سیکھو اور سکھا
(Pervaiz Mola Buksh, Karachi)
یہ بات سے کوئی انکار نہیں کرتا کہ سیکھنا اور علم حاصل
کرنا انتہائی ضروری ہے۔مگر، یہ بات کوئی نہیں مانتا کہ سکھانا بھی ضروری ہے۔
جس طرح پڑھنا ضروری ہے اس ہی طرح لکھنا بھی ضروری ہے۔ اس بات کو سمجھانے کے
لئے مجھے آپکو ایک کہانی سنانا پڑیگا۔ نیچے دیے گئے کہانی میں لکھنے اور
پڑھنے والوں کی خاصیت بیان کرنے کی کوشش کی ہے میں نے۔
یہ دو جڑواں بھائیوں کی کہانی ہے جن میں سے ایک کا نام عابد اور دوسرے کا
نام عطا تھا۔ ایک بھائی کو زیادہ بات کرنا اور دوسرے کو خاموش رہنا پسند
تھا۔ ایک کو لکھنا جبکہ دوسرے کو پڑھنا گوارا تھا۔ ایک زیادہ دوست بناتا
تھا اور دوسرے اکیلے رہتا اور اپنے ساتھ وقت گزارتا تھا۔ سادہ الفاظ میں
کوئی کچھ یوں بھی کہ سکتا ہے کہ وہ دونوں بھائی ایک دوسرے کے مخالف اور ضد
تھے جنکا سوچ اور نظریہ ایک دوسرے سے بالکل الگ تھا۔
عابد ایک مصنف بننا چاہتا تھا اور عطا کو پڑھنے کا بے حد شوق تھا اس نے
اخبارات اور دیگر تحریروں سمیت متعدد کتابیں پڑھیں۔ عطا نے وہ مقام حاصل
کیا جہاں علم کے معاملے میں کوئی دوسرا اسے شکست نہیں دے سکتا تھا کیونکہ
اس نے پڑھ کر ہزاروں زندگیوں کا تجربہ کیا۔ وہ ہر کسی کے سوال کا جواب دے
سکتا تھا جب کہ کوئی بھی اس کا جواب نہیں دے سکتا تھا اور اگر کوئی اسکو
جواب دے بھی دیتا تو یہ پھر سے سوالات کرتے، ہر جواب پر ایک سوال مزید
کرتے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ عطا اس زمانے کے سقراط تھے ۔
عابد جس نے بہت سی کتابیں لکھیں مگر بد قسمتی سال 24 سال کی عمر میں انتقال
کر گئے ۔لیکن اسکی مضامین، تحریریں دوسروں کے لیے بہت مددگار ثابت ہوئیں
اور ان تحریروں کی وجہ سے ہزاروں لوگوں نے ان کا دم گھٹنے والی چیزوں پر
قابو پایا اور وہ ان کی کتابوں سے بہت کچھ سیکھ چکے۔ لوگ جب بھی ان کی
تحریریں پڑھیں گے انہیں یاد کریں گے۔
کیا آپ کو تعجب نہیں ہوتا کہ لوگ عطا کو کیوں یاد نہیں کرتے؟ جواب یہ ہے کہ
وہ صرف اپنے لیے جیتا تھا۔ بس، سیکھا اور اپنا علم بڑھایا اور دوسروں کے
کام نہیں آیا۔ جبکہ عابد اپنی تحریروں سے دنیا کو نئی شکل دینے اور زندگی
کے خوبصورت ترین اسباق دینے کے لیے زندہ رہا۔ اس کے کام اور تعاون لازوال
ہیں کیونکہ وہ سب کے لیے فائدہ مند ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک قاری اور ایک پرھنے والا مرنے سے پہلے ہزاروں
زندگیاں جیتا ہے۔ وہ جنتی کتابیں پڑھے گا اتنا سیکھے گا لیکن یہ بھی سچ ہے
کہ ایک مصنف کی تخلیقات قیامت تک موجود رہتی ہیں کیونکہ جب اس کی تحریریں
پڑھی جائیں گی تو اسے اس طرح یاد رکھا جائے گا جیسے ارسطو صدیوں پہلے مر
گیا تھا اور لوگ آج بھی یاد کرتے ہیں۔ جیسے ڈیل کارنگی، روبرٹ کیوسکی، جن
سے ہمارا دور دور تک تعلق نہیں مگر انکا نام کس عزت و احترام سے لیتے ہیں
وہ دنیا جانتی ہے۔
|
|