رشتوں کو جوڑنے اور نبھانے والے

رشتہ اس بات پر مبنی ہے کہ آپ کا خدا اور اس کی مخلوق کے ساتھ کس طرح اچھا تعلق ہے۔ رشتہ اس بات پر مبنی ہے کہ آپ کا خدا اور اس کی مخلوق کے ساتھ کس طرح اچھا تعلق ہے۔
رشته توڑ دینے کا مشوره دینا آسان هے ، رشتوں کو جوڑنے اور نبھانے والے بنیے ، کیونکه الله نے یه قرابت داریا‌ں جوڑنے کے لیے بنائی هیں نه که توڑنے کے لیے .. لیکن المیه یه هے که هم لوگ بد گمانیوں اور غلط فهمیوں کو دور کر کے رشتے بچانے کی بجاۓ ، اپنی انا کو سلامت رکھنے کے چکر میں رشتوں کو جوتے کی نوک په رکھ دیتے هیں ... اپنی غلطی کو‌ تسلیم کرنے کی بجاۓ دوسروں په کیچڑ اچھالنا هماری عادت بن چکا هے ، قطع تعلقی تو رواج بن چکا هے همارے معاشرے میں ، اِدھر ذرا سی کسی منافق نے تیلی لگائی ، اُدھر بد گمانی کی پوری دیوار کھڑی هو جاتی هے ، نه تحقیق کرتے هیں ، نه پوچھتے هیں که آیا اس بات کا کوئی سَر پیر هے بھی یا نهیں ، بس ایک پَر کی پوری مرغی بنا دی جاتی هے ... خدارا __ دین کا‌صرف پرچار کرنے سے جنت نهیں ملنی ، تھوڑا عمل بھی چاهیے هو گا ... آقا صلی الله‌ علیه وسلم کا‌ فرمان هے: " لا یدخل الجنة قاطع " ( قطع تعلقی کرنے والا جنت میں داخل نهیں هو گا ) اور یه فرمان هم سب کے لیے هے .. اپنی انا کو ، خودداری کو سلامت رکھیے لیکن هاتھ جوڑ کے بس اتنی سی التماس هے که محض سنی سنائی په اپنے اپنوں په اپنے دروازے بند نه کیجیے .. بدگمانی بھی تو گناه هے " إن بعض الظن إثم "

بتقاضاۓ بشریت هو جاتی هے اُونچ نیچ لیکن اس کا حل بھی همیں همارے مذهب نے بتایا هے .. آپ کو جس کے بارے میں پته چلا ، اس سے پوچھیے که آیا آپ نے ایسی بات کی هے ؟؟

اِدھر اُدھر سے پوچھیں گے تو بات بگڑے گی .. اگر نهیں کی اُس نے تو شکر کیجیے الله پاک کا که اس نے آپ کو کسی دوغلے کی باتوں میں آنے سے بچا لیا اور اگر بالفرض اس نے کی بھی هے تو آپ اس سے اس کاPoint Of View پوچھ لیں ، هو سکتا هے متکلم نے کسی اور نقطۂ نظر سے بات کی هو .. اور چلو اگر اس نے واقعی کر دی هے بات تو اس کو مناسب انداز میں سُلجھا لیجیے .. بجاۓ سب کچھ ختم کرنے کے ، تھوڑا سا جُھک جانے سے اگر رشتے بچ جاتے هیں تو کیا حرج هے ؟؟ کهیں مان جائیے ، کهیں منا لیجیے .. میرے آقا صلی الله علیه وسلم فرمان هے: " جُھک جانے سے اگر عزت کم هو جاۓ تو مجھ سے لے لینا "

یه رشتے الله نے بناۓ هیں بهت محبت سے ... یه الله پاک کی نعمت هے اور نعمت کا‌ شکر کیا جاتا هے ناقدری نهیں ... " لئن شکرتم لأزیدنکم " ( شکر کرو گے تو اور ذیاده عطا کروں گا ) ..

سیدنا یوسف علیه السلام کے بھائیوں نے کنویں میں پھینک دیا ، اپنی طرف سے یوسف کا قصه هی ختم کر دیا لیکن بھول گئے که وه جو سات آسمانوں کے اُوپر هے نا ، وه نه چاهے تو پته بھی نهیں هل سکتا .. اور جب الله نے یوسف کو تختِ شاهی په بٹھایا اور وه والے بھائی جو کبھی فرعون بنے هوۓ تھے ، سوالی بن کر آۓ تو آپ نے ماضی کا کوئی طعنه نهیں دیا ، اتنا بھی نه کها که یار تم لوگوں نے اچھا نهیں کیا تھا میرے ساتھ ... بس اتنا فرمایا: " لا تثریب علیکم الیوم " ( آج کے دن تم پر کوئی ملامت نهیں هے ) اور وه مکه والے جنهوں نے میرے آقا کو جلاوطن کر دیا ، اور ذیاده تکلیف ده بات یه تھی که وه سب اپنے تھے ، اور اپنوں کا غصے میں مارا هوا پھول بھی کانٹے کی طرح چُبھتا هے .. خیر جب میرے آقا صلی الله علیه وسلم چند هی سالوں بعد فاتح مکه بن کر تشریف لاتے هیں ، اور مکه کے وه جابر فرعون اب کپکپا رهے هیں که آج تو عبدالله کا بیٹا همارا قیمه کر دے گا لیکن آمنه کا دُرِ یتیم اپنے جدِ امجد سیدنا یوسف والی سنت کو زنده کرتا هے اور میرے آقا صلی الله علیه وسلم عام معافی کا اعلان فرمادیتے هیں ...

یه سب اُن کے لیے آسان نهیں تھا ، بهت مشکل تھا ، بهت زیاده مشکل لیکن سکھانا تھا اپنی آنے والی امت کو .. که قاتل بھی آۓ تو معاف کر دینا ، نفع نقصان نه دیکھنا بلکه نتیجه الله په چھوڑ دینا ... وه تمهاری پَستی کو بُلندی ، ذِلت کو عزت اور گھاٹے کو نفع میں بدل دے گا اس لیے که وه قادرِ مطلق‌ هے_
 
NAJAF ALI
About the Author: NAJAF ALI Read More Articles by NAJAF ALI: 22 Articles with 23562 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.