روحانی شیطان

خط کیا ایک سلگتا ہوا سرخ انگارہ تھا جو میرے رگ و پے کے ظاہر و باطن کو جھلسا رہا تھا خدا ئے بے مثال کے خاص کرم سے جب سے میں کو چہ تصوف راہ فقر کا طالب علم ہوا تھا پہلے دن سے روحانیت تصوف کے لبادے میں چھپے چہروں کے شیطانی کرتوتوں سیاہ کاریوں سے آشنا ہو تا آیا ہوں کہ کس طرح سجادہ نشین قبروں کے اندر آسودہ خاک نیک ولیوں کی کمائی اور شہرت کو اپنے ذاتی فائدوں اور ہوس کے لیے استعمال کر تے آرہے ہیں جب بھی کو ئی ایسا کردار سامنے آتا ہے تو قلب و جان کے ساتھ روح کچلی جاتی ہے کہ ان نیک نفوس قدسیہ کے ناموں کو یہ گدی نشین کس برے طریقے سے اپنی مکروہ جنسی مالی خواہشات کی تسکین کرتے ہیں پچھلے پچیس سالوں میں ایک سے بڑھ کر ایک شیطانی انسان پیروں فقیروں درویشوں کے بھیس میں سامنے آیا کہ خدا کی پناہ لیکن یہ جو کردار جس پر میں آج بات کرنے لگا ہوں اِس نے جہاں شرافت اخلاقیات کو پامال کیا وہاں پر وہ مقدس مذہب کو بھی کچل کر رکھ دیا چند دن پہلے میرا ایک کالم ــ’’ مرید بیٹی ‘‘ جب اخبارات میں آیا تو بہت سارے لوگوں نے پڑھ کر پسند کیا پھر اپنے جذبات کا اظہار بھی کیا لوگوں نے فون پر میسجز پر اور خطوط میں پسندیدگی کا اظہار کیا انہی خطوط میں یہ خط آیا جس کو پڑھ کر میں ریزہ ریزہ ہو کر آگ کے انگاروں پر لوٹنے لگا کہ یہ بزم تصوف میں کیسی کالی شیطانی بھیڑیں ہیں جو گلشن تصوف کو خوشبودار پاک فضا کو شیطانی مکروہ اندھیروں سے خراب کر رہے ہیں یہ خط ایک جوان نیک راہ حق تصوف کی طالبہ کی طرف سے تھا جس کا خاندان صدیوں سے اولیا اﷲ کی عقیدت و احترام میں زندگیاں گزارتا آیا ہے جس کی رگ رگ میں اولیاء اﷲ کی محبت عقیدت سمائی ہوئی ہے جو اولیاء اﷲ کو زمین پر خدا کا روپ سمجھتے ہیں اولیاء اﷲ کے قدموں کی خاک کو ماتھے کا سندور سمجھتے ہیں لیکن اولیاء اﷲ فقیروں کے ڈیروں پر کیسے شیطان قابض ہیں کہ خدا کی پناہ معصوم بیٹی خط کا آغاز اِسطرح کرتی ہیں ۔ سر آپ کا کالم مرید بیٹی پڑھا تو اچھا لگا میں بچپن سے روحانیت کی طالبہ ہوں میں کہ میرا خاندان نسل در نسل صدیوں سے اولیاء اﷲ سے محبت اور عقیدت کرتا ہے میں جس گھر میں پیدا ہوئی وہاں پر روحانیت تصوف عشق الٰہی ذکر اذکار کا ماحول تھا میں نے اپنی ماں نانی دادی کے ساتھ نانا دادا چچاؤں کو اولیا اﷲ کے قدموں میں بیٹھے دیکھا روحانیت تصوف سے لگاؤ عشق ماحول کے ساتھ ساتھ میرے فطرت میں بھی بہت تھا جب سے ہوش سنبھالا میں نے ایک بھی نماز ترک نہیں کی۔ میلاد شریف ختم شریف اور مختلف اولیا کرام کے عرس مبارک پر ہمارے گھر میں نیاز اور روحانی محافل کا انعقاد شروع سے ہو تا آیا ہے اِس کے ساتھ ساتھ کسی بزرگ کے ہاتھ پر بیعت ہو نا بھی بھی نا گزیر سمجھا جاتا ہے کہ ہمارے خاندان میں شاید ہی کوئی ایسا ہو جس نے ہوش سنبھالا ہو اور وہ کسی کے ہاتھ پر بیعت نہ ہوا ہو لہذا جب میں نے ہو ش سنبھالا تو میں بھی خاندانی پیر صاحب کے ہاتھ پر بیعت ہو گئی جو نسل در نسل کئی سالوں سے ہمارے خاندانی پیر تھے ہمارے گھر میں چھوٹے سے چھوٹا کام اور بڑے سے بڑا کام پیر صاحب کی اجازت اور مرضی سے کیا جاتا تھا آپ سمجھ لیں ہماری رگ رگ میں پیر صاحب کی محبت عقیدت کو ٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ہمیں بچپن سے سمجھایا اور سکھایا جاتا تھا پیر راضی تو خدا رسول ؐ راضی اگر مرشد ناراض ہو گیا تو رب ناراض ہو گیا پیر صاحب جب بھی ہمارے گھر آتے ہم سارا خاندان ان کو اونچی کرسی پر بیٹھا کر خود اُن کے قدموں میں بیٹھ کر بنا پلک جھپکے صرف اُن کا دیدار کر تے ان سے پیار لینے باری باری ان کی ٹانگیں پاؤں دباتے خود کو دنیا کے خوش قسمت ترین انسان سمجھتے کہ پیر صاحب ہمارے بھاگ جگانے ہمارے گھر تشریف لائے ہوئے ہیں پیر صاحب سے دم کروانے پانی پر اپنی کتابوں پنسلوں پر کپڑوں پر دم کراتے ایک دن سے لے کر اسی سال تک کا ہر فرد پیر صاحب سے دم کروانا اپنی خوش قسمتی سمجھتا تھا اِس ماحول میں ہی میں نے جوانی کی دہلیز کو کراس کیاتو جوانی ٹوٹ کر مُجھ پر خوب برسی میری خوبصورتی کے چرچے خاندان سے باہر سارے شہر میں پھیل چکے تھے جو مجھے دیکھتا چونک جاتا پھر دیکھتا ہی رہ جاتا میں اپنی بے مثال خوبصورتی کو بھی پیروں کی دعا سمجھتی تھی اِس سال جب پیر صاحب ہمارے گھر تشریف لائے تو جب میں سلام کے لیے اُن کے قدموں میں بیٹھی اور جب پیر صاحب کی نظر مُجھ پر پڑی تو ان کی نظر بھی جم کر رہ گئی پھر بولے تم جوان ہو کر بہت خوبصورت ہو گئی ہے تم کو میری دعا لگی ہے اب تم پر دولت نچھاور ہو گی وہ بار بار مجھے سر سے پاؤں تک دیکھ رہے تھے اور میرے حسن لازوال کی تعریف بھی کر رہے تھے میں پیر صاحب کی تعریف پر ساتویں آسمان پر کہ میرا مرشد میری تعریف کر رہا ہے اگلے سال پیر صاحب ہمارے گھر آئے تو آتے ہیں اعلان کیاکہ یہ بچی کالج کی تعلیم ہمارے گھر میں رہ کر حاصل کرے گی اِس طرح پیروں کی خدمت روحانی تعلیم اور دنیاوی تعلیم کا بھی موقع ملے گا میرے سمیت میرے گھر والے بہت خوش کہ مجھے اتنی بڑی سعادت نصیب ہو رہی ہے اِس طرح میں پیر صاحب کے گھر میں شفٹ ہو گئی پیر صاحب نے گھر میں جا کر اعلان کیا کہ یہ میری خاص طالبہ ہے میرے سارے کام اب یہ کرے گی میں اور خوش اب میں دن رات سائے کی طرح پیر صاحب کی خدمت میں لگی رہتی لیکن میری اس خوش فہمی نے اُس رات دم توڑ دیا جب میں پیر صاحب کے پاؤں دبا رہی تھی اورپیر صاحب نے مجھے دبوچ لیا میں نے حیرت سے پیر صاحب کی طرف دیکھا تو اُن کی آنکھوں میں جنسی بھیڑیے کی چمک تھی پھر پیر صاحب نے وہی کیا جو جنسی بھیڑیا کرتا ہے میں برباد ہو چکی تھی شدید ذہنی کشمکش کا شکار کیونکی پیر صاحب بار بار مجھے کہتے تمہارے جسم روح ہر چیز پر میرا حق ہے اِس طرح ایک سال کا وقت گزر گیا پیر صاحب چالاک تھے ایسی ادویات دیتے رہتے کہ میں ماں نہ بن جاؤں ایک سال تک میں ظلم و ستم کا شکار رہی پھر پیر صاحب کا کسی دوسری پر دل آگیا مجھ سے دل بھر گیا مجھے واپس بھیج کر اُس دوسری لڑکی کو ذاتی کنیز بنا لیا میں معصوم شدید کنفیوژن کہ یہ پیر صاحب کی خدمت جائز تھی کہ ناجائز اپنے گھر آکر ماسٹر ڈگری تک تعلیم حاصل کی تصوف روحانیت کی کتابوں کا مطالعہ کیا تو پتہ چلا پیر صاحب تو جنسی شیطان ہے جس نے میری عقیدت سے کھیل کر اپنی جنسی تسکین حاصل کی ہے میں تو برباد ہو گئی تھی لیکن آپ میرا خط ضرور شائع کریئے گا تاکہ روحانی طالب عالم لڑکیاں اِسی ذلت سے دوچار نہ ہوں میں معصوم تھی باقی لڑکیاں اِس روحانی چنگل میں نہ پھنس سکیں روحانی طالبہ کا خط پڑھ کر میرے جسم پسینے میں ڈوب چکا تھا کہ کس طرح شیطانی سجادہ نشین نوجوان معصوم روحانی لڑکیوں کی عزتوں سے کھیل کر اپنی جنسی تسکین حاصل کرتے ہیں اﷲ تعالی ایسے شیطانی پیروں سے سب کی عزتوں کو محفوظ رکھے آمین ۔
 

Prof Abdullah Bhatti
About the Author: Prof Abdullah Bhatti Read More Articles by Prof Abdullah Bhatti: 805 Articles with 736165 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.