بیٹی کے باپ کو کسی پر بھی بھروسہ نہیں کرنا چاہیے چلتی ہوا پر بھی نہیں، کیا ڈرامہ میرے ہمسفر میں دیا جانے والا یہ پیغام درست ہے؟

image
 
پاکستانی ڈراموں کے ذریعے معاشرے کے مسائل کی نشاندہی کرنے کے ساتھ ساتھ ان کا ایک منفرد انداز میں حل بھی بتایا جاتا ہے- یہی وجہ ہے کہ کمرشل چینلز کے آنے کے باوجود پاکستانی ڈراموں کا مقام کم نہیں ہو سکا بلکہ بہتر سے بہتر ہوتا جا رہا ہے-
 
ڈرامہ میرے ہم سفر
حالیہ دنوں میں عوام میں مقبولیت کے جھنڈے گاڑتا ڈرامہ میرے ہم سفر نے بہت ہی مضبوط انداز میں لوگوں کے دلوں میں جگہ بنائی ہے۔ گھریلو سیاست اور مسائل کے ساتھ ساتھ اس ڈرامے میں دیے گئے پیغامات بالکل اس حد تک واضح ہیں کہ اکثر دیکھنے والوں کو کسی نہ کسی حد تک یہ ان کے اپنے گھر کی کہانی لگ رہی ہے-
 
میرے ہم سفر کی کہانی
یہ کہانی تین بھائيوں کی کہانی ہے جن میں سے دو پاکستان میں رہتے ہیں جب کہ ایک بھائی بیرون ملک رہتا ہے اور وہیں شادی کرتا ہے اور بیوی کے علیحدگی کی صورت میں اپنی اکلوتی بیٹی ہالہ کو پاکستان دادی کے پاس چھوڑ کر خود دوبارہ باہر چلا جاتا ہے-
 
تایا اور چاچا کے گھرانوں کے ساتھ پلنے والی اس بچی کو ان کی بیویوں اور بچیوں کی طرف سے بچپن ہی سے سخت ترین مخالفت اور ظلم کا سامنا کرنا پڑتا ہے- واحد دادی اس گھر کی وہ مہربان شخصیت ہوتی ہے جس کے سائے میں اس کو پناہ ملتی ہے-
 
image
 
ہر وقت کے طنز اور تنقید کے سبب ہالہ کی شخصیت احساس کمتری کا شکار ہو جاتی ہے ہالہ کے کردار میں ہانیہ عامر نے بہترین اداکاری کا مظاہرہ کیا ہے- دوسری طرف بیرون ملک سے تعلیم حاصل کر کے واپس آنے والا اس کے تایا کا اکلوتا بیٹا واپسی کے بعد خاندان کی اس زيادتی پر آواز اٹھاتا ہے یہاں تک کہ ایک موقع پر ہالہ کے ساتھ نکاح کرنے پر بھی مجبور ہو جاتا ہے- جس کو اس کی ماں کسی صورت قبول نہیں کرتی ہے-
 
ہالہ کی تائی اس کے خلاف مستقل سازشیں کر کے ہالہ کی پر سکون زندگی کو مسائل کا شکار کرتی رہتی ہے اسی دوران دادی کی طبیعت بھی بگڑنے لگتی ہے اور وہ سختی سے ہالہ کے باپ کو پاکستان آنے پر مجبور کرتی ہے-
 
مرنے سے قبل ہالہ کے باپ کا ہاتھ پکڑ کر کہے گئے اس کے ڈائلاگ نے نہ صرف لوگوں کو اشکبار کر دیا بلکہ ایک اہم حقیقت کی طرف بھی سب کی توجہ مبذول کروا دی-
 
دادی کا کہنا تھا کہ بیٹی کے معاملے میں باپ کو کسی پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے چلتی ہوا پر بھی نہیں بیٹی کے معاملے میں کسی پر بھروسہ نہیں-
 
بیٹی کے معاملے میں کسی پر بھروسہ نہیں
ویسے تو انسان کو ساری ہی اولاد پیاری ہوتی ہے لیکن بیٹیاں بہت حساس ہوتی ہیں ان کو زندگی کے ہر وقت میں اپنے ماں باپ کی ضرورت ہوتی ہے- دوسرا چاہے جتنا بھی پیار دے ماں باپ کی کمی کو پورا نہیں کیا جا سکتا-
 
image
 
اور ایسے بچے جن کے ماں اور باپ دونوں ہی ان کے سروں پر نہ ہوں ان کی شخصیت میں یہ کمی مستقل بنیادوں پر رہ جاتی ہے جس کے اثرات آئندہ نسلوں تک رہتے ہیں-
 
رشتے سگے بھی ہوں تو ان کی محبت سوتیلی ہو جاتی ہے
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اگر سر پر ماں باپ نہ ہوں تو سگے رشتے داروں کی محبت بھی سوتیلی ہو جاتی ہے کیوں کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ جہاں معاملہ اپنی اولاد کا ہو وہاں انسان دوسرے کی اولاد کو وہ محبت نہیں دے سکتا ہے جو کہ اپنی اولاد کو دیتا ہے-
 
ڈرامے کے ان مناظر نے سب کو جذباتی کر دیا
میرے ہم سفر کی حالیہ قسط جس میں دادی یعنی ثمینہ احمد کی موت کے مناظر اور ان کی اپنے بیٹے کے ساتھ آخری گفتگو تھی اس نے دیکھنے والوں کے دلوں کو بری طرح متاثر کیا بلکہ اکثر سوشل میڈيا صارفین کے مطابق ان کی آنکھوں میں بے ساختہ آنسو آگئے-
 
ایسے ڈرامے اس بات کا ثبوت ہیں کہ آج بھی اگر ٹیلی وژن پر اچھی اور مؤثر چیز دکھائی جائے تو لوگ نہ صرف اس کو دیکھتے ہیں بلکہ اس سے متاثر بھی ہوتے ہیں-
YOU MAY ALSO LIKE: