکیل اور حلف برداریوں تک تمام مراحل بڑی ہی مشکل سے سر ہوۓ۔اور یوں ایک نیا سیاسی منظر نامہ وقوع پذیر ہوا۔ جہاں نئی سرکار نے مشکلات دیکھیں وہاں عوام پر بھی نہ ختم ہونے والے مشکل دن آن پڑے۔ اورمشکل سرکار کو بجٹ سے قبل مشکل فیصلے کرنا پڑے۔ اب نئے نئے غیر ملکی دوروں پر دو چار وزرا کیا منہ اٹھا کر جاتے ۔ چنانچہ یہ مشکل فیصلہ کرنا پڑا کہ کم از کم دیڑھ دو درجن کا وفد تو ہو کہیں میزبان ملک یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ غریب ملک ایئر ٹکٹوں کا کرایہ بچا رہا ہے عزت نفس کا بھی تو خیال کرنا ہے۔چنانچہ وزرا کی ایک فوج ظفر موج سفر وسیلہ ِظفر کے مشن پر روانہ ہوئی۔ پاکستانی سفارت خانوں میں شا ئد کوئی ڈھنگ کا منجی بسترا نہ ہونے کی وجہ سے اور نسنتاً سستے اور اوسط درجے کے ہوٹلوں میں رش یا کسی بھی وجہ سے ، ہمارے سیاستدانوں کوچاروناچار مہنگے ترین ہوٹلوں میں رہنے کا مشکل فیصلہ کرنا پڑا۔

عوامی ترقی اور عوام کے معاشی و سماجی اسٹیٹس کو بلند کرنے کے لیۓ بجلی گیس اور پیٹرول ڈیزل کے ریٹ ہائی اسٹیڈرڈ پر لانے کا مشکل فیصلہ کیا گیا۔ پہلے شہر کے اندر لوکل ٹرانسپورٹ پر دوران سفر بیس پچیس روییہ دیتے ہوۓ شرمندگی اور خفت سے ہوتی تھی۔ اب بڑے فخر سے پچاس اور سو کا نوٹ دیا جاتا ہے۔نہ کوئی پیچیدگی اور پریشانی نہ بقایا لینے اور دینے کا جھنجھٹ۔

ساتھ ہی ساتھ وزرا اور افسران کے لیۓ نئی گاڑیاں خریدنے کا مشکل فیصلہ بھی کرنا پڑا۔ اب اگر بالفرض ملک غریب ہے اور کوئی مزید قرض بھی نہیں دے رہا تو اس کا مطلب یہ بھی تو نہیں ہونا چاہیے کہ پرانی گاڑیوں میں سفر کر کےہمارے معزز وزا اور اعلی ٰ افسران اپنی جگ ہنسائی کروائیں۔چار دن کی چاندنی ہے پھر کب مواقع ملیں گے۔ٹیکس والی ٹیم سر جوڑ کر بیٹھی ہے کہ کس طرح سے اس عوام کے بدن سے مزید تیل اور جیب سےپیسہ نکالا جاسکتا ہے۔ایک آدھ مشکل فیصلہ اور کر لیں گے۔ویسے بھی نوجوان نسل سوشل میڈیا پر ٹک ٹاک اور دوسرے مشاغل میں مصروف ہے۔ کچھ نوجوانوں میں تو سیاسی پارٹیوں کے عہدے بانٹے ہوۓ ہیں وہ ان میں مگن ہیں۔ پیچھے رہ گئےملکی مسائل اور مہنگائی پر کڑھنے اور واویلا کرنے والے کچھ بابے ۔ جن میں زیادہ تر پینشنرز ہیں ۔ جن کو پانچ پرسینٹ کا لولی پاپ دے دیا گیاہے۔ اونٹ زیرہےکا چٹخارہ لیتا رہےگا۔باقی رہ گۓ حاضر سروس ملازمین۔ تو ان کی بھی پندرہ فیصد تنخواہ بڑھا دی ہے۔وہ کہتے ہیں نا " نوکری کی تے نخرہ کی" ، ان کی کیا جرات جو کچھ بولیں۔ اس مہنگائی میں انہوں نے شکرکیا ہے کہ چلو " بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی "۔

ایک دن وزیر دلپذیر ، بادبیر نے سوچا کہ ہیں بچت اور کفائت شعوری پر بھی توجہ دے کر چند اور مشکل فیصلے کرنا چاہیں۔

قابل اور زرخیز دماغ میں ایک اچھوتا مگرمشکل فیصلہ آیا۔ کہ یہ نکمی قوم جب بھی کوئی ٹینشن لیتی ہے یا کوئی سستی تفریح اور چند منٹ سکون کا سوچتی ہے تو چاۓ سے دل بہلاتی ہے۔ چپڑاسی ،چوکیدار ، چور، اچکے سے لے کر چوہدری چیئرمین اور چیف تک چاۓ تو سب پیتے ہیں۔ اور پھر بتانے والوں نے حساب لگا کر بتایا کہ تقریبا ً ہر بندہ دن میں دو پیالیاں تو ضرور چڑھاتاہے۔ بس کیا تھا ذہن میں ہندسوں کا تنزیلی سلسلہ جاری ہوا۔ جیسے 22 کروڑ عوام اور دو کپ روزانہ۔ گویا 44 کروڑ کپ روزانہ ضرب 365 دن ضرب 5 گرام فی کپ تقسیم 1000۔ اوہ۔ اتنے میٹرک ٹن چاۓ۔ جو کہ باہر سے منگوانا پڑتی ہے۔ چاۓ کی قیمت پلس شپمنٹ پلس اندون ملک ٹرانسپورٹیشن اور پیکنگ ڈسٹری بیوشن۔نہیں نہیں۔ ہمیں چاۓ نہیں پینی۔ وزیر باتدبیر کی سوچ کےاندر ایک بھونچال اور چاۓ کی پیالی میں تو طوفان آ گیا۔کیا بنے گا اس مکک کا۔ اور کیسے پورے ہوں گے یہ خرچے۔ قوم کو فوری طور پر ایک پیالی چھوڑ کر ایک پیالی پر آنا چاہیے۔ 50 فیصد امپورٹ بل میں تو کمی آۓ گی کیونکہ چاۓ بھی ادھار میں آتی ہے۔ قوم کو اعتماد میں لینا پڑے گا۔ اور قوم اس مشکل فیصلہ میں بھی ضرورساتھ دی گی۔ ہم ایک عظیم قوم ہیں۔پھر قوم تک یہ خبر پہنچی۔ اب اگر سرکار کے پاس ارسطو اور افلاطون ہیں تو ادھر عوام میں بھی بڑے بڑے سقراط اور بقراط بیٹھے ہیں۔

اب گلی محلے ہوٹلوں ڈھابوں اور شوشل میڈیا پر ایک ہی موضوع تھا۔ معیشت کی بحالی۔ چاۓ فقط ایک پیالی۔

کل صبح چاچا بنارس پھجے کے ہوٹل پر ایک لمبا چوڑا لیکچر جھاڑتے ہوۓ سرکار کے اس فلسفے اور فارمولے کو کسور عام اور کسور اعشاریہ میں اڑا رہا تھا۔

موصوف فرما رہے تھے۔ہمیں کون سا سرکار چاۓ اپنے گھر سے پلاتی ہے۔ہم نقد پیسے دے کر پیتے ہیں تو سرکار کیوں ادھار میں منگواتی ہے۔ پھجو زرا بتاؤ تو کیا میں نے تم سے کبھی ادھار کیا۔۔ کیا تو معراجے پنساری سےچاۓ کی پتی ادھار میں لاتا ہے ۔ ارے بول نابولتا کیوں ۔ نہیں نا۔ تو پھر سرکار چاۓ کا پیسہ کدھر کرتی ہے ۔ شایداپنا چاۓ پانی چلاتی ہو گی۔ ساتھ بیٹھا بلدیہ واٹر سپلائی کاکلرک بھی ضبط کے بندھن توڑ بیٹھا اور تقریر کے انداز میں بولا ۔گورنمنٹ غریب دیہاڑی دار سے روزگار بھی چھیننے کے درپے ہے۔کتنے لوگوں کا روزگار چل رہا ہے۔اور کتنے شعبے چاۓ سے وابستہ ہیں۔ اب اس مہنگائی کے دور میں شوگر ملوں کی چینی سے چاۓ ہی بنے گی۔ روز روز حلوے تھوڑی بنیں گے۔ڈیری فارمنگ اور دودھ کی سپلائی سے کتنے لوگوں کا روزگار جڑا ہے۔ چاۓ کی خرید و فروخت لاکھوں لوگوں کا منظم کاروبار ہے۔ ہوٹلنگ کے شعبہ سے جڑے کاروبار جیسے دکان اس میں استعمال ہونے والا فرنیچر اور برتن اور متعلقہ سازو سامان دیسی پیالی ٹھوٹھی اور امپورٹد کپ تھرماس چینک سماوارتک سب چاۓ کی وجہ سے تو سارے کاروبار چل رہے ہیں۔اور پھر ہم کونسا سرکاری فنڈ یا اپنی جیب سے پیتے ہیں۔ دفتروں میں یہ چاۓ پانی تو چلتا ہی ہے۔اور تو اور سرکار نے تو سرکاری مراسلہ میں تمام کالج یونیورسٹیوں کو بھی لکھا ہے کہ امپورٹ بل کم کرنے کے لئے چاۓ کی جگہ مقامی مشروب لسی اور ستو کو فروغ دیا جاۓ۔صحت بھی بنے گی اور معیشت بھی۔اب یہ حکومت نوجوان نسل کو لسی ستو پلا کر سلانا چاہتی ہے۔اسی شور شرابہ میں قریبی سکول سےسرجمالی بھی آبیٹھے تھے جو وہاں اردو پڑھاتے تھے۔اور شعرو شاعری سے خوب شغف رکھتے تھے یوں گویا ہوۓ۔ بقول شاعر
دنیا کی الجھنوں سے دور رہتے ہیں
چائے پیتے ہیں اور مسرور رہتے ہیں
*چاۓ کا دور چلے، دور چلے، دور چلے*
*اس کے بعد اور چلے، اور چلے، اور چلے*
کتنا دشوار ہے یہ حکم گوارا کرنا
چائے کی ایک پیالی پہ گزارا کرنا

 

Sibtain Zia Rizvi
About the Author: Sibtain Zia Rizvi Read More Articles by Sibtain Zia Rizvi: 24 Articles with 14794 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.