آزاد کشمیر میں نئے سیاسی امکانات
(Athar Masud Wani, Rawalpindi)
|
اطہر مسعود وانی
ایک محض ایک ہی ہوتا ہے اور ہر کوئی ایک ہی ہوتا ہے۔ایک اور ایک گیارہ ہوتے ہیں۔ ایک کے ساتھ صفر مل جائے تو دس کا ہندسہ بنتا ہے اور اگر ایک کے ساتھ دو صفر مل جائیں تو ایک سو کا ہندسہ بن جاتا ہے ، یعنی سو فیصد۔ کسی بھی شعبے میں ناکام شخص ایک منفرد تجربے کا حامل ہوتا ہے اور وہ تجربہ یہ کہ اسے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ناکام کیوں ہوا۔لیکن وہ اپنے اس تجربے سے خود اپنی زندگی نہیں بدل سکتا کیونکہ وہ صفر کے مقام پہ پہنچ چکا ہوتا ہے، اسے ضرورت ہوتی ہے ایک کی اور اس ایک کو ضرورت ہوتی ہے دو صفر کی۔ جب یہ تینوں مل جائیں تو ایک سو کا ہندسہ بن جاتا ہے ، یعنی سوفیصد، سو فیصد کا مطلب ہے کہ کامیابی کا مکمل امکان۔
آزاد کشمیر کے سابق وزیر اعظم اور مسلم لیگ ن آزاد کشمیر کے سابق صدر راجہ فاروق حیدر خان نے چند دن قبل ایک بیان میں کہا کہ'' ریاست کوئی بیت المال یا خالصہ سرکاری نہیں جو انڈیا اور پاکستان تقسیم کرتے پھریں''۔ راجہ فاروق حیدر خان کی طرف سے یہ اعلان بھی سامنے آیا کہ مسئلہ کشمیر کی صورتحال،15ویں آئینی ترمیم،ٹوارزم اتھارٹی اور دیگر اہم امور کے حوالے سے آزاد کشمیرکی '' آل پارٹیز کانفرنس '' بلائی جائے گی۔پیپلز پارٹی آزاد کشمیر اور مسلم لیگ ن آزاد کشمیر وزارت امور کشمیر کی طرف سے تجویز کردہ 15ویںآئینی ترمیم اور ٹورازم اتھارٹی کو تسلیم نہ کرنے کے بیانات دینے تک ہی محدود ہیں لیکن فاروق حیدر خان نے اس معاملے پر کل جماعتی کانفرنس بلانے کا اعلان کرتے ہوئے ایک سیاسی عمل کا آغاز کیا ہے۔
وزیر اعظم آزاد کشمیر تنویر الیاس یوں تو اپنے متعدد بیانات میں 15ویں مجوزہ ترمیم کو تسلیم نہ کرنے کا اعلان کرتے آ رہے ہیں تاہم انہوںنے وزارت امور کشمیر کی ہدایت پر آزاد کشمیر کے تین سرکاری افسران کے نام وزارت امور کشمیر کی کمیٹی کے لئے ارسال کئے اور ساتھ ہی اسی معاملے پہ آزاد کشمیر کے وزراء کی ایک کمیٹی بھی تشکیل دی ہے۔وزیراعظم آزاد کشمیر تنویر الیاس کی 15ترمیم کے حوالے سے دلچسپی اس بات میں ہے کہ آزاد کشمیر کابینہ کے وزراء اور مشیران کی تعداد میں اضافہ کیا جا سکے تاہم وزارت امور کشمیر کی طرف سے ارسال کردہ آئینی ترمیم کے مسودے میں وزراء اور مشیران کی تعداد میں اضافے کو کوئی تذکرہ نہیں ہے۔
یہاں یہ بات اہم ہے کہ پاکستان حکومت صرف آزاد کشمیر کے آئین کے آرٹیکل31،33اور56میں ترمیم کے لئے آزاد کشمیر حکومت کو تجویز کر سکتی ہے،مجوزہ 15ترمیم تجویز کرنے کا حکومت پاکستان کو آئینی و قانونی اختیار نہیں ہے ۔آزاد کشمیر حکومت ترامیم کو مسترد کرنے کے بجائے امور کشمیر سے انگیج ہوتے ہوئے سہولت کاری کر رہی ہے۔ وزراء ، مشیران کی تعداد میں اضافے کی ترمیم کرنے کے لئے حکومت پاکستان سے منظوری کی کوئی ضرورت نہیں، ایسی ترمیم آزاد کشمیر حکومت از خود کر سکتی ہے۔یوںوزیر اعظم تنویرالیاس کی طرف سے مجوزہ 15ترمیم کو قبول نہ کرنے کے اعلانات بے معنی ہو جاتے ہیں۔آزاد کشمیر کی سابق مسلم لیگی حکومت کے دور میں بھی حکومت پاکستان کی طرف سے آزاد کشمیر حکومت کے اختیار ات میںکمی کرتے ہوئے کشمیر کونسل کو دوبارہ مالیاتی و انتظامی اختیارات دینے کے لئے آئینی ترمیم کا مسودہ ارسال کیا گیا تھا جسے اس وقت کے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر خان کی سربراہی میں ہونے والے کابینہ اجلاس میں مسترد کر دیا تھا اور کابینہ اجلاس کے بعد اجلاس کے منٹس و بیان جاری کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ '' آزاد کشمیر کابینہ حکومت پاکستان کے آئینی ترامیم کے مسودے کو مسترد کرتی ہے''۔ وزیر اعظم تنویر الیاس سابق حکومت کی طرح ہمت کر سکیں تو کابینہ اجلاس کی منظوری سے یہ فیصلہ اور اعلان کریں کہ آزاد کشمیر کابینہ نے ان ترامیم کو مسترد کر دیا ہے۔
راجہ فاروق حیدر خان نے اپنی اعلان کردہ آپ پارٹیز کانفرنس کے انعقاد کے سلسلے میںسب سے پہلے مسلم کانفرنس کے قائد سردار عتیق احمد خان سے ان کے گھر مجاہد منزل میں ملاقات کرتے ہوئے انہیں کانفرنس کے لئے مدعو کیا۔اب دیکھنا یہ ہے کہ اس آل پارٹیز کانفرنس میں سیاسی رہنمائوں کے درمیان کن امور پر کیا اور کس حد تک اتفاق ہوتا ہے اور کن کے درمیان کس قسم کا اشتراک عمل سامنے آتا ہے۔یہ ایک اتفاق کی بات ہے کہ آزاد کشمیر کی تمام سیاسی جماعتوں کا وجود مسلم کانفرنس سے ہی ہوا ہے۔ سیاسی رہنمائوں کے سیاسی راستے تو جدا ہوئے لیکن باہمی احترام کے رشتے یوں استوار رہے کہ جب بھی آپس میں ملیں، کبھی شکوہ شکایت ،ناراضگی کا تاثر نہیں ملتا بلکہ باہمی تعلقات کے پرانے طور طریقے عود آتے ہیں۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ مسلم کانفرنس سے جب بھی اور جو بھی الگ ہوئے، بنیادی وجہ یہی رہی کہ یہ سمجھا گیا کہ شخصیات کو حیثیت اور اہمیت کے مطابق جائز حصہ نہیں دیا جا رہا۔آزاد کشمیر میں انتخابی سیاست نے خطے کے عوام ہی نہیں بلکہ سیاسی جماعتوںکوبھی اسی بنیاد پر گروپ بندی اور تقسیم کی راہ پہ ڈالا۔کہا جاتا ہے کہ سیاست میں کوئی بات بھی حرف آخر نہیں ہوتی،کوئی دروازہ کبھی بند نہیں ہوتا،ہر بات کے امکان ہر وقت موجود رہتے ہیں۔جب انتشار بڑھ جاتا ہے ، جب فاصلے پیدا ہو جاتے ہیں،جب آپس کے اعتماد میں کمی واقع ہوتی ہے تو نئے امکانات کے نئے دروازے کھل جاتے ہیں۔اور جو قبل از وقت خطرات کو بھانپ کر مناسب فیصلے کر لیتا ہے، اسے صاحب بصیرت کہتے ہیں۔جو انا پرستی، مفاد میں محدود ہو جائے، دل اور دماغ کی تنگی میں مبتلا ہو جائے، وہ نقصان اٹھاتا ہے۔یہی سیاست ہوتی ہے اور اسی کو سیاست کہتے ہیں۔
|