جمعہ نامہ: آئین جوان مرداں حق گوئی و بیباکی

 سورۂ اعراف میں حضرتِ ہود ؑ کی دعوت اور طریقۂ کار یوں بیان ہوا ہے کہ :’’اور عاد کی طرف ہم نے ان کے بھائی ہودؑ کو بھیجا اس نے کہا ’’اے برادران قو م، اللہ کی بندگی کرو، اُس کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں ہے پھر کیا تم غلط روی سے پرہیز نہ کرو گے؟‘‘ دعوت و تبلیغ کے عمل میں داعی اور مدعو کے درمیان برادرانہ تعلق کے اظہار کی خاطر نبی وقت کو قوم کا بھائی بتایا گیا ۔ قوم سے خطاب میں بھی کمال اپنائیت کا الحاظ رکھا گیا ہے۔ اس کے بعد ٹھیٹ اور واضح دعوت ِ توحید نیز اصلاح حال کے لیے استفہامیہ انداز میں غور وفکر کی ترغیب دی گئی مگر جواب میں :’’اس کی قوم کے منکرسرداروں نے کہا "ہم تو تمہیں بے عقلی میں مبتلا سمجھتے ہیں اور ہمیں گمان ہے کہ تم جھوٹے ہو‘‘۔ اس کرخت جواب کے بعد کسی فرد کا آگ بگولہ یا دل برداشتہ ہوجانا تقاضائے فطرت ہے لیکن قربان جائیے حضرت ہودؑ پر کہ : ’’ انہوں نے کہا "اے برادران قوم، میں بے عقلی میں مبتلا نہیں ہوں بلکہ میں رب العالمین کا رسول ہوں تم کو اپنے رب کے پیغامات پہنچاتا ہوں، اور تمہارا ایسا خیر خواہ ہوں جس پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے ‘‘۔

اس آیت میں کارِ رسالت یعنی ربِ ذوالجلال کی پیغام رسانی کے ساتھ خیر خواہی اور بھروسہ مندی کا ذکر کیا گیا ہے۔ ہر قسم کے ابلاغ کی اثر پذیری کے لیےیہ لازمی عناصر ہیں۔ ابلاغ یعنی میڈیا کے اس انقلابی دور میں ذرائع ابلاغ کی نعمت سے صرفِ نظر کفرانِ نعمت کے مترادف ہےلیکن اگر مخاطب کسی کو اپنا بدخواہ سمجھے یا اس پر اعتماد نہ کرے تو وہ اس کے پیغام پر خاطر خواہ توجہ نہیں دے گا اور تمام تر آسانی کے باوجود اسے آگے نہیں بڑھائے گا ۔ فیک نیوز کے اس دور میں جہاں ایک سچ کے ساتھ سیکڑوں جھوٹ کی بھرمار ہوتی گودی میڈیا کےصحافیوں کو نہ تو خیر خواہ سمجھا جاتا ہے اورنہ ان اس پر بھروسہ کیا جاتا ہے۔ پیغام رسانی کے تعلق سے ایک اہم قرآنی ہدایت یہ بھی ہے کہ:’’جو اللہ کے پیغامات پہنچاتے ہیں اور اُسی سے ڈرتے ہیں اور ایک خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے۰۰۰‘‘۔یہاں اللہ کی خشیت کے ساتھ دیگر انسانوں سے بے خوفی کی تلقین اس بات کی جانب اشارہ کرتی ہے کہ جو لوگ پیغام حق کو لے کر اٹھتے ہیں انہیں ڈرایا دھمکایا جاتا ہے لیکن وہ خوفزدہ نہیں ہوتے ۔

محمد زبیر اس کی تازہ مثال ہے۔ وہ روایتی اندا ز کا داعیٔ اسلام تو نہیں ہے مگر اسلام اور مسلمانوں کا دفاع ضرور کررہاہے۔ اسی حق گوئی و بیباکی نے باطل پرستوں کو اس کا دشمن بنادیا۔ اس پر نکیل کسنے کی خاطر مرکزی حکومت تحت کام کرنے والی دہلی کی پولیس کے علاوہ بدنامِ زمانہ اترپردیش انتظامیہ بھی سرگرمِ عمل ہوگیا ۔ آئی ٹی سیل نے زبیر کے خلاف عوام سے ایف آئی آر کرنے سرِ عام اپیل کی جو ناکام رہی۔ اس جہاں دو نامعلوم لوگوں نے لبیک کہا وہیں محمد زبیر کی حمایت میں سیکڑوں نامور لوگ میدان میں آگئے۔ دہلی پولیس انہیں غیر قانونی طور پرگرفتار کر کےہراساں کرنے کی خاطربنگلور لے گئی ۔ اترپردیش کی پولیس انہیں حراست میں لے کرسیتا پور جیل میں بند کردیا ۔ جملہ ۶؍ جعلی ایف آئی آر داخل کر کے ایس آئی ٹی تشکیل دے دی ۔ دہشت زدہ کرنے کی مذموم کوششوں کے باوجود محمد زبیر نے نہ تو اپنے ٹویٹ سے انکار کیا اور نہ معافی مانگی ۔ وہ اپنے موقف پر ڈٹے رہے

اس صبرو استقامت کے نتیجے میں ان کی حمایت ملک کے حدود سے نکل کر عالمی سطح پر پہنچ گئی۔جرمنی سے لے کر اقوام متحدہ تک سبھی نے نہ صرف حکومتِ ہندپر تنقید کی بلکہ محمد زبیر کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ نوپور شرما کے بعد حکومت کی یہ دوسری رسوائی تھی لیکن اڑیل ٹٹو کی مانندوہ اڑی رہی یہاں تک کہ عدالتِ عظمیٰ نے دہلی پولیس کو رسوا کرکے یوپی انتظامیہ کی ہیکڑی نکال دی ۔ محمد زبیر جیسےبہادر لوگوں کے لیے قرآن حکیم میں یہ خوشخبری ہے کہ :’’ بشارت دے دو اُن لوگوں کو جو ایمان لائے ہیں کہ ان کے لیے اللہ کی طرف سے بڑا فضل ہے اور ہرگز نہ دبو کفار و منافقین سے، کوئی پرواہ نہ کرو ان کی اذیت رسانی کی اور بھروسہ کر لو اللہ پر، اللہ ہی اس کے لیے کافی ہے کہ آدمی اپنے معاملات اُس کے سپرد کر دے‘‘۔ حقیقت یہی ہے کہ ان دگر گوں حالات میں فضل خداوندی نے محمد زبیر کو دشمنانِ دین کے مقابلے کامیاب و کامران کردیا ۔ کسی زمانے میں لوگ سوال کرتے تھے کہ ہمارے پاس رویش کمار جیسا دلیر صحافی کیوں نہیں ہے؟ آج وہی کہہ رہے ہیں کہ کسی کے پاس محمد زبیر جیسا جانباز صحافی کہاں ہے؟
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1220676 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.