متشدد رویے

موجودہ جمہوری نظام انسانی دانش کا لاجواب تحفہ ہے ۔ انسانی کارواں کو اس خواب کی تعبیر کیلئے صدیوں کا سفرطے کرنا پڑا ۔بڑے بڑے دانشورز ،فلاسفرز اور اہل عقد نے اپنی عرق ریزی سے جمہوری نظام کا ایک خوشنما ڈھانچہ ترتیب دیا تب کہیں جا کر انسانیت عزت و وقار ،آئین وقانون،تقدس اور احترام کی مسند سے ہمکنار ہوئی۔جمہوری سوچ کی راہ میں بے شمار رکاوٹیں آئیں اورکاروانِ انسانیت کو سخت ابتلاء و آزمائش مصائب اور سختیوں سے گزرنا پڑا کیونکہ شہنشاہ ، جرنیل،اور طالع آزما عوام کو حقِ حکومت تفویض کرنے کیلئے کسی بھی حال میں آمادہ نہیں تھے۔وہ اپنے اقتدارکے خاندانی اور موروثی حق سے کسی بھی صورت دستبردار ہونے کیلئے تیار نہیں تھے لہذا وہ ہر اس آواز کو جو ان کے اقتدار کیلئے خطرے کا باعث بنتی ملیا میٹ کر دیتے تھے۔وہ انقلابیوں کو ، زنجیروں میں جکڑتے ،ہاتھیوں کے پاؤں تلے کچلتے اور ان کے خونِ نا حق سے اپنی انا اور اقتدار کی شمشیرِ برہنہ کی پیاس بجھانے میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کرتے تھے ۔شہادتیں، پھانسیاں جلاوطنیاں اورجیلیں حریت پسندوں کا مقدر بنتی تھیں لیکن وہ با جرات سرفروش پھر بھی اپنی چنی گئی راہ سے راہِ فرار اختیار نہیں کرتے تھے ۔میری ذاتی رائے ہے کہ جمہوریت کا یہ تحفہ کسی طالع آزما نے اپنی خوشی سے انسانیت کو پلیٹ میں رکھ کر نہیں دیابلکہ یہ انسانی جدوجہد اور لازوال قربانیوں سے جمہوری منزل تک پہنچنے کیلئے ان سرفروشوں کی جدوجہد کا حسین و جمیل تحفہ ہے ۔ اس کرہِ ارض پر جمہوری تصور کو حقیقت کا جامہ پہنانے کیلئے جس انسان نے بھی اپنا خون دیا ہے اس پر انسانیت سدا فخر کرتی رہے گی کیونکہ جمہوریت کی روح ،محروموں ، کمزوروں ، خاک نشینوں اور ناتوانوں کو انصاف اور برابری کا حق تفویض کرتی ہے۔جبرو فسطائیت کے دور میں آزادی کی لہر کا حصول ایک غیر معمولی صورتِ حال تھی جو محض اس وجہ سے انسانیت کا مقدر بنی کیونکہ انقلابی کسی بھی حالت میں اس سے کم پر آمادہ نہیں تھے ۔ جو ش و جنون دلوں میں جاگزین ہو جائے تو پھر جان کی کون پرواہ کرتا ہے؟بہر حال ناقابلِ فراموش قربانیوں اور لہو کے خراج کے بعدہی ایسی حسین و جمیل منزل مقدر بنتی۔(خونِ دل دے کر نکھاریں کے رخِ برگِ گلاب۔،۔ہم نے گلشن کے تحفظ کی قسم کھائی ہے )۔،۔

جمہوریت در اصل اظہارِ رائے کا نام ہے۔ہر حکومت عوامی منشاء،ووٹ اور رائے دہی سے تشکیل پاتی ہے اور ہر شہری کو آزادانہ رائے کا اختیار تفویض کرتی ہے ۔جبرو کراہ اور دباؤ کے تحت دی گئی ر ائے کی آئین و قانون کی نظر میں کوئی وقعت نہیں ہوتی۔اسی لئے ہر شہری کے ووٹ کوخفیہ رکھا جاتا ہے تا کہ کوئی امیداور انتخابات میں کسی کو اپنی انتقامی روش کا کسی کو نشانہ نہ بنا سکے۔ ہمارے ہاں ووٹ کی خریدو فروخت کی سخت ممانعت ہے لیکن پھر بھی مالدار یہ گھٹیا اور گھناؤنا کھیل کھیلنے سے باز نہیں آتے۔دولت سے ووٹ خریدنے کی روش عام ہو تی جا رہی ہے اور مجبور و بے بس انسا نوں کی بے بسی کو دولت کے ترازو میں تولنے کا چلن عام ہو تا جا رہا ہے۔ انتخابات میں جس طرح دولت کا بے دریغ استعمال کیا جا تا ہے اس سے انتخابی عمل کی شفافیت پر سوالات اٹھتے رہتے ہیں۔ایشیا کے اکثرو بیشتر ممالک اس لعنت کے اسیر ہیں۔ طبقاتی تقسیم اس طرح کی خرید و فروخت کو مزید آسان بنا دیتی ہے ۔ووٹوں کی خریدو فروخت دردِ سری کے ساتھ ساتھ جمہوری نظام کیلئے ایک سنگین خطرہ بھی ہے کیونکہ طاقتور گروہ اور جما عتیں دولت کی طاقت سے اپنی مرضی اور منشاء کو بزورِ قوت دوسروں پر تھوپنے کی کوشش کرتی ہیں اور اسی جبر ِ ناروا کو ہی توفسطائیت کہتے ہیں ۔ دوسروں کی رائے کا جب احترام اٹھ جاتا ہے تو پھر معاشرے تقسیم کا شکار ہو جاتے ہیں۔انارکی اور خانہ جنگی ایسی ہی منفی سوچ سے جنم لیتی ہے ۔ مخالفین کی سرِ عام تذلیل اور ان کے گھروں پر حملے اسی سوچ کا نتیجہ ہوتے ہیں۔اس بات پر اڑ جانا کہ جو ہم کہتے ہیں وہی سچ ہے لہذا ہمارے بیان کردہ سچ کو من و عن تسلیم کرنا سب کیلئے لازم ہے متشدد سوچ ہے ۔اختلافِ رائے کو جمہوریت کا حسن گردانا جاتا ہے لیکن سوشل میڈیا نے اس اختلافی آواز کابھی گلہ گھونٹ دیا ہے۔مخالفین کا سوشل بائیکاٹ کرنا اور ان سے تعلقات کی کشیدگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی ۔ دوسروں کو گالیوں سے نوازنا اور ان کی ہر رائے کو گھٹیا،فرسودہ اور بے سرو پا کہہ کر رد کر دینے کے طرزِ عمل کوئی پچھتاوا نہیں ہوتا یہی وجہ ہے کہ تحمل بردباری اور برداشت کا وہ کلچر جو جمہوریت کا حسن ہے دم توڑ رہا ہے۔لوگ نفرت ،عناد اور دشمنی میں ساری حدیں عبور کرتے جارہے ہیں جس سے پاکستانی قوم مختلف خانوں میں تقسیم در تقسیم کے عمل سے گزر رہی ہے ۔رائے رکھنا ایک اعلی عمل ہے لیکن اس کیلئے اپنی رائے کو مقدم جاننا اور دوسروں کی رائے کو حقیر جاننا غیر جمہوری روش ہے۔ اپنی رائے پر ڈٹ جانا اور اس کا برملا اظہار کرناقابلِ ستائش عمل ہے اور یہی روحِ جمہوریت ہے ۔،۔

میری ذاتی رائے ہے کہ اپنے مخالفین کی رائے کا احترام جمہوریت کی بنیاد ہے اور جب تک دوسروں کی رائے کو اہمیت نہیں دی جاتی جمہوریت کے مقاصد پورے نہیں ہو سکتے ۔ کچھ جماعتیں اپنے کارکنوں کو تشدد پر ابھارتی ہیں اور دوسروں کی رائے کو وزن دینے اور اس کا احترام کرنے کی تربیت کا کوئی اہتمام نہیں کرتیں بلکہ انھیں جذباتی، سطحی اور غیر منطقی نعروں کا غلام بنالیتی ہیں۔وہ ان سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سلب کر لیتی ہیں کیونکہ ان کے کارکنوں کی اکثریت تعلیم سے محروم ہوتی ہے ۔ایسی جماعتوں کی متشدد سوچ جمہوری نظام کیلئے حقیقی خطرہ ہوتی ہے ۔سری لنکا آج کل اسی سوچ کی وجہ سے خانہ جنگی کا شکارہو چکاہے جس سے اس کی سالمیت خطرات کی زد میں ہے ۔ امریکی صدر ڈولنڈ ٹرمپ بھی اسی طرح کی سوچ کے علمبردارتھے ، پہلے تو انھوں نے ڈاک (پوسٹ ) سے آنے والے ووٹوں کی گنتی پر اعتراض اٹھایااور انھیں شمار کرنے کے خلاف سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کر دی لیکن جب اس میں انھیں کامیابی نہ ملی تو انھوں نے نئے منتخب صدر جو بائیڈن کی تقریبِ حلف برداری میں رخنہ اندازی کا وطیرہ اپنایا جس سے کچھ انسانی جانوں کا ضیاع بھی ہوا لیکن کانگریس نے ڈو لنڈ ٹرمپ کی متشدد سوچ اور غیر جمہوری طرزِ عمل کوند امت و ناکامی سے دوچار کیا اور یوں امریکہ کو جمہوری سوچ کی قبا میں ترقی کی منازل طے کرنے والی شاہراہ پر نئی شان و شوکت کے ساتھ محوِ سفرکر دیا ۔روڈلف ہٹلر بھی دوسروں کی رائے کو اہمیت نہیں دیتا تھا جس کی وجہ سے نازی ازم نے جنم لیا تھا اور یوں اس سوچ نے پوری دنیا کو ایک ایسی آگ میں جھونک دیا جس میں کروڑوں انسان لقمہِ اجل بنے۔ نازی ازم دوسروں کی سوچ اور رائے کو رد کرنے اور ہٹ دھرمی کا دوسرا نام ہے۔دوسری جنگِ عظیم روڈلف ہٹلر کی اناپرستی کی ایسی داستان ہے جس نے انسانیت کو لہو لہان کر دیاتھا۔جو قوم بھی انانیت کی ایسی غلط راہ پر محوِ سفر ہوجاتی ہے اس کا انجام ہٹلر جیسا ہی ہوتا ہے لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاست کو ذاتی دشمنی میں بدلنے کی بجائے اس میں افہام و تفہیم اور تحمل کی راہ اپنائی جائے تا کہ ترقی اور خوشخالی پاکستان کا قدر بن سکے ۔ اپنے من پسند قائدین سے محبت اور جانثاری سے کوئی کسی کو نہیں روکتا لیکن لیکن قومی املاک کو جلانا،نقصان پہنچانا اور تہس نہس کرنا قومی خدمت قرار نہیں پا سکتا لیکن ہمارے قائدین پھر بھی ایسی انقتامی سوچ کا درس دینے ہیں اور یوں اپنی چرب زبانی سے اس مہلک چیز کو جو باعثِ ندامت ہے باعثِ فخر بناکر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔پاکستان عطیہِ خداوندی ہے لہذا اسے ہر قسم کی متشدد سوچ اور انتقامی فکر سے پاک و صاف ہو نا چائیے۔بقولِ اصغر سودائی ؔ( کتنے ماتھے جلے تب یہ جھومر بنا)۔،۔
 

Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 619 Articles with 449730 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.