ہیروئن صرف روتی ہے یا پھر شادی کرتی ہے۔۔۔ پاکستانی ڈرامے سب ایک جیسے ہی کیوں؟ چند چینل جنہوں نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں

image
 
پاکستانی ٹی وی ڈرامے چاہے وہ کسی قسم کے ہوں عوام اینٹرٹینمنٹ کے طور پر دیکھتی ضرور ہے۔ یہ شاید ہماری روٹین کا حصہ ہے کہ رات 8-9 ہم نے بالخصوص خواتین نے ڈرامہ ٹائم فکس کیا ہوا ہے اور مجال ہے کہ اس دوران کوئی دوسرا چینل بدل دیا جائے۔ خاتون کی خواہش کے مطابق گھر کے دوسرے افراد کو بھی یہ ڈرامے دیکھنے پڑتے ہیں کیونکہ انھوں نے کہانی ڈسکس بھی تو کرنی ہوتی ہے۔ اب جب زور زبردستی کے تحت یا گھر کی خواتین کا دل رکھنے کو ان ڈراموں کو شوہر حضرات نے بھی مجبوراً دیکھنا ہوتا ہے تو سب سے زیادہ اعتراض کہانی پر ہوتا ہے کیونکہ زیادہ تر کہانیاں تو مردانہ غلبے اور سسرال کے ظلم پر ہوتی ہیں۔۔ مردوں کے دل میں ایک شدید خواہش اٹھتی ہے کہ آخر ان گھسی پٹی کہانیوں پر کس طرح پابندی لگائی جائے تاکہ کوئی معیاری چیز دیکھنے کو ملے خواتین بھی اس بات سے کافی حد تک متفق ہوتی ہیں۔
 
ہماری شوبز انڈسٹری نمایاں طور پر ترقی کر رہی ہے، نت نئے ڈرامے بن رہے ہیں بہت سے ڈرامے ایسے بھی گزرے ہیں جنہیں عوام نے پسند کیا ہے جیسے ہمسفر، زندگی گلزار ہے، میرے پاس تم ہو، پری زاد، من مائل، سنگ ماہ وغیرہ۔ ان میں سے بہت سی ٹیلی ویژن سیریز کی کہانی اس طرح لکھی جاتی ہیں جس سے عوام کے اندر بیداری پیدا ہو اور ان کو سماجی مسائل کے بارے میں آگاہی ہو۔ یہ ایسے واقعات پر مبنی ہوتی ہیں جو ہماری کمیونٹی میں رونما ہوتے ہیں جیسے کہ گھریلو تشدد، جنسی زیادتی، غیرت کے نام پر قتل اور حقیقی زندگی پر مبنی واقعات۔
 
پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری نے بہت سے اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں۔ آج کے ڈراموں کے معیار کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ پروڈیوسرز کا کہنا ہے کہ وہ معیار کو برقرار رکھنے کی کوشش کریں تو وہ مواد 'مین اسٹریم' کے متضاد جاتا ہے۔ یعنی اب عوام جو دیکھنا چاہتی ہے وہ ہی پروڈیوس کیا جاتا ہے ورنہ ڈرامے چلیں گے نہیں۔۔ ناظرین میں یقیناً ایک بڑا گروپ ہے جو ایسے ڈرامے دیکھنا چاہتے ہیں جو عام کہانیوں کے گرد نہیں گھومتے بلکہ انوکھے خیالات پر مبنی ہوتے ہیں لیکن وہ دیکھنے والے بہت کم ہیں سو پروڈیوسرز اور رائٹرزز کو وہ ہی چربہ ڈرامے بنانے پڑتے ہیں۔
 
بہت سے ٹیلی ویژن ڈرامے جیسے رانجھا رانجھا کردی، ڈر سی جاتی ہی سیلا، پری زاد، دل نہ امید تو نہیں، رقیب سے، عہد وفا، آخری اسٹیشن وغیرہ نے ماضی قریب میں ناظرین کا دل جیت لیا ریٹنگ بھی حاصل کی۔ اگرچہ کہانیاں ہٹ کرتیں تاہم پروڈیوسرز اور رائٹرز کا اب بھی اصرار ہے کہ ایسے ڈراموں کو وہ توجہ اور ریٹنگ نہیں ملتی جو دوسرے عام ٹرینڈ کے ڈراموں کو ملتی ہے۔
 
image
 
یہاں یہ کہنا بجا ہوگا کہ معیاری ڈرامے بنانے کے لیے بہت محنت، تخلیقی صلاحیت اور ظاہر ہے وقت کی ضرورت ہوتی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ زیادہ تر چینلز کو سارا سال ڈرامے نشر کرنے ہوتے ہیں اس لیے وہ ہر ایک پروجیکٹ میں اتنی زیادہ سرمایہ کاری نہیں کر سکتے۔ ان چینلز کو مطلوبہ ریٹنگ حاصل کرنی ہوتی ہے اس لیے ظاہر ہے کہ یہ شارٹ کٹ اختیار کرتے ہیں۔ کئی اداکاروں اور ہدایت کاروں نے اس سلسلے میں اپنے انٹرویوز میں مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ پروڈیوسرز کا بنیادی مقصد بزنس ہے اس لئے ناقص ڈراموں کو دیکھنے کے لیے ناظرین پر الزام لگانا ان کے لئے آسان ہو گیا ہے۔ وہ اس حقیقت کو تسلیم کرنا نہیں چاہتے کہ معیاری مواد کے لیے بہت زیادہ ناظرین ہیں کیونکہ یہ ان کے اپنے ایجنڈے کے خلاف ہے۔ کیا یہ خود غرضی نہیں ۔۔۔ آخر سوسائٹی کی اخلاقی تربیت کی زمہ داری کس پر عائد ہوگی؟
 
جہاں عوام پر مسلسل الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ پروڈیوسرز کے لئے کوئی چارہ نہیں چھوڑتے وہیں سوشل میڈیا پر پاکستانی ڈراموں کے زوال کے حوالے سے بھی مسلسل تنقید کی جارہی ہے۔ اس طرح کی تنقید کو اکثر دبادیا جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ زیادہ تر عوام مرچ مسالحہ چاہتی ہے اور ریٹنگ بھی ایسے ہی مواد کی ہوتی ہے جو تیار کرنا اور دوبارہ استعمال کرنا آسان ہےعوام کو صرف معیاری چیزیں دکھائی جائیں گی تو ان کا مائنڈ سیٹ بھی وہ ہی بنے گا اسی طرح سوسائٹی میں تبدیلیاں آتی ہیں آخر پی ٹی وی کے وقت میں لوگ یہ ہی معیاری ڈرامے کیوں دیکھتے تھے؟ کیونکہ وہ معیاری ہی دیکھنا جانتے تھے ۔ یہ واضح ہے کہ پاکستانی ڈراموں کے 3 مین اسٹریم چینلز بتدریج زوال کے ذمہ دار ہیں کیونکہ وہی اصل اسٹیک ہولڈرز ہیں۔ بے شک ان چینلز کو ریونیو کمانا ہوتا ہے لیکن ان کا فرض ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ پاکستانی ڈراموں کا معیار مزید نیچے نہ جائے۔
 
ان معروف چینلز کے چند خاص موضوع ہیں، عورت کی مظلومیت، امیریت کا پرچار، سسرال کے ظلم یا پھر دولت مند کا اپنے سے نچلے طبقے کو دبانا۔ ان کے زیادہ تر ڈرامے انہی موضوعات کے گرد گھومتے ہیں جو اس وقت پاکستانی ڈراموں کے زوال کے ذمہ دار ہیں۔
 
٭جیو نے تو جیسے اپنے آپ کو چھوڑ دیا ہے جس کی وجہ سے اس کے انتہائی وفادار ناظرین نے بھی ان کے ڈراموں کو دیکھنا چھوڑ دیا ہے۔ جیو نہ صرف اسکرپٹ آئیڈیاز کو ری سائیکل کر رہا ہے بلکہ وہ اپنے ڈراموں کے پوسٹرز کو ڈیزائن کرنے میں بھی زیادہ محنت نہیں کرتے ہیں۔ تمام ڈراموں کے لئے ایک ہی ٹائپ کے پوسٹرز استعمال کئے جا رہے ہیں ۔
 
image
 
٭اے آر وائی ڈیجیٹل نے اچھے ڈرامے بھی نشر کیے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اے آر وائی منفی اور زہریلے کرداروں کو زیادہ سے زیادہ اسکرین ٹائم دیتا ہے۔ اے آر وائی سنجیدہ اور حساس موضوعات کو بھی لیتا ہے لیکن یہ ڈرامے اتنی طوالت اختیار کر لیتے ہیں کہ ناظرین کی دلچسپی ختم ہو جاتی ہے۔ چینل پر نشر ہونے والے زیادہ تر ڈرامے عام طور پر بہت تیز رفتاری کے ساتھ شروع ہوتے ہیں لیکن آگے جا کر کہانی کو اتنا لمبا کھینچا جاتا ہے کہ دلچسپی ختم ہو جاتی ہے۔ ان ڈراموں کے فیس بک پر آپ کلپس دیکھ لیں پوری قسط سمجھ آجاتی ہے۔
 
حال ہی میں انہوں نے" کیسی تیری خود غرضی "جیسا ڈرامہ لکھنے کے لیے ردین شاہ جیسے معتبر مصنف کی خدمات لیں۔ ہیرو کا کردار ایک جنونی اور ضدی کا کردار ہے۔ ڈرامے کی کہانی، ایکٹنگ اور دوسری چیزیں بہت اچھی ہے لیکن ہیروئن کا کردار بہت کمزور ہے وہ صرف روتی ہے یا ہوا کے جھونکے پر چلتی ہے یا پھر اس کی شادی کسی اور سے ہوجاتی ہے، ایک طرف میڈیا پاکستانی عورت کو مضبوط کرنا چاہ رہا ہے جو اپنے پیروں پر کھڑی ہے لیکن ڈرامے کے کردار والی عورت وہ ساری محنت ضائع کرتی نظر آتی ہیں۔ حبس ڈرامہ اچھی تھیم پر ہے کہ لڑکیاں کمانے لگ جائیں تو بعض والدین انھیں پیسہ کمانے کی مشین سمجھ کر ان کی شادی نہیں کرنا چاہتے۔ کہانی بہت انوکھی ہے اور ایکٹرز بھی اپنے کردار بھر پور طریقے سے نبھا رہے ہیں بس ڈرامے کو زیادہ طویل نہ کیا جائے اور اس کو ناظرین کی دلچسپی کے ساتھ ہی ختم کر دیا جائے تاکہ لوگ بور ہو کر ڈرامہ دیکھنا نہ چھوڑ دیں۔
 
٭"ہم'' یقینی طور پر دوسرے چینلز کے مقابلے میں 'بہتر' ہے لیکن یہ صرف اس وجہ سے ہے کہ دوسرے چینلز خاص اچھا کام نہیں کر رہے۔ ہم پر اکثر نشر ہونے والے ڈرامے دوسرے دو چینلز پر نشر ہونے والے ڈراموں سے مختلف ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یونیک ڈراموں کی شارٹ لسٹ میں ہم کے اکثر ڈرامے آتے ہیں ۔ کام تو بہت ہو رہا ہے لیکن ابھی مٹھی بھر پاکستانی ڈرامے ہیں جنھیں آپ کسی حد تک معیاری کہہ سکتے ہیں، فی الحال پاکستانی ڈراموں کا زوال ایک بار پھر شروع ہو گیا ہے۔ ان چینلز کو لازمی طور پر اپنے کام میں بہتری لانی پڑے گی! ورنہ شاید فلم انڈسٹری کی طرح ڈرامہ انڈسٹری کو بھی خطرہ ہے۔
 
اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ میڈیا اور ٹیلی ویژن دونوں مل کر معاشرے کی سوچ کی نشوونما میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ماضی کے برعکس، آج کے ڈرامے ہماری ثقافت اور اخلاقیات سے زرا ہٹے ہوئے محسوس ہو رہے ہیں۔ اس لیے یہ کہنا مناسب ہے کہ ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والا مواد ہماری عوام میں موجود اقدار کی تعمیر میں اتنا ہی اہم ہے جتنا تعلیمی ادارے۔ غیر ملکی ممالک میڈیا کی طاقت کو استعمال کرتے ہوئے ایسا مواد تیار کر رہے ہیں جو روایتی منفی پہلوؤں کو ختم کرنے اور معاشرے میں اصلاح پھیلانے میں معاون ثابت ہو رہے ہیں ۔ تاہم پاکستان میں ایسا بالکل نہیں ہو رہا ہے۔
 
آخر ڈرامہ انڈسٹری کا مستقبل کیا ہے؟
حالات اتنے مایوس کن نہیں ہیں کچھ ڈراموں کو ملنے والی بے پناہ کامیابی اور ٹی آر پی کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آنے والے برسوں میں پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری کو بوسٹ مل سکتا ہے۔ اچھے لکھے ہوئے پلاٹوں اور معیاری پرفارمنس سے ٹی وی ڈراموں کی دنیا نئی بلندیوں تک پہنچ سکتی ہے۔ پروڈیوسرز کو نئے نظریات سامنے لانے کی ضرورت ہے، برسوں سے چل رہی کہانیوں سے اب نکلیں۔ خواتین کی خود اعتمادی پر مبنی ڈراموں، سچے واقعات پر مبنی کہانیوں یا مشہور ناولوں اور تاریخی واقعات پر مشتمل پلاٹس یقینا کارآمد ثابت ہوں گے۔
YOU MAY ALSO LIKE: