بیوی کے جیب خرچ کے معاملہ میں بخل
(Qazi Nadeem Ul Hassan , Bahawalpur)
*"اپنی بیوی کو کسی اور کا محتاج نہ بنائیں"*
اپنی بیوی کو کسی اور کا محتاج نہ بنایئں۔ ہر ماہ بیوی کا ذاتی خرچ لاذمی
دیا کریں۔ ہمارے معاشرے کے اکثر گھروں میں یہ معاملہ پایا جاتا ہے کہ اگر
بیوی شوہر سے جیب خرچ واسطے کچھ پیسوں کا مطالبہ کرے تو سامنے سے جواب ملتا
ہے کہ "تم کیا کرو گی پیسوں کا، ہر چیز تمہیں مل تو جاتی ہے، سب کچھ لا کر
تو دیتا ہوں، جو منگوانا ہو بتا دو میں لادوں گا، فضول پیسے نہیں میرے پاس"
مطلب دنیا بھر کی تقریریں شروع کردے گا مگر مجال ہے کہ کچھ پیسے نکال کر
بیوی کے ہاتھ میں رکھ دوں کہ شاید اسے کچھ ضرورت ہو۔
پھر وہ بیچاری مجبور ہوکر کبھی اپنے ماں باپ کے سامنے ہاتھ پھیلاتی ہے،
کبھی بہنوں سے سوال کرتی ہے تو کبھی دوستوں سے اُدھار مانگتی ہے۔ واللہ
میری سمجھ سے باہر ہے کہ شوہر حضرات یہ کیسے گوارہ کرلیتے ہیں کہ میری بیوی
میرے ہوتے ہوۓ دوسروں سے پیسے مانگتی پھرے۔
ظاہر بات ہے کہ وہ بھی انسان ہے، اسکی بھی ضروریات ہیں، بحیثیت انسان اسکا
بھی کہیں کچھ خرچ کرنے کا دل کرتا ہے، اپنی پسند سے کوئ چیز خریدنے کا دل
کرتا ہوگا، اپنے والدین، بہن بھائ یا سہلی وغیرہ کو کچھ دینے کا دل کرتا
ہوگا، صدقہ خیرات کرنے کا دل کرتا ہوگا، کسی غریب کی مدد کرنے کا دل کرتا
ہوگا، اس بات کا بھی دل کرتا ہوگا کہ کچھ پیسے میرے پاس ہر وقت موجود رہیں
جو کبھی بھی کسی بھی مجبوری میں کام آجایئں۔
وہ آپکے لیے اپنا گھر بار ماں باپ بہن بھائ سب چھوڑ آئ، اُس نے اپنے آپکو
اور اپنی زندگی کو آپ کے حوالے کردیا، خود کو آپ کے سُپرد کردیا، آپ کے
ماتحت زندگی گذارنے چلی آئ، اب وہ خود کمانے تو کہیں جاتی نہیں لہذا اسکی
جملہ ضروریات آپ کے ذمہ ہے۔ ہم باہر دوستوں کے ساتھ ہوٹلوں پر، ٹوورز پر،
آؤٹنگ پر پر اور دیگر فضولیات پر ہزاروں روپے اڑادیتے ہیں اور جب اپنی بیوی
کچھ پیسے مانگ لے تو طرح طرح کی باتیں سنانے لگ جاتے ہیں۔
ہر ماہ اپنی تنخواہ سے بیوی کا جیب خرچ اپنی استطاعت کے مطابق متعین کردیں،
جب بھی تنخواہ ملے گھر آکر بیوی کو دو ہزار، پانچ ہزار، یا دس ہزار جتنی آپ
کی گنجائش ہو اسکے مطابق بیوی کو لازمی جیب خرچ دے دیں اور جیب خرچ دینے کے
بعد بیوی سے ان پیسوں کا حساب نہ لیں کہ کہاں خرچ کیا، کتنا خرچ کیا، کیوں
خرچ کیا۔ نہیں۔۔۔بلکل نہیں۔ وہ جہاں خرچ کرنا چاہے اسے خرچ کرنے کی اجازت
دیں۔ جیب خرچ کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ بندہ اپنی مرضی سے اپنی خواہش کے
مطابق جہاں اسکا دل کرے خرچ کرسکے۔
بیوی سے جیب خرچ کا حساب مانگنے سے بداعتمادی پیدا ہوتی ہے۔ بیوی کے ساتھ
سخاوت کا مظاہرہ کریں۔ بخیل نہ بنیں۔ ایک جگہ سرکار دو عالم حضرت محمدﷺ نے
ارشاد فرمایا جس کا مفہوم ہے کہ "اگر ایک دینار تم اللہ کی راہ میں خرچ
کرو، ایک دینار غلام آزاد کرنے کے لیۓ خرچ کرو، ایک دینار مسکین کو صدقہ دو
اور ایک دینار اہل و عیال پر خرچ کرو تو افضلیت کے اعتبار سے سب سے افضل
دینار اہل و عیال پر خرچ کیا گیا ہے"
رب تعالی عمل کی توفیق عطا فرماۓ۔ آمین۔
|
|