نان کسٹوڈیل والدین اور گارڈین کورٹس

پاکستان میں اس وقت لاکھوں کی تعداد میں ایسے والدین ہیں جن میں کسی نہ کسی وجہ سے علیحدگی ہو چکی ہے۔ کہیں شوہر قصور وار ہوتا ہے یا اچھے کردار کا مالک نہیں نکلتا، تو کہیں بیوی کی شوہر یا اس کے گھر والوں سے نہیں بن پاتی۔ کہیں آپس میں ذہنی ہم آہنگی پیدا نہیں ہو پاتی تو کہیں کوئی اور وجہ علیحدگی کی صورت ٹھہرتی ہے۔ ان گھریلو ناچاقیوں پر بالخصوص اولاد ذہنی تناؤ کا شکار ہو جاتی ہے۔ دوسری جانب والدین میں علیحدگی ہو جائے تو پھر دونوں فریقین کے درمیان بچوں پر حق جتانے کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ بات طول پکڑنے پر گارڈین کورٹس کا سہارا لیا جاتا ہے، جو عموماً بچوں کو قانونی طور پر ماں کے حوالے کر دیتی ہیں ، اور باپ کو بچے سے ملاقات کیلئے ایک شیڈول دے دیا جاتا ہے ۔ تاہم بدقسمتی یہ ہے کہ مذکورہ شیڈول کے تحت باپ اور بچے کی ملاقات کو یقینی نہیں بنایا جاتا ۔ والدین عدالتوں میں خوار ہو رہے ہوتے ہیں لیکن کسی منصف کو اس کا احساس نہیں ہوتا۔ بچوں کو کسٹڈی میں رکھنے والے فریق کی جانب سے متعلقہ تاریخوں پر اکثر بہانے بازی کی جاتی ہے اور کئی کئی ماہ تک ملاقات نہیں کروائی جاتی۔ ملاقات ہو بھی جائے تو محض چند منٹوں پر محیط ہوتی ہے، اور وہ بھی عدالت کے احاطے میں، جہاں باپ آزادی اور پرائیویسی کے ساتھ بچوں کے ساتھ وقت گزارنے سے محروم ہوتا ہے۔ یہ والد کی تذلیل نہیں تو اور کیا ہے، کہ وہ کسی قیدی کی حیثیت سے اپنے بچوں سے مل رہا ہوتا ہے۔ یوں یہ بچے باپ کے زندہ ہوتے ہوئے بھی یتیم کی سی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔ ایسے میں وہ احساس محرومی کا شکار نہیں ہوں گے یا رولنگ سٹون نہیں بنیں گے تو اور کیا ہوں گے؟ ۔ اس صورتحال سے بچنے کیلئے بہتر یہی ہوتا ہے کہ عدالتوں کے دھکے کھانے کی بجائے والدین علیحدگی کے بعد آپس میں ہی بچوں کے ملنے ملانے کے معاملات طے کر لیں۔ کیونکہ بدقسمتی سے ہمارا نظام انصاف اس قابل ہی نہیں کہ درخواست گزار کی اپیل پر بروقت فیصلہ کر سکے۔

گارڈین کورٹ میں آپ کو کئی والدین ایسے بھی ملیں گے جو مہینوں بچوں کی شکل دیکھنا تو دور کی بات، فون پر بھی بات کرنے سے محروم رکھے جاتے ہیں۔ یہ بچے بوجوہ ''لیگل یتیم'' کے ٹائٹل تلے شب و روز گزار رہے ہوتے ہیں۔ ازدواجی زندگی کی تباہی میں قصور وار شوہر ہو یا بیوی، اپنی لڑائی میں بچوں کو نہیں استعمال کرنا چاہئے، ان میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت نہیں بونی چاہئے۔ وہ دونوں کا بچہ ہے اور اسے کسی ایک سے ملنے کے حق سے محروم رکھا جانا اس قانون کی بھی خلاف ورزی ہے جس کے تحت ان کی ملاقات طے کی گئی ہے۔ آخر کیوں بچوں کو آزمائش میں مبتلا کیا جاتا ہے؟ جبکہ ابھی وہ طفل مکتب ہوتے ہیں۔ ان کے کچے ذہنوں میں والد یا والدہ کے خلاف نفرت پیدا کرنے سے پہلے یہ کیوں نہیں سوچا جاتا کہ ان پر دوسرے فریق کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا پہلے فریق کا ہے۔ والدین اپنی لڑائی میں بچوں کا مستقبل برباد کر دیتے ہیں۔ دوسری جانب فیصلہ ساز بھی منصب سے انصاف برتنے اور اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام رہتے ہیں جس سے معاملہ طول پکڑتا ہے۔

فیملی کورٹس کے نظام انصاف میں تاخیر کے خلاف، اپنے حقوق کیلئے پاکستان بھر سے نان کسٹوڈیل فادرز رواں ہفتے پہلی مرتبہ ایک آگاہی مارچ + احتجاج کر رہے ہیں۔ اس واک کے ذریعے ان کا مطالبہ فقط یہی ہے کہ بچے بیشک ماں کے پاس رہیں، لیکن ہفتے میں ایک روز کیلئے، کسی وقت کی قید کے بغیر، بچے والد کے حوالے ضرور کئے جائیں تاکہ وہ اپنی اداسی اتار سکیں۔ نیز گارڈین کورٹ بچوں سے ملنے کا آسان حل متعارف کروائے۔ بچوں کے ذہنوں میں نان کسٹوڈیل فاردز کا جو منفی تاثر اجاگر کیا جا رہا ہے، اس کا فی الفور قانونی سدباب کیا جائے۔ ''وائس آف فادرز''، اس آگاہی واک کے ذریعے یہ بھی تقاضہ کرے گی کہ فیصلہ کرتے یا انصاف فراہم کرتے وقت، صرف عورت کیلئے نرم گوشہ نہ رکھا جائے بلکہ مرد کی بھی شنوائی کی جائے۔ انہیں بچوں سے ملاقات کیلئے پرائیویسی کا احترام کرتے ہوئے، دوستانہ گھریلو ماحول فراہم کیا جائے کیونکہ عدالت کا احاطہ کسی صورت ملاقات اور وقت گزاری کیلئے سازگار نہیں ہوتا۔
میں سمجھتا ہوں کہ منصفین کو ''وائس آف فاردرز'' کی ان تجاویز پر غور کرنا چاہئے۔ گھریلو ناچاقیوں کی وجہ سے بچوں کو ماں کی ممتا یا باپ کی شفقت سے محروم نہیں رکھا جانا چاہئے۔ عدالتیں دوران کیس، بچوں کو ترجیحاً ماں کے حوالے تو کر دیتی ہیں، لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ والد کو بھی یہ حق دیا جائے کہ وہ تاریخوں کے جھنجھٹ سے آزاد رہ کر اور عدالتی چار دیواری سے باہر بھی اپنی اولاد سے جب چاہے، مل سکے۔ اپنے ہی بچوں سے ملوانے کیلئے تاریخیں ڈالنا کہاں کا انصاف ہے، جج صاحبان؟ انہیں ملزموں کی طرح ملنے کی بجائے مہذب انداز میں ملنے کا حق دیجئے۔ بچوں کو آزمائش میں ڈالنا انہیں احساس محرومی میں مبتلا کرنے اور ان کا مستقبل تباہ کرنے کے مترادف ہے، جس کی ذمہ داری بعد ازاں کوئی بھی فریق لینے کو تیار نہیں ہوگا، اور یہ بچے رولنگ بال بن کر رہ جائیں گے۔ اور یوں ان کی زندگی صدمات میں گزرے گی۔
 

Muhammad Noor-Ul-Huda
About the Author: Muhammad Noor-Ul-Huda Read More Articles by Muhammad Noor-Ul-Huda: 85 Articles with 83246 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.