#العلمAli!lmعلمُ الکتابسُورٙةُالواقعة ، اٰیت 25 تا
57اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اٙفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
برائے مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
لا یسمعون
فیھا لغوا ولا تاثیما 25
الّا قیلا سلٰما و سلٰما 26 و
اصحٰب الیمین ما اصحٰب الیمین
27 فی سدر مخضود 28 وطلح منضود
29 وظل ممدود 30 وماء مسکوب 31 وفاکھة
کثیرة 32 لا مقطوعة ولاممنوعة 33 وفرش مرفوعة
34 انا انشانھن انشاء 35 فجعلنٰھن ابکارا 36 عربا اترابا 37
لاصحٰب الیمین 38 ثلة من الاولین 39 وثلة من الاٰخرین 40 واصحٰب
الشمال ما اصحٰب الشمال 42 فی سموم و حمیم 42 وظل من یحموم 43
لا بارد ولا کریم 44 انہم قبل ذٰلک مترفین 45 وکانوا یصرون علی الحنث
العظیم
46 وکانوا یقولون ائذا متنا و کنا ترابا وعظاما ءانا لمبعوثون 47
اواٰباوؑنا الاولون 48 قل
ان الاولین والاٰخرین 49 لمجموعون الٰی میقات یوم معلوم 50 ثم انکم ایھا
الضالون المکذبون
51 لاٰکلون من شجر من زقوم 52 فمالئون منھا البطون 53 فشٰربون علیہ من
الحمیم 54 فشٰربون
شرب الھیم 55 ھٰذا نزلھم یوم الدین 56 نحن خلقنٰکم فلو لا تصدقون 57
اہلِ جنت کی جس جنت کا اِس سے قبل ہوا ذکر ہے اُس جنت میں کوئی بے مقصد کام
اور کوئی بے معنی کلام نہیں ہوتا اِس لئے اُس جنت میں ہر طرف سلامتی ہی
سلامتی ہوتی ہے اور سلامتی کی اُس جنت میں جانے والے سعادت مند لوگوں کو
انعام میں جو باغات دیئے جاتے ہیں اُن کے اٙشجار بے خار اور پٙھل ذائقے دار
ہوتے ہیں اور اُن باغات میں جو آبی چشمے جاری ہوتے ہیں وہ آبی چشمے اُن
درختوں پر وہ پٙھل لاتے ہیں جو ہر روز پہلے سے زیادہ ہوتے جاتے ہیں اور اُن
باغوں اور بہاروں میں رہنے والے اپنے زر نگار تختوں پر بیٹھے ہوئے اُن سے
شاد کام ہوتے رہتے ہیں ، اُس جنت میں اُن کے اور اُن کے رفقائے حیات کے
جسموں اور اُن کی جانوں کو وہ حیاتِ نٙو دے دی جاتی ہے جو اُن کو اُن کے
پرانے بچپن اور پرانے بڑھاپے سے نکال کر ایک نئی دائمی اور ہم عُمر جوانی
کے اُس دور میں لے جاتی ہے جس دور میں جانے کی اُن کے دل میں تمنا ہوتی ہے
، اُس وسیع جنت میں اُن پہلے لوگوں کی تعداد اگرچہ زیادہ ہے جن کا پہلے پہل
ذکر ہوا ہے لیکن اُن لوگوں کی تعداد بھی کُچھ کم نہیں ہے جن کا اُن پہلے
لوگوں کے بعد میں ذکر کیا گیا ہے لیکن جو لوگ شمال کی جانب جمع ہوتے ہیں وہ
شدید گرم موسموں کی اُس شدید گرم و سیاہ ہوا میں رہتے ہیں جس کی شدت میں
کبھی بھی کمی نہیں آتی اور وہ اُس کھولتے ہوئے پانی سے اپنی تشنگی بُجھاتے
ہیں جو کبھی بھی ٹھنڈا نہیں ہوتا ، یہ وہی ظالم لوگ ہوتے ہیں جو دُنیا میں
کم زور لوگوں کو اپنے ناز و نخرے دکھاتے ہیں اور اپنی معصیت پر مُصر رہتے
ہوئے یہ بھی کہتے ہیں کہ ہم بٙھلا یہ اٙنہونی بات کیوں مان لیں کہ جب ہم سب
مر کر مٹی ہو جائیں گے تو اپنے اعمالِ حیات کی جواب دہی کے لئے دوبارہ زندہ
کر دیئے جائیں گے اور ہمارے بڑوں کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہو گا اِس لئے اِن
لوگوں کو اسی دُنیا میں بتا دیا جائے کہ وقت آنے پر تُم کو اور تُمہارے
ساتھ تُمہارے دادوں اور پوتوں کو بھی یہاں ضرور جمع کیا جائے گا اور اِس
یومِ حساب کے جُھٹلانے والوں کو یہاں پر پیٹ بھر کر زقوم کا بد ذائقہ پٙھل
کھلایا جائے گا اور پیاس بُجھانے کے لئے اُن کو کھولتا ہوا پانی دیا جائے
گا اور وہ بُھوکے اونٹ کی طرح یہی خوراک کھانے اور یہی پانی پینے رہیں گے
اور یاد رکھو کہ اُس دن یہاں پر یہی اُن کی مہمان داری ہوگی کیونکہ جو لوگ
اپنے خالق اور اپنی تخلیق کا انکار کرتے ہیں اُن کا یہی بدترین اٙنجام ہوتا
ہے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اِس سُورت میں قُرآن نے اِس عالٙم پر آخری قیامت سے پہلے آنے والی جس پہلی
قیامت کا اور پھر اُس پہلی قیامت کے بعد اِس عالٙم پر آنے والی آخری قیامت
کا پہلُو بہ پہلُو ذکر کیا ہے اُس کا مقصد انسان کو ماضی کی اٙمثال سے
مُستقبل کا اٙحوال سمجھانا ہے اور قُرآن نے اُس پہلی اور آخری قیامت کے
پہلُو بہ پہلُو جنت و جہنم کا جو ذکر کیا ہے اُس سے بھی انسان کو یہ باور
کرانا مقصود ہے کہ وہ اپنے جس رٙنجِ حیات سے ایک دائمی نجات چاہتا ہے اور
وہ اپنی جس دائمی راحتِ حیات کی اپنے دل میں تمنا و طلب موجُود پاتا ہے اُس
جنت کا حصول قیامت کے بعد اِس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ جو انسان اللہ
تعالٰی کی اِس زمین پر اللہ تعالٰی کے اٙحکامِ نازلہ کے مطابق زندگی بسر
کرے گا اُس کو قیامت کے بعد لازما وہ دائمی جنت دے دی جائے گی جس میں ہر
طرف اُس کے لئے راحت ہی راحت ہے لیکن جو انسان اللہ تعالٰی کی اِس زمین پر
اللہ تعالٰی کے اٙحکامِ نازلہ سے بغاوت کرکے زندگی بسر کرے گا تو اُس کو
قیامت کے بعد لازما اُس جہنم میں جانا پڑے گا جس جہنم میں اُس کے لئے ہر
سُو ایک اذیت ہی اذیت ہے چنانچہ قُرآن نے اِس سُورت میں جن تفصیلات کے ساتھ
قیامت اور جنت و جہنم کی تمثیلات کو بیان کیا ہے اُن تفصیلات و تمثیلات سے
یہی بات سمجھانا مقصود ہے کہ انسان کی نجات کے امکانات کن مُمکنات کے ساتھ
اور کن عدمِ نجات کے امکانات کے مُمکنات کے ساتھ جُڑے ہوئے ہیں لیکن
موجُودہ اٰیات میں جس چیز کو زیادہ نمایاں کر کے بیان کیا گیا ہے وہ قیامت
کے بعد انسان کو ملنے والی وہ انسانی زندگی ہے جو انسانی ارتقائے حیات کی
سب سے طویل ترین زندگی ہے اور جس زندگی کو انسان کی حیاتِ جاوید کا نام دیا
گیا ہے لیکن اِس زندگی کو سمجھنے کے لئے زندگی کے اِس نقشے کو سمجھنا ضروری
ہے زندگی کا جو نقشہ انسانی زندگی کے بچپن و جوانی اور پڑھاپے کے اُن تین
اٙدوار پر مُشتمل ہوتا ہے جن تین ادوار میں سے پہلا دور اُس کی کمسنی کی
تنہائی اور کمسنی کے خوف سے عبارت ہوتا ہے ، اُس کا دُوسرا دور اُس کی
جوانی کی بزم آرائیوں سے عبارت ہوتا ہے اور اُس کا تیسرا دور اُس کے بڑھاپے
کی یقینی و غیر یقینی کیفیات اور یقینی و غیر یقینی تجربات سے عبارت ہوتا
ہے اور اِن ادوار میں اُس کی جوانی ہی اُس پر آنے والی وہ جُوئے بہار ہوتی
ہے جو اُس پر گُل و بُوئے گُل کے خزانے لُٹانے اور مُستقبل کے حسیں خواب
دکھانے کے لئے آتی ہے اور اُس کی وجہ سے ہر انسان کے لئے اُس کی یہ دیوانی
جوانی ہی اُس کی زندگی کی سب سے زیادہ حسین ترین چیز ہوتی ہے اِس لئے قُرآن
کی اٰیاتِ بالا میں انسان کو انسان کی اُس نشاةِ ثانیہ کی خوش خبری دی گئی
ہے جس نشاةِ ثانیہ کا معنٰی انسان کی موت کے بعد انسان کی پہلی زندگی کو
ایک نئی اور اعلٰی شکل و صورت میں ڈھالنا ہے ، قُرآن نے انسان کی اِس نشاةِ
ثانیہ کو سُورٙةُالنجم کی اٰیت 47 میں انسان کی دُوسری بار کی جانے والی
تعمیرِ حیات سے اور سُورٙةُالعنکبُوت کی اٰیت 20 میں انسان کی آخری بار کی
جانے والی تعمیرِ حیات کا نام دیا ہے لیکن ہم انسان کی دُوسری تعمیرِ حیات
اور آخری تعمیرِ حیات کی تفصیلات سے گریز کرتے ہوئے صرف اِس ایک نُکتے پر
اپنی بات محدُود رکھتے ہیں کہ اہلِ جنت کو اُس جنت میں پہلی زندگی کے بعد
دُوسری بار جو دُوسری زندگی دی جائے گی اُس زندگی سے اُس کے بچپن اور
بڑھاپے کے خوف کو نکال کر اُس کو وہ جوانی دی جائے گی جس جوانی کی ترنگ میں
اُس کے بچپن کی معصومیت اور اُس کے بڑھاپے کی جہاں دیدگی شامل ہوگی اور پھر
اُس کی اُس حسین زندگی کو اُس کے لئے راحت و مُسرت کی ایک دائمی زندگی بنا
دیا جائے گا اور جن اہلِ روایت نے اِن اٰیات سے عورتوں کو باکرہ اور مردوں
کو بُو بکرے بنانے کے خانہ ساز مفاہیم نکالنے کی جسارت کی ہے اُنہوں نے صرف
جٙھک ماری ہے کیونکہ اُن کے یہ ناشائستہ تفسیری مفاہیم قُرآن کی شائستہ
تعلیم و تفہیم کے خلاف ہیں !!
|