رجیم چینج اپریشن اور عمران خان
(Syed Haseeb Shah, Karachi)
9 اپریل کی رات کو ہم اورنگی ٹاون اردو چوک پہ تھے ، خان
صاحب کے بارے میں فیصلہ ہوچکا تھا،ذلت کا شدید احساس تھا ، یوں لگا تھا
جیسے ہمیں سر بازار ذلیل کردیا گیا ہو ، 2018 میں ، میں نے فیصلہ کیا تھا
کہ اس بار اگر خان صاحب کی حکومت نہیں آئی تو میں ملک چھوڑ کر چلا جاؤں گا
، 2022 میں میرے پاس یہ آپشن ختم ہوچکا تھا ، خان کو اکیلا نہیں چھوڑا
جاسکتا تھا ، ہمارے پاس واپسی کے دروازے بند ہوگئے تھے ، ریاست کا ہر پرزہ
ہمارے خلاف تھا ، میں اس رات رونا چاہتا تھا ، چیخ چیخ کر ،
کم ظرف لوگوں نے خان کی زندگی کی طرف سے بھی ہمیں پریشانی میں مبتلا کیا
تھا ، اپنی انا کی تسکین کے لئے خان کے بارے میں خبریں پھیلائی جا رہی تھی
کہ خان صاحب کے منہ پہ تھپڑ مارا گیا ہے ، اب وہ دو تین دن تک نظر نہیں
آئیں گے،
یہ صورتحال تشویشناک تھی ،
جذبات ایک طرف رکھ کر پریکٹیکل ہو کر سوچا تو " ہیڈ لیس " مزاحمت ، اتنی
خطرناک ہوتی ، جس کو لمبر ون بھی افورڈ نہیں کرسکتا تھا ، ہاوس اریسٹ کی
خبروں کا پوسٹ مارٹم کیا تو لوجیکلی ، لمبر ون اور پی ڈی ایم زیادہ رسک پے
نظر آئے ،
لیکن میں یہ بھی جانتا تھا کہ انا کی تسکین کے لئے ملک کو دو ٹکڑے کر دینے
والوں کے لئے خان صاحب کو ہمیشہ کے لئے ہٹا دینا مشکل نہیں ہے ،
اس رات پوری قوم روئی تھی ، اس رات کی تکلیف آج بھی سینے میں گڑھی ہوئی ہے
،
10 اپریل کی صبح بہت بھاری تھا ، خان صاحب کا کوئی ٹوئیٹ نہیں تھا ، کوئی
پیغام نہیں تھا ، خان صاحب کے قریبی لوگوں سے رابطہ کیا ، کوئی کال نہیں
اٹھا رہا تھا ، دہشت بڑھتی جارہی تھی ، یوں لگتا تھا جیسے آکسیجن پہ موجود
مریض سے سانسیں کھینچ لی گئی ہوں ،
ایک منسٹر کے فوکل پرسن کو کال کی ، اس نے کال کاٹ کر " میٹنگ " کا میسج
کیا ،
تشویش بڑھ رہی تھی ، دوست کو وائس میسج کیا کہ " بس خان کی خیریت بتادو "
میرا خیال ہے کہ اس وقت تک خان کے قریبی لوگوں کو اندازہ ہوچکا تھا کہ اس
وقت خان کا پبلک میں انا بہت ضروری ہے ،
میسج آیا کہ " فکر نا کریں ، خان از فائن الحمدللہ "
یوں لگا جیسے سب ٹھیک ہوگیا ہو ،
دوست کو وائس میسج کیا ، شائد میری آواز بھرا گئ تھی ، آواز میں آنسوں سے
گندھی ہوئی چیخیں تھیں، ، میں نے کہا " خان کو بتا دینا ہی از ناٹ الون ،
وی آر ود ہم ، اللہ ود ہم "
دوست کا میسج آیا خان کی پکچر کے ساتھ ، " تمہارا میسج خان کو فارورڈ کردیا
ہے ، "
10 اپریل کو مجھے لگا تھا شاید ہم اکیلے ہوں ، کوئی نا نکلے ، لیکن ہمارے
پاس کھڑا ہونے ، مقابلہ کرنے اور آخری لمحے تک جدوجہد کرنے کے سوا کوئی
آپشن نہیں تھا ، 9 اپریل کی رات ہم سوشل میڈیا کا محاذ سنبھال چکے تھے ، اب
یہ فیلڈ کا میچ تھا ، ہم بھاگ نہیں سکتے تھے ، پھر پوری دنیا نے دیکھا کہ
خان کی محبت اور اپنی عزت کے لئے قوم کس طرح نکلی ہے ، بازی پلٹ چکے تھی ،
اللہ گواہ ہے کہ اس کے بعد ہم میں سے کوئی پیچھے نہیں ہٹا ، بہادر لیڈر
اپنے جیسے بہادر پیدا کرتا ہے ،خان نے ہم سب کو خان بنادیا تھا ، فوکسڈ ،
ڈیڈیکیٹیڈ ، ڈسپلنڈ ، رمضان کے مہینے میں، شدید گرمیوں میں، برسات میں، یہ
قوم ایک ڈسپنلڈ فوج کی طرح صف آرا ہوئی ، چھوٹے چھوٹے بچوں کو گودوں میں
اٹھانے والی مائیں، باپ کے کاندھوں پہ سوار بچے ، معذور بزرگ ، ہر کلاس ،
ہر طبقے سے لوگ نکلے ، ہم نے اللہ کے بھروسے اور خان کی تربیت سے آدھی جنگ
جیت لی ، ہم اس تاریخ کا حصہ بن گئے جس کو اب تک صرف کتابوں میں پڑھا جاتا
تھا ،
با اختیار قوتوں کو اس شخص سے ڈرنا چاہیے جو اللہ کے بھروسے اپنی جنگ لڑتا
ہے ،
|
|