اسقاط حمل سے مراد ایک ایسا عمل ہے جس کے دوران میں رحم
مادر میں موجود بچہ (جو جنین یا حمیل (fetus) کے مراحل میں ہو سکتا ہے) رحم
سے خارج ہوجاتا ہے۔ یہ عمل بچے کی موت کا باعث بنتا ہے (یا پھر خود بچے کی
موت کے باعث بھی ہو سکتا ہے)۔ اس کا مکمل طبی نام اسقاط حمل ہے کیونکہ
اسقاط کا لفظ دیگر مفہوم میں بھی ادا کیا جاتا ہے۔ اسقاط کا عمل ازخود یعنی
قدرتی طور پر مائل بھی ہو سکتا ہے اور یا پھر انسانی مداخلت کا پیدا کردہ
بھی، اسی بنیاد پر اس کو دو اہم اقسام میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
1- مختاری اسقاط یعنی خود بخود (کسی بھی طبی وجہ سے) ہوجانے والا اسقاط۔ اس
کو گرنا (miscarriage) بھی کہا جاتا ہے۔
2- مائلی اسقا ط یعنی انسان کی مداخلت سے اور جراحی یا کیمیائی طریقوں کے
ذریعہ مائل کیا جانے والا اسقاط۔
ہمارے ہاں ایک مخصوص مذہبی طبقہ یہ سمجھتا ہے کہ مانع حمل ذرائع کا استعمال
اس لیے نہیں ہونا چاہیے کہ امت مسلمہ میں اضافہ ہوتا رہے۔ ایسے مذہبی
ٹھیکیدار اسلام کے نام پر اپنی دکانیں چمکائے رکھنا چاہتے ہیں کیونکہ سماجی
طور پر مذہب پر ان کی اجارہ داری ہے۔ اور ہماری حکومتیں ان سے ٹکر لیتے
ہوئی گھبراتی ہیں۔ ہمارے مذپبی ٹھیکیداریہ مضحکہ خیز دلیل دیتے ہیں کہ
آبادی بڑھا کر امت مسلمہ میں اضافہ کرتے ہوئے اسلام کی خدمت کی جائے جو ایک
نام نہاد ملائیت ہے۔ ایسی سوچ کے خلاف شعور و آگہی اور تعلیم کی اشد ضرورت
ہے۔ ان نام نہاد ملاون کی بات کو مان لینے والے زیادہ تر پسماندہ، غریب اور
قدرے ناخواندہ افراد ہوتے ہیں۔ پھر کئی بہت غریب شہری ایسے بھی ہیں جن کے
مطابق کنڈومز، مانع حمل گولیوں یا دیگر ذرائع پر رقوم خرچ کرنا اسلام
کیخلاف ہے۔ اور وہ غریب اور پسماندگی کا شکار لوگ مانع حمل طریقوں کو افورڈ
نہیں کر سکتے۔
اس تکلیف دہ صورت حال کے دوسری جانب ایک طبقہ ایسا بھی ہے، جو تعلیم یافتہ
ہے، باشعور ہے، خوشحال بھی ہے اور صحت مند سوچ کا حامل بھی۔ یہ طبقہ معاشرے
پر بوجھ بننے کے بجائے اس کا بوجھ اٹھانے میں ہاتھ بٹا رہا ہے اور فیملی
پلاننگ کے مذہب پسند مخالفین کی منطق کو غلط ثابت کرتا رہا ہے۔ ضرورت اس
بات کی ہے کہ خاندانی منصوبہ بندی کے حوالے سے سرکاری سطح پر ایسے خصوصی
اقدامات اور پروگراموں کا اہتمام کیا جائے، جو اس سلسلے میں عوام کو زیادہ
باشعور بنانے میں مدد دے سکیں۔
پاکستان ایسا ملک ہے، جہاں اسقاط حمل پر قانونی طور پر پابندی ہے۔ تاہم جو
خواتین ماں نہیں بننا چاہتیں، وہ غیر قانونی طریقے سے اسقاط حمل کراتی ہیں۔
اس طرح یہ عمل طبی لحاظ سے ماں کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ جو
خواتین اسقاط حمل کراتی ہیں، وہ معاشرتی سطح پر ایک بری خاتون قرار دے دی
جاتی ہیں۔ یوں وہ ہمارے معاشرے کی بد ترین ععورت بن جاتی ہیں اور معزز ہونے
کا اعزاز کھو دیتی ہیں، جس سے وہ نفسیاتی اور دیگر سماجی مسائل کا شکار ہو
جاتی ہیں۔ معاشرے میں ایسی خواتین کیلئے کوئی جگہ نہیں ہوتی اور ہم ایسی
خواتین کو معاشرے کی پیشانی پر کلنک کے ٹیکے کی حیثیت سے زیادہ اہمیت نہیں
دیتے۔
دنیا میں بہت سے ممالک میں اسقاط حمل پر پابندی ہے۔ زیادہ تر ممالک میں اس
عمل کو ایک ''گناہ‘‘ سمجھا جاتا ہے، اس لیے وہاں مذہبی حوالوں سے اسقاط حمل
پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ یوں دنیا بھر میں چھپ کر اسقاط حمل کرانے کی
کوشش میں مر جانے والی خواتین کی تعداد بھی مخفی ہی رہ جاتی ہے اور تا حال
ہمارے معاشرے میں اسقاط حمل پر پابندی کے باعث دنیا بھر میں حاملہ خواتین
کی اموات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور اگر اس حوالے سے فوری پر کوئی
لائحہ عمل نہ بنایا گیا تو صورتحال مزید خراب ہو سکتی ہے۔ خاص طور پر ایسا
نہہی ہوا تو دیگر کئی ممالک کے لیے یہ ایک مثال بھی بن سکتا ہے۔
دنیا کے پچاس ممالک میں حمل گرانے کی اجازت صرف اسی وقت دی جا سکتی ہے، جب
ماں کی صحت کو خطرات کا سامنا ہو۔ پاکستان بھی انہی ممالک کی فہرست میں آتا
ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے ایک محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال اسقاط
حمل کے پچیس ملین غیر محفوظ کیس ہوتے ہیں جبکہ کم ازکم ہر سال اس دوران
چاالیس ہزار عورتین اور نوجوان لڑکیاں ہلاک ہو جاتی ہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق دنیا میں ہر سال قریب پانچ کروڑ ساٹھ لاکھ عورتیں اور
نو جوان لڑکیاں اسقاط حمل کرانے پر مجبور ہو جاتی ہیں اور ان میں سے پانچ
کروڑ کا تعلق ترقی پذیر ممالک سے ہوتا ہے، جن میں پاکستان کا نام بھی آتا
ہے اور یہ صورت حال انتہائی گھمبیر اور تشویشناک ہے۔
ایک سروے میں اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں، جہاں آبادی میں اضافہ
انتہائی سرعتی رفتار ہے، ہر سال تقریباً بائیس لاکھ حاملہ خواتین اور
نوجوانلڑکیاں اسقاط حمل کراتی ہیں۔ حمل ضائع کرا دینے کے ان واقعات کی بڑی
وجہ اکثر یہ ہوتی ہے کہ ایسی پاکستانی عورتیں اور لڑکیاں بغیر کسی منصوبہ
بندی کے ہی حاملہ ہو جاتی ہیں یا پھر یہ حمل زناہ کے زمرے میں آتا ہے۔ طبی
اور سماجی ماہرین ایسے کیسز کے لیے خواتین کے ''غیر ارادی طور پر حاملہ ہو
جانیکی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ پاکستان میں عام خواتین اور نوجوان
لڑکیوں، خاص طور پر غریب طبقے اور پسماندہ دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والی
عورتوں کے نہ چاہتے ہوئے بھی حاملہ ہو جانے کے سالانہ لاکھوں واقعات کا ایک
بڑا سبب یہ ہے کہ ایسی خواتین کو مانع حمل ذرائع کا یا تو علم ہی نہیں ہوتا
یا پھر ان کی مانع حمل امکانات تک رسائی نہیں ہوتی۔ کئی واقعات میں ایسی
خواتین کے لیے اسقاط حمل کا عمل جان لیوا بھی ثابت ہوسکتا ہے۔
پاکستان میں 'غیر ارادی حمل‘ کے واقعات کتنے زیادہ ہیں اور ان کے اسباب و
نتائج کیا ہوتے ہیں یہ ایک بہت سنجیدہ مسئلہ بن چکا ہے کیونکہ پاکستان میں
اس کی سرعت سے بڑھتی ہوئی شرح ایک خطرناک حد تک پہنچ چکی ہے۔ روزانہ چھ
ہزار سے زائد واقعات میں اسقاط حمل کرایا جاتا ہے۔ یعنی ہر سال قریب بائیس
لاکھ۔ ان میں سے غیر ارادی طور پر حاملہ ہونے والی خواتین اور لڑکیوں کی
تعداد تقریبا? پچاس فیصد ہوتی ہے۔
دنیا کے چھبیس ممالک میں اسقاط حمل پر پابندی ہے جبکہ انتالیس ملک ایسے
ہیں، جہاں حاملہ عورت کی جان بچانے کے لیے اسقاط حمل کی
اجازت ہے۔ پاکستان میں ہر سال تقریبا? دس ہزار خواتین دوران حمل، اسقاط حمل
یا پھر بچے کی پیدائش کے بعد پیدا ہونے والی طبی پیچیدگیوں کے نتیجے میں
موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔
ہسپانوی حکومت نے ایک پیکیج متعارف کرایا ہے جس میں اسقاط حمل کے حقوق میں
توسیع اور 16 اور 17 سال کی نو عمر لڑکیوں کو اسقاط حمل سے پہلے والدین کی
رضامندی حاصل کرنے کی لازمی شرط پورا نہیں کرنا ہوگی۔
اسپین کی حکومت کی طرف سے اسقاط حمل کے بارے میں یہ اقدامات ایک ایسے وقت
پر کیے گئے ہیں جب سپریم کورٹ اسقاط حمل کے آئینی حق کو واپس لینے کے لیے
نصف صدی سے قریب جاری کوششوں کے بارے میں اقدامات کی تیاری کر رہی
ہے۔ہسپانوی حکومت کی ایک ترجمان ایزابل روڈریگز نے مجوزہ بل کے بارے میں
کہا کہ،'' اس میں پیش کی گئی تجاویز دراصل خواتین کے حقوق کے لیے ایک نیا
قدم اور جمہوریت کے لیے بھی نیا قدم آگے بڑھانے کے مترادف ہے۔‘
ارجنٹائن اسقاط حمل کو قانونی قرار دینے والا لاطینی امریکہ کا پہلا ملک
رومن کیتھولک اکثریتی آبادی میں ایسی انقلابی تبدیلی کے پیچھے صدر البرٹو
فرنینڈیز کا بنیادی کردار تھا۔
گرین لینڈ ایسا ملک ہے جہاں اسقاط حمل کی تعداد پیدائش سے زیادہ ہے۔
امریکہ کی سپریم کورٹ نے اسقاط حمل کے حق کو ختم کر دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے
50 سال قبل دیے گئے اپنے ہی ایک فیصلے کو کالعدم قرار دیا ہے جس میں اسقاط
حمل کو قانونی عمل قرار دیا گیا تھا۔ اس فیصلے کے بعد لاکھوں امریکی خواتین
اسقاط حمل کے قانونی حق سے محروم ہو جائیں گی۔اسقاط حمل کی سہولت فراہم
کرنے والی تنظیم 'پلانڈ پیرنٹ ہڈ' کی تحقیق کے مطابق مجموعی طور پر بچہ
پیدا کرنے کی صلاحیت رکھنے والی تقریباً تین کروڑ 60 لاکھ خواتین کے لیے
اسقاط حمل کے ذرائع تک رسائی منقطع ہونے کی توقع ہے۔ سابق امریکی صدر براک
اوباما نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے ٹویٹ کیا ہے کہ ’آج
سپریم کورٹ نے ناصرف 50 برسوں پر محیط نظیر ختم کر دی بلکہ انھوں نے کسی کے
بھی انتہائی ذاتی فیصلے کو سیاستدانوں کے مزاج کے تابع کر دیا ہے۔ (اس
فیصلے نے) لاکھوں امریکی شہریوں کی آزادی پر حملہ کیا ہے۔‘
ہمیں، نا خواندہ اور دیہاتی عورتوں کو جنسی صحت، مانع حمل اور معاشرتی طور
پر معیوب یا ممنوع موضوعات پر تعلیم دینے کی اشد ضرورت ہے تا کہ آبادی کے
تیزی سے برھتے ہوے طوفان کو روکا جا سکے۔
|