خیال، سوچ اور خواب وہ بیج ہیں جو ہم دل کی زمین میں بوتے
ہیں۔ پھر ان کو لگن اور محنت کا پانی دے کر بڑا کرتے ہیں۔ اگر خیال کے بوئے
گئے بیج مثبت ہوں تو دل میں اگنے والا پودا شکر کا پھل لگاتا ہے۔ اور اگر
بیج منفی ہوں تو آنے والا پودا نہ صرف کانٹے دار ہو کر ہماری محنت کو ضائع
کر دیتا ہے بلکہ دل کی زمین کو بھی بنجر کر دیتا ہے۔ جہاں صرف نفرت، بغض،
کینہ اور حسد جیسے جذبات رہ سکتے ہیں۔ میں سوچتی ہوں جس دل کو اللہ کا تخت
کہا جاتا ہے جہاں صرف اس کو بسانا ہو، وہاں پر نفرت، شرک و کفر، بغض اور
کینہ وغیرہ کے بیج بوئے ہی کیوں جائیں- صبر و قناعت کا بیج دلوں میں بو کر
اس کو رجوع اور عاجزی کا پانی لگانے سے اور شکر کی کھاد کی گوڈی کرنے سے ہی
اللہ کی محبت کا پودا دلوں میں پروان چڑھایا جا سکتا ہے۔ جہاں حق ہو وہاں
باطل نہیں ٹھہر سکتا کیونکہ رب العالمین فرماتے ہیں کہ حق و باطل اور
اندھیرا اجالا ایک جیسے نہیں ہو سکتے۔
"بھلا جو شخص اپنے منہ کے بل اوندھا چل رہا ہو، وہ منزل تک زیادہ پہنچنے
والا ہوگا یا وہ جو ایک سیدھے راستے پر سیدھا سیدھا چل رہا ہو؟"
(سورتہ الملک، 22)
غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ ایسا ممکن ہی نہیں؛ روشنی اور اندھیرا ایک جیسے
ہو ہی نہیں سکتے۔ اللہ تو ہدایت دینے کے لیے اپنے بندے کو اندھیروں سے نکال
کر آجالے میں لے آتا ہے جہاں سب فریب اور سراب ختم ہو جاتے ہیں۔ اور کفر و
شرک صرف ایک دھوکا ہی تو ہے- یقیناً اندھا اور آنکھ والا برابر نہیں-
تو جب آنکھ کھل جائے اور حق و باطل کی تفریق صاف دکھائی دے تو سمجھ جاؤ کہ
اس نے تمہارا ہاتھ تھام لیا ہے اور تمہیں اندھیروں سے کھینچ لایا ہے؛ سمجھ
جاؤ کہ اس کی محبت کا پودا پروان چڑھنے لگا ہے۔ اور اس پودے کو کیا کیا ثمر
لگتے ہیں میں بیان ہی نہیں کر سکتی۔ ذہن اس کا احاطہ ہی نہیں کر سکتا- سوچ
اس کی وسعت کو سمجھنے سے قاصر ہے- لیکن ہاں! جو اطمینان قلب اب تمہارا مقدر
بننا ہے ناں وہ یقیناً ایک جھلک ضرور ہے اس راستے پر چلنے والوں کی منزل
کی!
راستہ چاہے کتنا ہی طویل ہو جب دل میں اطمینان آ جائے کہ منزل بہت حسین اور
دلپذیر ہے تو راستے میں کوئی رکاوٹ، کوئی دیر، مایوسی پیدا نہیں کرسکتی؛
کیونکہ مایوسی کفر ہے اور نرم خو دلوں میں جب اللہ کے عشق کے چراغ جل رہے
ہوں تو کفر و شرک کے اندھیرے ہمیشہ کے لئے مٹ جاتے ہیں۔
سو چلتے رہو یہاں تک کہ یہ سن لو
النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّة
ارْجِعِي إِلَىٰ رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً
فَادْخُلِي فِي عِبَادِي
وَٱدْخُلِى جَنَّتِى
اے اطمینان والی روح، تو اپنے رب کی طرف لوٹ چل اس طرح کے تو اس سے راضی وہ
تجھ سے خوش۔ پس میرے خاص بندوں میں داخل ہو جا اور میری جنت میں چلی جا۔
(سورتہ الفجر: 27،28،29،30)
|