"تذکرہ" مرزا قادیانی کے خود ساختہ الہامات کے مجموعہ کا جائزہ
(Muhammad Ahmed Tarazi, karachi)
"تذکرہ" مرزا قادیانی کے خود ساختہ الہامات کے مجموعہ کا جائزہ ڈاکٹر عمیرمحمود صدیقی(رکن اسلامی نظریاتی کونسل،پاکستان)
|
|
|
تذکرہ |
|
"تذکرہ" مرزا قادیانی کے خود ساختہ الہامات کے مجموعہ کا جائزہ ڈاکٹر عمیرمحمود صدیقی(رکن اسلامی نظریاتی کونسل،پاکستان)
ڈاکٹر عمیر محمود صدیقی اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن ہیں اور شعبہ علوم اسلامیہ جامعہ کراچی میں اسسٹنٹ پروفیسر کی حیثیت سے اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔آپ کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔مختلف ٹی وی چینلز پر اسلام کے وقیع موضوعات پر اظہار خیال فرماتے ہیں۔علوم دینیہ کے علاوہ تقابل ادیان،نظریہ پاکستان اور حالات حاضرہ دلچسپی کے موضوعات ہیں۔ آپ کی اردو تصنیفات و تالیفات میں"غزوہ ہند"،"ہم نے پاکستان کیسے بنایا؟"،"غازی یا قاتل"،"غیر مسلم خود کُش حملہ آوروں کی تاریخ"،"حرمت تکفیر مسلم"،"پاکستان کا مطلب کیا؟"،"صقالۃ القلوب"،"مکتوبات انصاری"،"بشارت مسیح علیہ السلام"،"شیخ ابن عربی کا تصور ختم نبوت اور عقیدہ آخرت"وغیرہ شامل ہیں۔جبکہ انگریزی زبان میں درج ذیل چھ کتب اس کے علاوہ ہیں۔ 1:.Dr, Fazlur Rahman Ansari the Ghazali of His Age 2:.The Beacon Light 3:.The Communist Challenge to Islam 4:.Muhammad () the Glory of Ages 5:.The Present Crisis in Islam & Our Future Educational Programme 6:.Guideline for Islamic Propagation & What is the Real Heaven according Quran? تذکرہ"مرزا قادیانی کے خود ساختہ الہامات کے مجموعہ کا جائزہ ڈاکٹر عمیرمحمود صدیقی صاحب کی نئی تالیف ہے۔جس کی وجہ تالیف بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ:"راقم نے "تذکرہ"یعنی مرزا کی جھوٹی وحی کے جس نسخہ پر کام کیا وہ اس کا ایڈیشن چہارم ہے جو 2004ء میں ضیاء الاسلام پریس ربوہ ،پاکستان سے طبع ہوا،جس کا دیباچہ ناظر اشاعت عبدالحئی نے تحریر کیا۔لہٰذا جہاں کہیں صرف صفحہ نمبر درج ہے اس سے مراد درج بالا"تذکرہ"کا وہی نسخہ ہی ہوگا۔ راقم کو مرزا کی کتاب تذکرہ کی Combat Kitتیارکرنے کی تحریک گذشتہ صدی کے عظیم مبلغ اسلام حضرت شیخ احمد دیدات رحمہ اللہ سے ملی۔جن کی تحریر وتقریر نے بے شمار لوگوں کی طرح اس ناچیز کو بھی شدید متاثر کیا۔جس کی وجہ سے تقابل ادیان کے مطالعہ کا شوق پیدا ہوا۔آپ نے بائبل کی Combat Kitمبلغین اور بالخصوص ان مسلمانوں کے لیے تیار کی جن کو ہر دن مسیحی مبلغین کا سامناکرنا پڑتا تھا۔آپ کی اتباع میں ہم نے بھی رد قادیانیت پر یہ ایک مختصر سا کورس ترتیب دیاہے۔قارئین کو چاہیے کہ وہ اسے مرزا کی کتابوں کے ساتھ استعمال کریں تاکہ قادیانی مبلغین پر ان کے مذہب کا بطلان ان پر ظاہر کرنا آسان ہوجائے۔ یہ کتاب چار ابواب پر مشتمل ہے۔باب اوّل:انکار عقیدہ ختم نبوت کی شرعی حیثیت،باب دوم:۔مرزا قادیانی کی جھوٹی شیطانی وحی،باب سوم:۔مرزا کے وہ الہامات جو پورے نہ ہوسکے،اور باب چہارم:۔لطائف مرزا۔ کتاب کا انتساب حضرت سیّدنا فیروز دیلمی رضی اللہ عنہ کے نام ہے۔حضرت فیروز دیلمی وہ صحابی ہیں جن کے بارے میں ملتا ہے کہ مشہور مدعیِ نبوت اسود عنسی کی شورش کو دبانے کے بعد اس کے کامل استیصال کے لیے قیس بن ہبیرہ کی ماتحتی میں جو مہم روانہ کی گئی تھی،اس میں فیروز بھی تھے۔ ان کا شمار اسودعنسی کے قاتلوں میں ہے، بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ قیس نے قتل کیا تھااور بعض سے معلوم ہوتا ہے کہ فیروز قاتل تھے،کچھ روایتوں سے پتہ چلتا ہے کہ قتل فیروز نے کیا تھا،لیکن سرقیس نے تن سے جدا کیا تھا۔حضرت عمرؓ ،اسود کے قتل کا سر افیروز کے سر باندھتے تھے، اور فرماتے تھے ،اس شیر نے قتل کیا ہے۔ (فتوح البلدان بلاذری:۱۱۲) حافظ ابن حجر عسقلانی نے تقریب التہذیب میں لکھا کہ حضرت فیروز دیلمی رضی اللہ عنہ نے اسود کو قتل کیا۔ اسود کے قتل کی خبر آنحضرتﷺ کی وفات سے چند روز پیشتر مدینہ میں آگئی تھی اورآپ کو اس پر بڑی مسرت تھی،ایک دن صبح سویرے آپ نے فرمایا کہ کل مبارک اہل بیت کے ایک مبارک فرد نے اسود کو قتل کیا ہے۔ تاریخ میں یہ بھی ملتا ہے کہ آپ ﷺ نے حضرت فیروز دیلمی رضی اللہ عنہ کے بارہ میں فرمایا: ’’فَازَ فَیْرُوْزُ ‘‘ فیروز کامیاب ہوگیا۔ مرزا قادیانی کے خود ساختہ الہامات کے بارے میں یہ حقیقت پیش نظر رہے کہ مرزا نے اپنی کتاب "براہین احمدیہ" کی اشاعت کے ساتھ ہی کثرت سے الہامات کے دعاوی کا آغاز کر دیا تھا۔ براہین احمدیہ کا نفسِ مضمون اس نکتے کے گرد گھومتا ہے کہ الہام کا سلسلہ ہمیشہ جاری و ساری رہتا ہے کیونکہ الہام ہی کسی مذہبی دعویٰ اور عقیدہ کی صحت اور صداقت کی سب سے زیادہ موثر دلیل ہوتی ہے۔ چنانچہ اس کتاب کے قاری کو کثرت سے الہامات و دعاوی ملیں گے۔ الہاماتِ مرزا کے ضمن میں دلچسپ اور قابل توجہ بات یہ بھی ہے کہ اُسے یہ دعویٰ تو تھا کہ اُسے من جانب اللہ الہام ہوتے ہیں اور اُس نے لوگوں کو اپنے بعض الہام بتائے بھی مگر عجیب بات یہ ہے کہ اُسے کبھی اپنے الہاموں کے معنی بھی نہیں آتے تھے۔ قادیانیوں کے خودساختہ (self-styled) نبی کا یہ عجیب فلسفہ ہے کہ اُس پر خدا کی طرف سے الہام آئیں اوراُسے ان کے معانی کا پتا بھی نہ چلے حالانکہ قرآن سے واضح ہے کہ ایک نبی کا فرض منصبی ہی یہ ہے کہ جو وحی بھی من جانب اللہ نازل ہو وہ اس کا معنی و مفہوم لوگوں کو بتائے۔لیکن طرفہ تماشا یہ ہے کہ قادیانیوں کے نبی کو خود بھی پتہ نہیں چلتا کہ اس پر اترے ہوئے الہام کا معنی و مفہوم کیا ہے۔ آپ دیکھیں کہ وہ اپنی کتاب"براہین احمدیہ" میں انگلش، عربی اور عبرانی زبانوں کے الہامات درج کر کے خوداس امر کا اعتراف کرتا ہے کہ وہ ان کے معانی سے آشنا نہیں۔ یہ ہے مرزا کے اپنے الہاموں کے مفہوم سے ناآشنائی کا علم۔ایک اور جگہ مرزا کہتا ہے :"مگر اس سے زیادہ تر تعجب کی یہ بات ہے کہ بعض الہامات مجھے ان زبانوں میں ہوتے ہیں جن سے مجھے کچھ بھی واقفیت نہیں جیسے انگریزی یا سنسکرت یا عبرانی وغیرہ۔"( نزول المسیح: 57، مندرجہ روحانی خزائن، 18: 435) مرزا کے الہامات پر جب ہم نظر ڈالتے ہیں تو اولاً تاریخ انبیاء سے یہ بات ظاہر ہے اور خود قرآن حکیم اس پر شاہد عادل ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا روزِ آفرینش سے یہ دستور رہا ہے کہ وہ اپنے ہر نبی پر اس کی قوم کی زبان میں وحی نازل فرماتا رہا۔ "وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا بِلِسَانِ قَوْمِهٖ لِیُبَيِّنَ لَھُمْ ط فَیُضِلُّ اللهُ مَنْ يَّشَآء وَیَھْدِيْ مَنْ يَّشَآ۔"(ابراہیم، 14: 4) "اور ہم نے کسی رسول کو نہیں بھیجا مگر اپنی قوم کی زبان کے ساتھ تاکہ وہ ان کے لیے (پیغامِ حق) خوب واضح کر سکے۔" اب یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے مرزا کے لیے جو پنجابی نژاد تھا۔ یہ عادت کیوں بدل ڈالی اور ان کی قوم کے لیے جن میں عربی سمجھنے والوں کی تعداد انتہائی قلیل بلکہ آٹے میں نمک کے برابر تھی عربی میں الہامات نازل ہوتے رہے۔ اس کی جوتوجیہہ مرزا نے کی اس سے خود اس کی تضاد بیانی ظاہر ہوتی ہے۔مرزا کہتا ہے :"یہی ایک زبان ہے جو پاک اور کامل اور علوم عالیہ کا ذخیرہ اپنے مفردات میں رکھتی ہے اور دوسری زبانیں ایک کثافت اور تاریکی کے گڑھے میں پڑی ہوئی ہیں۔ اس لیے وہ اس قابل ہرگز نہیں ہو سکتیں کہ خدا تعالیٰ کا کامل اور محیط کلام ان میں نازل ہو۔"( آریہ دھرم، حاشیہ: 8، مندرجہ روحانی خزائن، 10: 8) اس پر طرّہ یہ کہ اسی خدا نے دیگر زبانوں میں باوجود ان کی کثافت و تاریکی کے ایک دو نہیں بلکہ سینکڑوں الہامات نازل کردیئے۔ پھر مرزاکو ہمہ دانی کے باوصف کون سی ایسی مجبوری لاحق ہو گئی کہ وہ اس زبان کو جو ان کے نزدیک کامل اور پاک تھی چھوڑ کر دوسری کثیف اور ناپاک زبانوں میں پوری بہتر (72) کتابیں تصنیف کر ڈالے اور بے شمار اشعار اردو اور فارسی میں کہہ ڈالے اور مدت العمر پنجابی زبان میں گفتگو کرتا رہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ اس کے الہامات میں جگہ جگہ قرآنی آیات کا تڑکا لگا ہوا ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ آیات دوبارہ کیوں اتریں؟ کیا وہ قرآن سے ناپید ہو چکی تھیں؟یا اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا عربی ذخیرہ الفاظ ختم ہو چکا تھا؟ اس کے جواب میں ہم العجب ثم العجب کے سوا کیا کہہ سکتے ہیں۔ یہ الہامات جن سے مرزا کی کتب بھری پڑی ہیں اس قدر مہمل، بے ربط اور بے سروپا ہیں کہ ان سے موصوف کے ما فی الضمیرکے بارے میں کچھ پتہ نہیں چلتا اور وہ ہوا میں ٹامک ٹوئیاں مارتے نظر آتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ بے ربط جملے کسی عام پڑھے لکھے انسان کے شایان شان بھی نہیں چہ جائیکہ ان بے معنی باتوں کو قدرت کا الہام کہا جائے اور ایساکہنے والے شخص کو نبی مان لیا جائے۔ ہمیں مرزکے مبلغ علم و عرفان پر تو افسوس ہوتا ہی ہے ان سے زیادہ قابلِ افسوس بلکہ قابلِ رحم لوگ تو وہ ہیں جو اس کے پیرو اور متبعین کہلاتے ہیں ۔ لیکن یہ سچ ہے کہ ایمان کا تعلق علم و فکر سے نہیں بلکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے فضل و توفیق کے ساتھ ہوتا ہے۔ ذٰلِکَ فَضْلُ اللهِ یُؤتِيْهِ مَنْ يَّشَآء یہ ہے مرزا قادیانی جھوٹے دعویدار نبوت کے علم کا حال۔جناب ڈاکٹر عمیر محمود صدیقی صاحب کی حالیہ تالیف "تذکرہ " میں مرزا کے ایسے ہی خود ساختہ الہامات اور جھوٹی شیطانی وحی کا علمی اور تحقیق انداز میں جائزہ لیا گیا ہے۔ڈاکٹر صاحب نے مرزا کے اُن الہامات کا بھی ذکر کیا ہے جو کبھی پورے نہ ہوسکے۔ اِس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مرزا کی تمام پیشن گوئیاں نہ صرف جھوٹی ثابت ہوئیں بلکہ مرزا خود ایک کذاب ودجال تھا۔ تذکرہ"مرزا قادیانی کے خود ساختہ الہامات کے مجموعہ کا جائزہ،سٹی آف نالج اسلامک ریسرچ انسسٹیٹیوٹ ،گلشن اقبال کراچی کے تحت شائع ہوئی۔اِس علمی و تحقیقی کاوش پر ہم جناب ڈاکٹر عمیر محمود صدیقی صاحب کو مبارکبا د پیش کرتے ہوئے صحت و عافیت اور آسانی وفراوانی کے ساتھ مزید کامیابی وکامرانی کے لیے دعا گوہیں۔ جزاک اللہ خیرا فی الداین محمداحمد ترازی مورخہ 2اگست 2022ء کراچی
|